دھرتی جائے کا کھتارسس/اعظم معراج

آج پاکستان کے متفقہ آئین کی منظوی کی پچاسویں سالگرہ ہے۔۔ جب قائد اعظم کے پاکستان میں 1970 کے انتحابات میں 167نشستیں اور 303حلقوں میں سے تقریبا 40فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت نے خون خرابے کے بعد مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنا لیا تو۔ اور 86 نشستیں اور تقریبا 19 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت نے باقی ماندہ ملک کے لئے 1972 کے عبوری آئین کے ثمرات سمیٹنے کے بعد اس کی جگہ “متفقہ ” آئین دینے کی ٹھانی ۔ یوں 138کے ایوان میں 10 اپریل 1973کو حاضر 128میں سے 125ممبران نے متفقہ آئین کی منظوری دیتے ہوئے اس پر دستخط کئے ۔ گوکہ اس متفقہ آئین میں 1972کی افراد شماری کے مطابق اس دھرتی کے غیر مسلم 2017635 بچوں کے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق سے متصادم شقیں بھی شامل تھیں یقیناً 3حاضر و دس غیر حاضر دستخط نہ کرنے والوں کے پیش نظر ان مظلوموں کی حمایت نہ ہوگی۔۔۔کیونکہ اس وقت کے تقریبا چھ کروڑ مسلمان شہریوں کے سامنے ان 20 لاکھ دھرتی کے مظلوم بچوں کی کیا وقعت تھی ۔جب کہ کوئی غیر مسلم ان ایوانوں میں بھی موجود نہیں تھا۔ شائد راجہ تری دیو کو کسی جمہوری جگاڑ سے وہاں کرسی میں جڑا گیا تھا ۔ اور اگر وہ تھآ بھی تو جس طرح کی وہ شخصیت تھی۔اس نے کیا کہا ہوگا .؟ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں جن کی تعداد اب تقریبا نوّے لاکھ ہوچکی ہے ۔وہ ان شقوں کے گھاؤ روحوں پر محسوس کرنے کے باوجود ریاستی اور حکومتی اشرفیہ کی کمزوریوں سے جنم لیتی مجبوریوں کی بدولت ان شقوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔پاکستان کے ایوانوں میں بٹھیے اس وقت کے عظیم پارلیمنٹرین کے جانشینوں اور اج کی ریاستی ،حکومتی و دانشور اشرفیہ سے گزارش ہے ۔کہ یہ مظلوم شہری اپنی ہزاروں سال کی غلامی کی خو بوں کی بدولت نہ تو ڈھنگ سے اپنے مطالبات پیش کرسکتے ہیں نہ ہی کسی مطالبے پر یکسوئی سے ڈٹ سکتے ہیں ۔۔لہذا آپ لوگ ہی ملک قوم کے وقار کی خاطر ان نوے لاکھ لوگوں کو مذہبی ؤ قومی شناخت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایوانوں میں نمائندگی کو ووٹ سے مشروط کرنے کے لئے آواز اٹھائیں۔ ۔ تاکہ متفقہ آئین کی ان شقوں کا کچھ مداوا ہوسکے جن پر آج بھی اگر ان شقوں کا ذکر چھڑ جائے تو کئی پارلیمنٹرین تو سرعام ندامت کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کے مسلم شہریوں کو ” متفقہ “آئین کی گولڈن جوبلی مبارک ہو ۔
تحریک شناخت زندہ باد
پاکستان پائندہ باد !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply