اظہارِ مذمت و دعوتِ مناظرہ/وقاص آفتاب

 پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، پاکستان میڈیکل و ڈینٹل کونسل، ساؤتھ ایشیاء فارما کانگریس، انجمن ماہرینِ  امراض معدہ و جگر، نیشنل ہومیو سوسائٹی ، قومی طِب یونانی فاؤنڈیشن، انجمن سویٹس و بیکری کنفیشکنرز  مشترکہ طور پر  اعلان کرتے ہیں کہ عوام ہوشیار و آگاہ رہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر یو ٹیوبرز اور ٹک ٹاک سٹارز کا ایک  چالاک اور مشکوک گروہ سرگرم عمل ہے جو ہاتھ دھو کر عوام کی صحت برباد کرنے پر  تُلا ہُوا ہے۔ اس گینگ کا سر غنہ ایک لااُبالی اور غیر سنجیدہ نوجوان ہے  جو خود کو کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور  ماہر امراض معدہ و جگر  بتلاتاہے۔ جبکہ گروہ کے دیگر ارکان میں چند  فیشن زدہ خواتین اور ایک نحیف ونزار شوقین ورزش بھی شامل ہے۔

 یہ شریر ٹولہ اپنی دلفریب گفتگو سے  بھولے بھالے لوگوں  کو ایک طرف تو روایتی اور طبیعت میں بشاشت  پیدا کرنے والی دیسی غذاؤں یعنی سموسہ، پکوڑا، بریانی، نہاری، باربی کیو، اور حلوہ وغیرہ سے متنفر کرتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف یہ سپر فوڈ، کیلوریز، لائف سٹائل، کولیسٹرول اور تین منٹ ورزش جیسی مبہم اصطلاحات کی  آڑ میں اچھی اور لمبی زندگی کا جھانسہ بھی دیتا ہے۔

عوام مطلع ہوں کہ ہمارا یعنی درجہ بالا اداروں کا اس گینگ سے یا اس کے کسی فرد سے کوئی تعلق نہیں ۔ نیز  ہم سوشل میڈیا پر اس  گروہ کی طرف سے نشر ہونے والی دیسی پکوانوں کی  محض مخالفت براۓ مخالفت پر مبنی  یکطرفہ اور پروپیگنڈہ ویڈیوز کی پُرزور مذمت بھی کرتے ہیں۔ 

واضح رہے یہ لوگ اپنی اصل میں گمراہ اور باطل نظریات کے پیرو ہیں ۔ بریانی ، پکوڑا، باربی کیو اور دیگر کھانوں کے مضر صحت ہونے  بارے ان کے خود ساختہ خیالات حقائق کے منافی، مؤجب فساد اور مروجہ سائنسی وطبی اصولوں سے متصادم ہیں۔۔ نیز ان پکوانوں کے مستند طبی و تہذیبی فوائد، مثبت معاشی اثرات اور جدید احیاۓ علوم  میں درخشاں کردار سے ان کی چشم پوشی اور دانستہ بے نیازی علمی خیانت کے مترادف ہے۔ چنانچہ ان سب کے دروغ گو ہونے میں درجہ بالا اداروں اور انجمنوں کا بالعموم اتفاق ہے۔

 ان میں سے اکثر ٹک ٹاک سٹارز نفسیاتی طور پر درست قواۓ ذہنی سے محروم ہیں ۔  مزید برآں بوجہ لغزش لسان و نقص حافظہ تا عمر معذور و مجہول بھی ہیں ۔بغض نہاری و کوفتہ میں مبتلا یہ جعلی مسیحا اپنے ہی ساتھی ڈاکٹروں کے معاشی قتل کے مذموم  ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی صورتِ حال” اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے “ کے مصداق ہے۔ اپنی غیر محتاط اور بے لگام گفتگو کی بدولت  یہ نان بائیوں، بیکرز، سموسہ و چاٹ شاپس ، ریستورانز اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹروں، امراض معدہ کے سپیشلسٹوں ، ہومیو پیتھز اور ماہرین طب یونانی کی روٹی روزی کو لات مارنے میں مصروف ہیں۔ انکے غیر ثقہ  پرہیزی مشورے اور اوٹ پٹانگ غذائی ٹوٹکے مریضوں اور معالجین میں مغائرت اور غیر ضروری بعد پیدا کر رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ عوام انکے ٹکے ٹکے کے ٹک ٹاک کلپ دیکھیں، مزے مزے کے پکوانوں سے ہاتھ روکیں اور فریب زیست میں اضافہ کے لئے الٹی سیدھی ورزشیں کرتے جامِ  صحت نوش کریں۔ نہ کسی کو درد ِشکم اٹھے، نہ کسی کو زخمِ جگر لگے۔ نہ کسی کے دل میں جنوں رہے نہ کسی کے رُخ کا حُسن ڈھلے۔ یعنی لوگوں کی عمر بیت جاۓ مگر نہ کبھی وہ ڈاکٹر کا منہ دیکھیں اور نہ کسی لیبارٹری کا۔۔۔ تف ہے ایسی بے کیف زندگی پر!

یہ نیم حکیم اس بنیادی بات سے بھی نا واقف ہیں کہ ایلوپیتھی ہو، طب یونانی یا کہ ہومیو پیتھی ، ہر طرح کے طب میں پرہیز ہمیشہ تشخیص اور علاج کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مریض کو مرض شروع ہونے سے پہلے یا آغاز ابتلاء میں صرف پرہیز بتادی جاۓ تو اس کی تسلی نہیں ہوتی ۔ دماغ میں خلش رہتی ہے۔ معالج کی قابلیت بارے میں شک اٹھتا ہے۔ جب تک ڈاکٹر  اپنی مرضی کی لیبارٹری جس سے وہ خواہ بہت معمولی کمیشن ہی لیتا ہو،آٹھ دس ٹیسٹ نہ کرواۓ اور دو تین گولیاں اپنی یا اپنے برادر نسبتی کی فارمیسی سے  کھانے کو نہ دے تو اس پر کون یقین کرے؟ اگر پرہیز علاج سے بہتر ہو اور دنیا کا ہر شخص یو ٹیوب ویڈیو دیکھ دیکھ کے پر ہیز شروع کر دے تو یہ جو لاکھوں ڈاکٹر ہیں یہ کہاں جائیں ؟ لیبارٹری اور ایکسرے والوں کا پیٹ کون بھرے ؟ فارما کمپنیاں اور دوا ساز سالانہ عمرہ کس کو کرائیں؟

 عوام الناس کو سوچنا چاہیے کہ آخر اس جتھے کا بنیادی مقدمہ کیا ہے؟   یہی کہ سموسے، پکوڑے، جلیبی،  بریانی اور باربی کیو کھانے کی بجاۓ کچی گاجریں ، سلاد کے پتے ، مولیاں اور کچا ادرک کھایا جاۓ؟ آخر یہ گروہ نظم ِمعاشرہ کو برباد کرنے پر کیوں تُلا ہوا ہے؟ اگر ان کی بات مان لی جاۓ تو کیا عوام  پسند کریں گے کہ اپنے پسندیدہ میزبانوں کے یہاں چاۓ سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ ان کو بطور سنیک  کچی گاجر یا کھیرا پیش کیا جاۓ؟ یا تلی مچھلی کے ساتھ آلو کے فرائیڈ چپس کی بجاۓ ڈکاروں کو مصفا کرنے کے نام پر کچے ادرک کا سفوف چٹایا جاۓ؟ کیا گھر آۓ مہمانوں کو اب پسندیدہ ریسٹورانٹ میں پیزہ اور باربی کیو ڈنر سے عزت افزائی  کی بجاۓ  سبزی کی ریڑھی پر بوفے کھلایا  جاۓ گا؟ کیا اب شادی بیاہ کی ضیافتیں سٹیم روسٹ، مٹن قورمہ، بیف بوٹی اور مٹن پلاؤ کی بجاۓ سٹیم مٹر ،  ابلی بھنڈی اور کچے کھیروں سے سجائی جائیں گی ۔کیا کوئی صحیح العقیدہ مسلمان یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ اسکی تابع فرمان اولاد اس کے مرتے ہی اس گروہ کے ہتھے چڑھ جائیگی اور  چالیسویں میں بریانی اور پلاؤ کی بجاۓ اُبلا لوبیا اور بھنے ہوۓ سٹے تقسیم ہوں گے؟ کیا اب نارسائی محبوب سے تنگ شاعر حضرات کے کلام میں  دل اور جگر کباب ہونے کی بجاۓ گاجر اور مولی ہُوا  کریں گے؟  اور ہم جدید ترقی پسنداساتذہ کے دیوانوں میں اس طرح کے شعر پڑھا کریں گے۔۔

دل تیرے ہجر میں ہُوا  ہے مولی

ہاۓ کوئی ہم کو چڑھاۓ سولی

 یہاں ایک لمحہ کے لئے گرما گرم  تلی ہوئی ذائقہ دار اشیاء مثلاً  سموسہ، کباب ٹکی اور کوئلوں پر پختہ باربی کیو وغیرہ کا  ٹھنڈ سے کانپتی، چر مر چر مر کرتی بھنڈیوں ، کریلوں، بینگن اور مولی گاجر سے تقابل  کیجیے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اوّل الذکر کو  دنیاۓ اسلام کے تمام فرقوں بشمول شیعہ ، سنی، صوفی اور وہابی عوام میں قبولیت عام اور شرفِ  دوام حاصل ہے؟ مسلمانوں کی کونسی مسجد ہے جہاں رمضان شریف میں افطار کے وقت یہ سوغاتیں  اہل ایمان کی منتظر نہ ہوں؟ لیکن  کیا کوئی ایسی بھی مسجد یا امام بارگاہ ہے جہاں سحر یا عشاء کے وقت مومنین کو سٹیم پھلیاں، ابلی بھنڈیاں یا نیم پکی گوبھی دی جاتی ہو؟ پھر یہ بھی دیکھیے کہ سنی شیعہ ، دیوبندی بریلوی یا مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین ٹی وی مناظروں کے دوران جب  سیز فائر ہوتا ہے تو اس موقع پرسموسہ اور پکوڑا وغیرہ سے ماحول خوشگوار کیا جاتا ہے یا کچی گاجروں سے؟

تعصب کے بغیر سوچا جاۓ تو ایک طرف تو وہ تلی ہوئی خوراکیں اور غذائیں نظر آتی ہیں جو اتحاد بین المسلمین کی ضامن اور جمیعت مسالک میں حد درجہ ممدد و معاون ہیں۔ جن کے طبی فوائد قطعیت کی حد کو پہنچے ہوۓ ہیں۔ جو طبیعت میں جوش، قلب  میں حرارت، ذہن میں چستی پیدا کرتی اور قوت باہ بڑھانے میں نافع  ہیں ۔  چنانچہ بچپن کی غلط کاریوں سے اپنی صحت تباہ کرنے والے نوجوانوں کے لئے بھی آخری  اُمیدِ  بہار ہیں۔ دوسری طرف وہ کچی سبزیاں اور سلادیں ہیں جن کا معاشرتی اور اسلامی کردار سرے سے ہے ہی نہیں۔ الٹا انکے طبی نقصانات اس قدر ہیں کہ لکھنے کو ایک دفتر چاہیے۔ اطباء کے نزدیک یہ ترکاریاں  حرارت غریدہ میں کمی، پیٹ میں اپھارہ اور قلب میں تنگی پیدا کرتی ہیں۔ ان کا مسلسل استعمال رطوبات کو پتلا ،  ہڈیوں کو  کمزور  اور نظر کو تباہ کرتا ہے ۔  دینی نقطہ نگاہ سے بھی ایسی غذا کی ممانعت  ہے جو جسم کو لاغر کرے، ذوق عبادت اور شوق مجاہدہ کو پست کرے اور جس سے پژ مردگی اور کمزوری کا تاثر  نمایاں ہو۔  خود کو فٹنس کے نام پر اگر بتی کی طرح سلم  کر لینا یا باڈی بنا لینا اور اس پر اِترانا اہلِ مغرب کی جہالت سے بھرپور مصنوعی اور مشینی زندگی کا خاصا تو ہوسکتا ہے مگر ایک مسلمان کے شایان شان ہرگز نہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ  ہمارے یہاں علما  حضرات نے  اپنے قول و فعل سے گلستان ِ علم کے خوشہ چینوں اور اپنے متبعین کو ایسی خوراک کی تلقین کی ہے جو شریف اور صالح  چہروں پہ رونق لاۓ، ہڈیوں پر گوشت بڑھاۓ اور تھل تھل کرتے جسموں کو توانا اور مزید فربہ بناۓ۔  مقصد یہ کہ اہلِ کفر جب ان نفوس عالیہ کو دیکھیں تو ان پر خوب رعب طاری ہو۔            

 اس معاملے کا ایک قانونی اور اخلاقی پہلو بھی ہے۔مثلا ً اگر دیکھا جاۓ تو سموسہ اپنی اصل میں تیل میں تلے ہوۓ میدے اور آٹے سے بنے ایک دلکش مخروطی خول کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ اب یہ کھانے والے اور پکانے والے کا پرائیویٹ معاملہ ہے کہ وہ اس میں خواہ آلوؤں کا مصالحہ دار قوام ڈالیں یا  لذیزقیمے کا۔اس میں طبی مشورے یا علمی لیاقت کے نام پر کسی بھی تیسری قوت کی دخل اندازی شخصی خود مختاری کے خلاف اور آئین پاکستان سے انحراف کے مترادف ہے۔ یہی احوال آلو یا قیمہ بھرے پر اٹھوں اور پیٹیز کا ہے۔

  درجہ بالا دلائل کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں دنیاۓ سموسہ و بریانی سے تعلق رکھنے والے ہر  خودار اور غیرت مند شخص پر خواہ وہ نانبائی ہو، ُکک ہو،  ہوٹل مالک ہو، ڈاکٹر ہو، یا برتن مانجنے والا ہو،اس نام نہاد ماہر امراض معدہ اور اس گینگ کے جملہ نظریات کی تکفیر واجب ہے۔  چنانچہ آج کے بعدجو کوئی بھی اس بد بخت ٹولے کے بتاۓ ہوۓ لاطائل مشوروں کی جزوی یا کلی تائید کرے گا وہ اپنے سماجی، طبی اور معاشی نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا۔

  ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے دینی قوتوں کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ میڈیکل کے وہ پروفیسر حضرات اور ماہرین طب جو اس ماہر امراض معدہ کو   ڈگری دینے اور اس کی درست کاروباری تربیت میں کوتاہی کے مرتکب ہوۓ ہیں ۔ انہیں اپنی صفوں میں چھپی اس کالی بھیڑ کو پہچاننے میں ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ 

 حکومت سے بھی گزارش ہے کہ اس دشمنِ  کام و دہن گروپ کو معاشرے میں مزید نفاق پھیلانے سے روکا جاۓ اور اس کے پاس دیسی کھانوں کے خلاف  موجود  جو بھی زہر آلود ویڈیو اور آڈیو مواد ہے اس کو اپنے قبضہ میں کیا جاۓ۔ اس گروہ کے نیٹ ورک کو توڑا جاۓ اور اس کے ساتھ اس بھیانک مشن میں شریک دیگر کرداروں کو بے نقاب کیا جاۓ۔ نیز اس کے زیر استعمال آلات نشر و اشاعت کو بحق سرکار ضبط کر کے سر ِعام نذر آتش کیا جاۓ۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک اس جتھے کے تمام ارکان اپنے باطل عقائد سے توبہ نہ کر لیں، انہیں ملازمت سے معطل کیا جاۓ اور کسی بھی مریض کو بغرض مشورہ یا علاج  ان کے پاس نہ بھیجا جاۓ۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

( نوٹ: درجہ بالا تحریر محض عوامی مفاد میں لکھی گئی ہے۔ اس کو اسی پیراۓ میں سمجھا جاۓ۔ تاہم اگر دشمنان سموسہ یا پکوڑہ میں سے کوئی صاحب اس تحریر کے مندرجات یا تلی ہوئی غذاؤں کی افادیت پر آن لائن بحث یا مناظرہ کرنا چاہیں تو راقم الحروف سے بعذریعہ ٹوئٹر یا فیس بک رابطہ کریں۔ )  

Facebook Comments

Waqas Aftab
Intensivist and Nephrologist St. Agnes Hospital Fresno, CA, USA

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply