صدیوں پرانی تہذیب ہم پر قہقہہ زن ہے۔۔بنتِ شفیع

 مکلی کے قبرستان میں جہاں ہم لوگ کھڑے تھے،وہ کسی سابق دور کے حکمران کا مقبرہ تھا۔اس محل نما مقبرے کی عجیب شان تھی۔زمین کے سنگی سینے پر  جاہ وجلال،عظمت و جبروت،جاہ وحشمت کا کوئی  شاہکار تھا یا پھر صنائی  و خوبصورتی حسن و جمال کا مرقع یا پھر منقش حسین روغنی ٹائلز سے آراستہ کوئی  مرمریں پیکر تھا، جس کا طلسم دیکھنے والوں کو جکڑ لیتا تھا۔مقبرے کے احاطے کے ایک کونے میں مقبرے سے اُکھڑی اینٹیں کچھ پتھرکچھ روغنی ٹائلز پڑیں تھیں۔میں نے اینٹوں میں ایک بھاری بھرکم منقش اینٹ اٹھاکر دوسری اینٹ سےاس پر ہلکی سی ضرب لگائی۔محض اس بات کو پرکھنے کے لیے کہ کیا حقیقتاً  مکلی کے قبرستان میں استعمال کی گئی اینٹوں پر اگر ضرب لگائی  جائے توکھنکتی ہیں۔جیسا کہ قبرستان سے باہر چار دیواری ہر لگے ایک بورڈ پر تحریر تھا۔لیکن ضرب سے جو آواز پیدا ہوئی  وہ تو عام سی آواز تھی جو ہمارے روز مرہ مشا ہدے  میں آتی ہے۔میں نے دوبارہ کوشش کی،اب کی بار جو میرے ہاتھ میں  اینٹ تھی وہ نازک ،عمدہ مگر مضبوط اینٹ تھی۔میں نے اس پردوسری اینٹ سے زور دار ضرب لگائی،لمحے بھر کے لیے احساس ہوا جیسے ویران مقبرے میں کھنک دار قہقہہ گونجا ہو۔

دیکھا کیسی خوبصورت کھنکتی ہوئی  آواز ہے۔آنٹی کی آواز نے مجھے چونکا سا دیا۔میں نےپلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔وہ بھی میری طرح مقبرے کے فسوں ساز سحر سے متاثر تھیں۔میں نے ایک بار پھر سماعتوں کو آزمانے کے لیے اینٹ پر دوسری اینٹ سے ضرب لگائی،لیکن اس بار بھی ویسا ہی مخصوص کھنک دار قہقہہ سنای دیا۔مجھے لگا جیسے صدیوں پرانا سانس لیتا جاہ و جلال،عظمت و جبروت،شان و شوکت مجھ پر قہقہہ زن ہو۔یہ میرا احساس تھا۔جس نے فاصلوں کو سمیٹ دیا۔میں نے خود کو مزار قائد کے احاطے میں پایا۔میری نظریں مزار قائد کے احاطے میں حسین و جمیل جدید و خوبصورت ٹائلز پر تھیں جس کے حسن و جمال کو گہن لگانے کے لیے کسی بہت ہی بُرے بد صورت دل و دماغ کے مکروہ شخص نے پان کھانے کے بعدپیک ٹائلز پر تھوکی تھی۔جس کو چند ٹائلز نے اپنے اندر جذب کر کے آج کے دور کے انسان کی،تہذیب کی، رویوں کی،مکروہ اور غلیظ رویوں کی نشاندہی کر دی کہ آج کا انسان جو ترقی کے انتہائی  عروج پر ہےاندر سے کھوکھلا،بد صورت بد وضع زوال پذیر،تنزل پذیر ہے۔محسن کش ہے۔

کیا آنے والا دور ہمارے اندازو اطوار،رویوں کی بد صورتی اور معاشرتی کرپشن  و کھوکھلے پن کا اندازہ لگا  سکے گا۔؟جس طرح میں نےصدیوں پرانی سانس لیتی تہذیب کے جاہ وجلال ،شان و شوکت،دلکشی و رعنائی  کو محسوس کیا تھا۔مقبرے کی وہ عظمت ورعنائی  جلال و جمال ایک زندہ حقیقت بن کر میرے اندر اُترا تھا۔احساس کی اس زندہ حقیقت نے میری سوچوں کو سُن کر کے رکھ دیا۔

ایک طرف یہ مکلی کا قبرستان تھا۔جس کی ہر قبر پر لگی اینٹیں ٹائلز پتھر پکار پکار کر کہہ رہے تھے۔

؎دیکھو ہمیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

انسان بے شک فانی ہے ۔موت انسانوں کے درمیان فرق کو مٹا دیتی ہے ۔

؎کوئی فرق شاہ و گدا نہیں یہاں کسی کی بقا نہیں

لیکن انسان فانی ہونے کے باوجود اپنے کر دار اپنے کارناموں کی وجہ سے تاریخ میں زندہ ہے ۔دلوں میں زندہ ہے۔اس کا کردار اس کے کار ہائے نمایاں ۔اس کی عظمت پکارتی ہے ہمیں دیکھو ہم پر غور کرو۔کیا زمانے کے سردو گرم نے ہمیں مٹایا۔کیا وقت کی بے رحم گردش ہم پر اثر انداز ہوئی۔طوفانی موسموں اور گزرتے وقت نے دھندلایا۔انسانیت کی نجس پچکاریوں نے کوئی  اثر کیا۔ہم تو ویسے ہی شاہکار ہیں۔جیسا ماہر ہاتھوں نے تراشا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک اینٹ کا ٹکڑا ہم اپنے ساتھ لےچلیں۔؟آنٹی کی آواز نے میرے انہماک کو توڑا اور میں صدیوں کے طلسم سے باہر آئی ۔اپنے ہاتھ میں پکڑی اینٹوں کو آہستگی سے زمین پر رکھا۔اور آنٹی سے کہا کہ نہیں ہم اسے ساتھ نہیں لے جا سکتے۔کون کہتا ہے کہ مکلی شہر خاموشاں ہے وہ تو جاہ وجلال حسن وجمال رعنائی  ودلکشی کی ایک زندہ حقیقت ہے۔یہاں صدیوں کا جلال بولتا ہے ۔شان وشوکت سانس لیتی ہے۔شدید گرمی کے عالم میں عین دوپہر کے وقت آپ وہاں چلے جائیں گرمی کا دور دور تک شائبہ تک نہیں۔فراٹے بھرتی ہوا ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے۔6 مربع میل سے زائد رقبے پر پھیلا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان جہاں سینکڑوں سال پرانی تہذیب شان سے سر اٹھائے استادہ ہے۔شاہان مغلیہ کے مقبرے یا بزرگان دین،امراء وزرا،اور مختلف ادوار کے حکمرانوں کی آخری آرام گاہ۔فن تعمیر کا حسین نمونہ یا پھر سنگ تراشی کا نمونہ یا پھر ردائے سنگ پر زرتاری کی حسین مثال۔منقش دیواریں روغنی ٹائلز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایران سے ہمارے کس قدر قدیم ثقافتی تعلقات ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply