• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہید کوفہ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام۔۔۔سیدہ ماہم بتول

شہید کوفہ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام۔۔۔سیدہ ماہم بتول

تاریخ انسانی روز اول سے ہی کشت و خون سے آلودہ نظر آتی ہے۔ جہاں قابیل اور اسکے کے ورثاء اہل اللہ سے سدا ہی ستیزہ کار رہے ہیں اور یوں بشریت ہمیشہ سے ہی ظالم و مظلوم کے درمیان بٹی ہوئی آ رہی ہے۔ خلقت آدم علیہ السلام پر ملائکہ نے خلافت ِبشری پر جن تحفظات کا اظہار کیا تھا، بظاہر وہ بھی درست نظر آتے ہیں کہ انسان نے زمین میں فساد اور خون ریزی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لیکن اللہ عزو جل کا فرمان کہ “تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں”۔ اس کی حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے جہاں ایک گروہ بشریت بندگان خدا کو خاک و خوں میں میں غلطاں کرنے میں مشغول رہا ہے تو دوسرا گروہ اس زمین پر خلافت و ولایت الٰہی کے قیام میں مسلسل مصروف عمل ہے اور اپنی جان مال، اولاد اور عزت و آبرو سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر بھی اسکی وحدانیت پر شہادت دیتا ہوا نظر آتا ہے اور انکے کٹے ہوئے حلقوم نسل در نسل وجود الٰہی پر دلیل قائم کرتے رہے ہیں اور خدا سے کئے گئے پیمان کی تکمیل پر سجدہء ہائے شکر ادا کرتے رہے۔ اہل صفا کے اس قبیلے کے سید و سردار امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں جنہوں نے وقت شہادت فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ کہہ کر اپنی کامیابی پر شکرِ ربی ادا کیا۔
 فطرت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کے سر پر کاری ضرب لگے تو انسان بے ساختہ درد کا اظہار ہائے وائے کی صدا سے کرتا ہے اور اگر ہوش قابو میں ہے تو اپنے حملہ آور کی طرف جواب کے لئے لپکتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ امام علی علیہ السلام نے نے زہر میں بجھی تلوار کا وار کھا کر نہ کوئی چیخ و پکار کی اور نہ اپنے دشمن پر غضب کا اظہار کیا۔ بلکہ ایک طرف فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ کہہ کر اپنے پیمان کی تکمیل پر کامیابی کا اعلان کیا تو دوسری طرف اپنے ورثاء اور چاہنے والوں کو دشمن کے ساتھ مروت و کمال مہربانی کی تلقین کی۔ جب نمازی اور محبان اس شدید صدمے پر واویلا کر رہے تھے تو اس وقت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ: ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ کہ یہ وہی ہے تو جس کا اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ ممکن ہے اس سے مراد آپ کا اشارہ رسول للہ ﷺ کی طرف سے دی گئی شہادت کی خبر کی طرف ہو یا اُس حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ امت علیؑ سے غداری کرے گی۔
 حوالہ حدیث: المطالب العالیہ، جلد4، صفحہ56، حدیث 3946 از علامہ ابن حجر عسقلانی۔
کائنات ارضی و سماوی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مضروب اپنے قاتل کے ساتھ شفقت و مہربانی کا اظہار کرے اور اپنے سر پر ضرب کھا کر کہے تو یہ کہے کہ بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ، فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ کہ اللہ کے نام کے ساتھ اور اسی کی قسم کہ میًں رسول اللہ ﷺ کی ملت پر ہوں اور رب کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہو گیا۔
دشمنان اسلام کی جانب سے علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا ﷺ کے ابن عم کو شہید کیا گيا۔ سید الاوصیاء، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی ابن ملجم نے شہید کیا۔
19 رمضان سے  21  رمضان تک آپ علیہ السلام گھر میں اپنے بچوں اور اہل خاندان کے ساتھ انتہائی زخمی حالت میں رہے اور زبان پر ذکر و تسبیح مسلسل جاری رہی۔ جب  21  رمضان کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا تو اس سےچند دقیقے پہلے آپ کی زبان اقدس پر یہ آٰیات تھیں:
 “فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ، وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ “
ترجمہ: پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ( سورۃ الزلزلۃ آیات7-8)
سبحان اللہ کیا شان ہے کہ وقت ضرب رب کعبہ کی قسم اٹھا کر امیر المؤمنین علیہ السلام اپنی کامیابی کی قسم اٹھا رہے ہیں اور وقت شہادت اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وعدہ آخرت حق ہے اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ یہ صرف شان مرتضوی ہے، ورنہ تاریخ میں جو بھی انسان اس دار فانی سے گیا وہ ہاتھ ملتے ہوئے اور توشہ آخرت کی کمی کا رونا روتا ہوا گیا۔
“به کعبہ ولادت به مسجد شہادت”
التماس دعا
سیّدہ ماہم بتول (ہاشمیہ)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّد

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply