پختونستان 2050 میں(1)-آزاد پختون

یہ اکیسویں صدی کا وسط ہے۔دنیا کا نقشہ اب وہ نہیں رہا جو 2020 کی دہائی میں ہُوا کرتا تھا۔ان پچیس تیس سال میں یہ نقشہ کافی تبدیل ہُوا ہے اور ان تبدیلیوں میں سے ایک نام ہے پختونستان،جس کا پھریرا دریائے آمو سے اباسین تک لہرا رہا ہے۔

اب یہ کس شان یا شرمندگی سے لہرا رہا ہے،اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے قیام سے ہی اس پر وہ لوگ قابض ہو گئے تھے جو کبھی طالبان اور اب “غازیان”یعنی غازی کہلاتے ہیں۔اس کے چپے چپے پر بھوک،افلاس اور بیماری کے ساتھ ساتھ خوف،دہشت اور موت کا بسیرا ہے۔

قوم پرستی،جمہوریت،سیکولرازم،ترقی پسندی انسانی حقوق کے نام لیوا بیشتر پختون یا تو اس دیس سے یا دنیا سے ہی عدم کے سفر پر روانہ کر دیے گئے ہیں۔یعنی پختونستان کے اس اجگر نےنمودار ہوتے ہی سب سے پہلے اپنے ان بچوں کو نگلنا شروع کیا جو اس کے قیام کی بدترین انسانیت سوز خونریزیوں میں کسی طور بچ گئے تھے۔

اب یہاں غازیان نامی بنیاد پرست اور جنونی مخلوق ہی پائی جاتی ہے۔لر وبر یو افغان کی بجائے “لر و بر یو غازیان “اس کا سرکاری نعرہ ہے کیونکہ دنیا بھر میں اپنی دہشت گردی کے لیے بدنام یہ غازی پختون عوام کے قتال اور عزتوں کے نیلام گھر سجانے سے لیکر ایک دوسرے تک کی گردنیں اُتارنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔کابل قندھار اور پشاور کے غازی ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرتے ہیں جس کے متعلق ماضی میں بات بات پر پنجابیوں کے خلاف ہر طرح کی نسل پرستانہ مغلظات بکنے والوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔

پختونستان کے دور ِ غلامی میں یہاں کے کئی ایک صاحبان ِ فکرونظر ان خدشات کا اظہار کر چکے تھے کہ مجوزہ پختونستان دراصل تنگ نظر اور رجعت پسندوں کا مُلا  استان ہو گا مگر تب انھیں پنجابی سامراج کا ایجنٹ ،قومی غدار وغیرہ قرار دیا جاتا تھا۔وہ اگر ایک وفاق میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور جمہور و جمہوریت کی بالادستی کو پختونوں کی فلاح و بہبود کا معقول راستہ سمجھتے تھے مگر پختونستان کے سادہ لوح حامیوں سے لیکر واقعی میں سامراجی طاقتوں کے تنخواہ دار مکار لیڈر اسے پختونوں کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔پختونستان کے بیشتر سادہ لوح حامی اب اس سے باہر دور دیسوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں یا پھر قبرستانوں میں آباد ہیں ۔رہ گئے پختونستان کے خود ساختہ وفادار بیٹے یعنی بیرونی سامراجی امداد کے بل بوتے پر پٹاخے پھوڑ کر خود کو نابغہ روزگار قرار دینے والے لیڈر تو وہ اور ان کی آل اولاد یورپ ،امریکہ اور کینیڈا میں خوشحال اور فارغ البال زندگی گزار رہی ہے ان کا پختونستان نامی جہنم میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ان کے لیے یہ صرف ایک تجارتی سودا تھا جس میں انھوں نے پُرتعیش زندگی اور مال و منال اپنے نام کیا۔

خیر پختونستان کی جانب آتے ہیں کہ غازیوں کے پختونستان کی سرکاری پالیسی “ایک فرقے کی حکمرانی“ہے اس لیے یہاں آپ کو اب شعیہ،سنی بریلوی،احمدی صرف قبرستانوں میں ملیں گے۔”ناپاک “ہندوؤں اور سکھوں کا یہاں نام ونشان نہیں ہے۔

معیشت کا حال یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں دہشت گرد تیار کر کے ارسال کرنے کی فیکٹری ہے۔کھیتوں میں کچھ اُگتا نہیں کہ یہاں قدم قدم پر بارودی سرنگوں کا جال ہے۔سو اب تو پوست کیا آلو ٹماٹر کی کاشت بھی محال ہے ۔دورِ غلامی سے یادگار فیکٹریوں کارخانوں کے اب کھنڈرات ہی باقی ہیں ۔

گو غازیان ملک میں زکوٰۃ کا معاشی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں لیکن دِقت یہ ہے کہ یہاں زکوٰۃ  دینے والے نہیں بلکہ لینے کے مستحق بستے ہیں ۔

پختونوں کے اس آزاد دیس میں اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیوں جیسے “شیطانی “اداروں کی بجائے قدیم طرز کے مدرسے ہیں جن میں گم گزشتہ صدیوں کے نصاب رائج ہیں ۔دور غلامی میں یہ مدرسے بچہ بازی کے لیے بدنام تھے لیکن اب ایسے واقعات اور دنیا کے درمیان غازیوں نےآہنی پردے حائل کر رکھے ہیں ۔

پردہ یہاں کی خواتین کا زیور ہے جس کے لیے شٹل کاک برقعوں کا رواج ہے۔لڑکیوں کے کام اور تعلیم پر مکمل پابندی ہے ۔خیر گھر کے کام کے علاوہ یہاں کوئی اور کام ہے بھی کہاں ؟۔غازیوں کے پختونستان میں شادی کا مسئلہ کافی آسان ہے کہ چار چار شادیوں کا مدعی کوئی غازی جب چاہے کسی بھی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے ۔کیونکہ کسی غازی کے سندیسہ ء نکاح سے انکار یہاں گویا احکام الہی سے انکار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا بھر میں اس ملک کا پاسپورٹ آخری درجے پر ہے کہ یہاں کے باشندوں کی وجہ ء شہرت زمین سے لیکر فضا تک میں پھٹ جانے کی ہے۔اس معاملے میں اریٹیریا اور صومالیہ جیسی ریاستیں بھی اس کی ہمسری سے قاصر ہیں ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply