یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے اکثر ممالک آج کل معاشرت کے ایسے غیر متوقع دور سے گذر رہے ہیں جس کے لئے وہ ذہنی، سیاسی اور معاشی طور پر تیار نہیں ہیں۔مغربی دانشور پچھلی تین صدیوں سے یقین دلا رہے ہیں کہ مذہب کا دور ختم ہو چکا۔ ان کے مطابق جدید دور مذہب اور روایت کے بوجھ سے آزادی کا نام ہے۔تاریخ اپنا سفر مکمل کرکے سیکولر دور میں داخل ہو چکی ہے۔اب معاشرت، معیشت اور سیاست سب سیکولر ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مذہب، سیکولرزم اور جدیدیت ابھی بھی تبدیلی کے مختلف مراحل سے گذر رہے ہیں۔ اس اثنا میں مذہب پھر سے اہمیت اختیار کر رہا ہے۔تاہم مذہبیت اور سیکولرزم کو باہم متضاد خیال کئے جانے کی وجہ سے عام طور پر اس بات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی کہ اس دوران مذہب اور سیکولرزم کے مفاہیم میں بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں قریبا تمام ملکوں میں نئی مذہبی تحریکیں ابھر ی ہیں۔احیا ئے مذہب کی بھی اور اصلاح اورتجدید کی بھی۔ان مذہبی تحریکات کے تجزیاتی مطالعے سے مذہب کی معاشرتی اہمیت کے نئے گوشے سامنے آئے ہیں تو ان نئی دریافتوں نے مذہبی تحریکوں کے تجزیاتی مطالعات کے لئے نئے علمی اور منہجی مسائل بھی پیدا کردئے ہیں۔
ہالینڈ کی معروف جامعہ فرائی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی علوم کی جانب سے مارچ کو تحریک منہاج القرآن کے تزکیہ قلوب کے تصور اور یورپ کی جدید معاشرت میں مذہبیت کے اس تصور کی سماجی تشکیل کے مسائل کے موضوع پر تحقیقی مقالے کی تکمیل پر پاکستانی محقق جناب عامر مورگاہی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ ان کے مقالے میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ یورپ میں بسنے والے جنوب ایشیائی مسلم مہاجرین کی نئی نسلیں جو یورپ میں ہی پلی بڑھی ہیں یہاں کی سیکولر معاشرت میں مذہبیت کو درپیش مسائل کا سامنا کیسے کر رہے ہیں؟ بین الاقوامی مذہبی تنظیمات نئی نسل کو مذہب سے وابستہ رکھنے کے لئے کونسی نئی مذہبی سرگرمیاں متعارف کرا رہی ہیں؟۔
مقالے میں مذہبیت کے حوالے سے بین الاقوامی مذہبی تحریکوں کے تین اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا تعلق بنیادی طور پر معاشرتی تنظیم سے ہے۔
۔ سیکولر ماحول میں جگہ بنانے کے لئے مسلسل جدو جہد،
۔ یورپ کے معاشرتی سیاق و سباق میں مذہب اور مذہبیت کے نئے مفاہیم کے پس منظر میں مذہبی تصورات کی تشکیل نو، اور
۔ مذہبی عقیدت کی نئی ثقافتی تشکیل ۔
منہاج القرآن تحریک نے یورپ ، خصوصا ہالینڈکے سیکولر ماحول میں جگہ بنانے کے لئے دو اسلامی روایتوں میلاد ، اورذکرو فکر کو جو نئی شکل دی ہے مقالہ نگار نے مشاہدہ کیا ہے کہ اس روایت میں تبدیلیاں مسلمان نئی نسل کے ساتھ ساتھ مقامی غیر مسلم نوجوانوں میں کیسے مقبول ہوئی ہیں۔ مقالے میں تحریک کے دو بنیادی اصولوں انقلاب مصطفوی اور تزکیہ قلوب کو جدید اسالیب میں ڈھالنے کی کوششوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ وہ نئی نسل کے ذہنوں میں کس حد تک راسخ ہو سکی ہیں۔ اسی طرح مذہبی سربراہی کو بیعت کے روایتی تصور کو عقیدت کے مفہوم میں جس طرح تشکیل دیا گیا ہے اس کا موازنہ علم بشریات کی نئی اصطلاح تقدیس( سیکرڈ)کے اصول سے کیا گیا ہے سیکولر کے مقابلے میں مذہبی معاشرتی عمل کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔
مقالے کے دفاع کی رسمی تقریب سہ پہر کو تھی جس میں طلبا کے علاوہ موضوع میں دلچسپی رکھنے والے عام لوگوں کو بھی شرکت کی دعوت تھی۔اس تقریب میں فرائی یونیورسٹی کے ریکٹر کی سربراہی میں مقالہ کے نگران پروفیسرز کے علاوہ ہالینڈ کی دیگر یونیورسٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل مجلس ممتحنہ کے ارکان نے امیدوار سے مقالہ کے موضوع سے متعلق سولات کئے اور مقالہ نگار کا استدلال اور طرز تحقیق پر اعتراضات بھی زیر بحث آئے ۔ اس مجلس میں میں بھی ایک ممتحن کی حیثیت سے شامل تھا۔ امیدوار نے اپنے موقف کا کامیابی سے دفاع کیا۔ مجلس ممتحنہ نے غور و خوض کے بعد امیدوار کو کامیاب قرار دیا۔ اختتامی رسمی تقریب میں ریکٹر نے امیدوار کو مبارکباد دی اور ڈگری عطا کی ۔تحقیق کے نگران پروفیسروں نے مقالہ نگارکے تحقیقی سفر کا جائزہ لیتے ہوے امیدوار کی محنت و مشقت کی داد دی ۔
یونیورسٹی کے رواج کے مطابق دن کا آغاز ایک علمی مذاکرے سے ہوا جس کا موضوع تھا ” سیکولر ماحول میں مذہبی زندگی: یورپ اور جنوب ایشیا میں مسلم معاشرت کو میسر مواقع اوردرپیش پابندیاں “۔ اس مذاکرے میں یوترخت یونیورسٹی سے پروفیسر مارٹن فان برانیسین، فرانس کی ایکس پراونس یونیورسٹی سے مادام ڈاکٹر آلکس فلپوں، جرمنی کے ادارے میکس پلانک سے ڈاکٹر عرفان احمد، لندن کے سکول آف اورینٹل سٹڈیز سے محترمہ عائشہ صدیقہ اور دوسرے خواتین و حضرات شامل تھے۔ مجھے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی۔ مندرجہ ذیل تحریر ان خیالات کا اردو زبان میں خلاصہ ہے ۔
جدید دور میں مذہب کے بارے میں علمی تحقیق کے لئے تین امور لازمی سمجھے جاتے ہیں ۔ مسلمات، علمیاتی پس منظر اور طریق تحقیق۔ مسلمات ایسے متفقہ اصول ہیں جو مقالے میں تحقیق کی بنیاد ہوتے ہیں۔ چونکہ ان پر عمومی اتفاق ہے اس لئے ان پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہوتی اور بات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ علمیاتی پس منظر وہ فلسفہ تاریخ اور نظریہ کائنات ہے جس سے یہ اصول اور مسلمات اخذ کئے گئے ہیں اور جہاں ان کی وضاحت ملتی ہے۔ طریق تحقیق میں استدلال، مصادر اور مسئلہ زیر تحقیق پر گذشتہ تحقیقات ، موجودہ تحقیق کے مفروضات اور حقائق اور مستند مواد کی تفصیل مہیا کی جاتی ہے۔ ہم عصر مذہبی تحریکات کے تجزیات میں ان تینوں امور میں نئے مسائل کا سامنا ہے۔
مسلمات
مسلمات کو اصول تحقیق کی حیثیت حاصل ہے لیکن مذہبی تحریکات کے مطالعے میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب کے بارے میں مقبول مسلمات ہی ہیں ۔ ہم عصر مذہبی تحریکات کے تجزیاتی مطالعے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم ان مسلمات پر تنقیدی نظر ڈالیں کیونکہ ان کی وجہ سے ہم اصل مسائل کو دیکھ نہیں پا رہے۔ اس ضمن میں محض مثال کے طور پر میں تین عام مسلمات کا ذکر کروں گا ں۔
۱۔ سیکولرزم اور مذہب باہم متضاد ہیں۔چنانچہ سیکولر دنیا میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں۔
۲۔ مذہبی شخص کے لئے سیکولر ماحول میں جینا دشوار ہے اس لئے سیکولر ریاست میں انفرادی مذہبی زندگی بھی ممکن نہیں۔
۳۔ سیکولر دنیا میں مذہب اور مذہبیت فوری نہیں تو بتدریج ختم ہو جائیں گے۔
یہ مسلمات گذشتہ دو صدیوں سے جدید علمیات کی بنیاد ہیں۔ تاریخ، سیاسیات، معاشیات، نسائیات، قانون، بین الاقوامی تعلقات، انسانی حقوق، بشریات اور عمرانیات سب علوم میں تحقیق اور استدلال کا نقطہ آغاز یہی مسلمات ہیں ۔گذشتہ صدی میں تعلیمی اداروں میں مذہب کے مطالعہ کو مستقل علم کی حیثیت تو مل گئی لیکن اکثر مغربی جامعات میں مذہبی تحریکات کے تجزیے میں مشکلات پیش آرہی ہیں کیونکہ ان تحریکوں کو غیر فطری اور غیر منطقی اور ان کے وجود کو عارضی فرض کر تے ہوے ان کا تجزیہ علمی نہیں رہتا ۔
علمیاتی پس منظر: فلسفہ تاریخ اور نظریہ کائنات
مندرجہ بالا مسلمات مذہب اور سیکولرزم کی جدید علمیات کا خلاصہ ہیں۔ اس فکر کی تشکیل میں کی گذشتہ تین صدیوں میں متعدد یورپی فلسفیوں، مورخوں، سائنسدانوں، اور ماہرین عمرانیات نے حصہ لیا ہے لیکن ہمارے خیال میں ان علمیات کی تشکیل میں آگست کومت اور آسوالڈ سپینگلر کا کردار بہت اہم اور منفردہے۔
آگست کومت
کومت کا تعلق فرانس سے تھا۔انقلاب فرانس کے دوران ملک سیاسی انتشار اور فکری ابہامات کی زد میں آگیا۔ انقلاب سے پیدا منفی رجحانات کو مثبت رخ دینے کے لئے کومت نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ سیاسی اور معاشرت مسائل کو عارضی طور پر حل کرنے کی بجائے ان تحقیقی طریقوں سے کام لینا ضروری ہے جو طبیعییات، اور حیاتیا ت کے علوم میں پیش رفت کی بنا پر سائنسی تجزیاتی قوانین کا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ مذہبی مسائل پر کلامی انداز سے بحث تحقیق کی بجائے اعتذاری اور دفاعی بن جاتی ہے۔ اس کے لئے اثباتیت اور قطعیت کی نئی علمیات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
کومت نے ان مسائل پر کئی کتا بیں لکھیں۔ ان میں دو کتابیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ پہلی کتاب تین جلدوں پر مشتمل ‘ فلسفہ اثباتیت کا نصاب’ ہے جس کی تکمیل میں بارہ سال لگے۔ پہلی جلد میں علوم طبیعییات اور اس کے اصولوں کا جائزہ لیا گیا اور دوسری اور تیسری جلد میں اثباتیت کا فلسفہ بیان کیا گیا۔ دوسری کتاب ‘اثباتیت کے اصول میں انگریزی زبان شائع ہوئی۔
کومت نے اس نئی علمیات کو سوشیالوجی کا نام دیا۔ اس میں بنیادی نکتہ انسانی معاشرت کے ارتقا کے تین ادوار کا تعین تھا۔ پہلے دور کو الہیاتی، دوسرے کو مابعد الطبیعیاتی اور تیسرے کو اثباتی علمیات کا دور کا نام دیا۔ پہلے دور میں انسان معاشرے کی تشکیل اور اصول و ضوابط کو خدا اور مافوق الفطرت قوتوں سے منسوب کرتا تھا۔ دوسرے دور میں جو یونان میں فلسفے کا عہد ہے انسان نے مابعد الطبیعیات کا علم تخلیق کیا جو انسان اور کائنات کے تعلق سے معاشرے میں نظم و ضبط اور تبدیلیوں کی وضاحت مہیا کرتا تھا۔ تیسرا دور اثباتیت کا ہے جو عقلیت اور استدلال کا زمانہ ہے۔ جہاں انسان نے معاشرے کی تشکیل ، تنظیم اور انقلابات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لئے الہیات اور مابعد الطبیعیات کی بجائے مشاہدے، معاشرتی تجربے اور منطق اور عقل کو اپنایا۔ آگست کومت کے اثباتیت کے نظریے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
اوسوالڈ سپینگلر
آگست کومت نے مسلمات کی تشکیل میں انسانی فکر کی تاریخ کا پس منظر بھی بیان کیا کیونکہ اس طرح مسلمات کا ارتقا سمجھنا آسان تھا ۔ تاہم اس تاریخی پس منظر کو سپنگلر نے مزید واضح کیا کہ یورپ کی جدید فکر ماضی کے تسلسل اور ارتقا کی مرہون منت نہیں بلکہ اس سے علیحدگی کا نتیجہ ہے۔ سپنگلر نے ثقافت اور مذہب کے مطالعے کو اثباتیت کے پس منظر میں دیکھنے کے لئے “شام مغرب ” زوال مغرب میں اپنے تاریخ کے فلسفے کو پیش کیا ہے ۔ اس کتاب کا بنیادی استدلال مندرجہ ذیل پانچ نکات پر مشتمل ہے۔
۱۔ عالمی تاریخ متعدد تہذیبوں کے عروج و زوال سے عبارت ہے۔ ان میں آٹھ تہذیبیں بہت اہم رہی ہیں۔ ہر تہذیب کی ابتدا مخصوص نظریہ کائنات مذہب پر مبنی مقامی ثقافت سے ہوتی ہے جو دوسری ثقافتوں سے مختلف ہی نہیں ان کے لوگوں کے لئے نا قابل عمل بھی سمجھا جاتا ہے۔ جو ثقافتیں قابل فہم عالمگیر نظریہ کائنات پیش کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں وہ تہذیب کہلاتی ہیں۔
۲۔ ثقافت کے ابتدائی دور میں مذہب بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ثقافت میں ارتقا کے ساتھ ساتھ مذہب کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے۔ مذہب میں اصلاحات اور تبدیلیاں عمل میں آتی ہیں اور عقلیت اور مادیت کے اصول مذہبی سوچ کی جگہ لے لیتے ہیں۔
۳۔ جدید تہذیب دور سے پہلے دنیا دو تہذیبی ادوار سے گذری ہے۔ پہلا دور اپالونین تہذیب کا عہد تھا جس میں یونانی اور رومن تہذیبوں نے عالمگیر فکر کو جنم دیا۔ دوسرا دور مجوسی تہذیب کا تھا جس میں سامی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام، اور ایرانی زرتشتی مذاہب شامل تھے۔یورپ میں جدید دور فاوستی تہذیب کا ہے جو مغربی یورپ میں دسویں صدی میں شروع ہوا اور اب بیسویں صدی میں مکمل ہو رہا ہے۔ تہذیبوں کی ابتدا اور انتہا ایک دائرے کی طرح ہے جو اپنی انتہا کے بعد ایک نئے تہذیبی دائرے کو جنم دیتی ہے۔
۴۔ فاوستی دور میں یورپ نے گذشتہ دو ادوار کی فکر اور تہذیب کو خیر باد کہا۔ اب اس کا ماضی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اپنے مزاج میں نہ یونانی اور رومی تہذیب سے متاثر ہے نہ مجوسی فکر سے۔ ان کے برعکس یہ خالص یورپی فکر ہے۔
۵۔ اسلام سمیت بڑے مذاہب اپنے مزاج میں مجوسی ہیں اور دوئی کے قائل۔ خدا ایک ہے جو دوسرے دشمن دیو تاوں سے برسر پیکار ہے۔ نیکی اور بدی کی اس جنگ میں مسیحا کی آمد کا انتظار رہتا ہے جو نیکی کو بدی پر فتح دلائے گا۔
یہ کتاب عالمگیر جنگ سے پہلے میں لکھی گئی اور چھپتے ہی فورا مقبول ہوگئی۔مقبولیت کے تین ممکن حوالے ہو سکتے ہیں۔ اول تو اس نے جدید دور کو ایک نئی یورپی عالمگیر تہذیب کے طور پر پیش کیا۔ دوسرے اسے ماضی کی پابندیوں سے آزاد تہذیب بتایا اور فاوست سے منسوب کیا ۔ فاوسٹ جوگوئٹے کے ڈرامے فاوست کا بنیادی کردار ہے مذہبی عالم ہے جو اپنی روح کو شیطان کے ہاتھوں بیچ کر آزادی خریدلیتا ہے۔ گوئٹے کا یہ ڈراما عیسائی مذہبی فکر و عمل پر بہت گہری تنقید تھی۔ مقبولیت کی تیسری وجہ اس کتاب کا عنوان تھا جرمن زبان میں اس کے عنوان کا مطلب دن کا اختتام ، شام یا شفق اور غروب تھا جو دن کے مکمل ہونے اور نئے دن کے ظہور کی علامت ہے۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ ڈیکلائین یعنی زوال کیا گیا۔ جس کی وجہ سے عالمگیر جنگ کے بعد یورپ کی صورت حال سے بیزار قارئین میں بہت مقبول ہوا۔
یہ کتاب مادیت اورسیکولرزم کے موضوع پر نہایت ہی فکر انگیز تحریر تھی۔ لیکن سپنگلر کا مذاہب کا مطالعہ ناکافی تھا۔اس نے تمام مذاہب کو نیکی اور بدی کی جنگ کی سوچ قرار دے کر سب کو مجوسیت کے مخصوص تناظر میں دیکھا۔ سپنگلر نے مذہب اور سیکولر کی دوئی کو جو عیسائی الہیات کے بعض علما کی مخصوص سوچ تھی تمام مذاہب کی خصوصیت بتایا۔ اسلام کے بارے میں سپنگلر کا تبصرہ خاص طور پر بہت سطحی تھا۔نیکی اور بدی کی آویزش کو جس نے زرتشتی مذہب میں آگے چل کر دو خداوں یزداں اور اہرمن کی شکل اختیار کی اسلام سے منسوب کیا۔ ان جزئیات سے قطع نظر قابل توجہ یہ بات ہے کہ سپنگلر نے یورپ مرکزیت کے جس خطرے سے خبردار کیا تھا وہ امریکی فکر میں کہیں زیادہ خطرناک انداز سے سامنے آیا ۔ فوکو یاما نے اینڈ آف ہسٹری تاریخ کی تکمیل کے نظریے کی بنیاد پر مغربی تہذیب اور سرمایہ داری کے غلبے کو جواز دیا تو ہن ٹنگٹن نے کلیش آف سویلائزیشن( تہذیبوں کا تصادم )لکھ کر عالمی تاریخ کا مستقبل جنگوں کے نام کردیا۔ ہم اس کا مزید تجزیہ علامہ اقبال کے حوالے سے بعد میں بیان کریں گے۔
طریق تحقیق
جدید علمیات کے آغاز میں کیمیا ، حیاتیات اور طبیعییات کے علوم میں تجرباتی اصول تحقیق کو مثالی اورحتمی سمجھنے سے دوسرے علوم میں ان کے اطلاق کا رجحان رواج پایا تو انسانی سماجیات کو بھی انہی پیمانوں سے ناپا جانے لگا۔ معاشرتی اداروں ، مثلا خاندان اورمذہب کو جامد اورمیکانکی روایت قرار دے کر ان کے معروضی مطالعے پر زور دیا گیا ۔ان کے تجزیے میں معاشرتی اقدار کو حقائق سے الگ رکھا گیا۔تجزیوں کو مثبت اور قطعی بنانے کے لئے ان کے عمومی اور غیر متبدل ہونے کا دعوی کیا گیا۔تاریخ میں بھی قوموں کے عروج و زوال کے اسباب تلاش کئے جانے لگے۔ تاہم تحقیق کا دائرہ بڑھا تو پتا چلا کہ انسانی معاشرے نباتات اور جمادات کے مقابلے میں کہیں زیادہ تہ دار اور پیچیدہ ہیں۔ان کے بارے میں قطعیت کے دعوے درست نہیں۔ ان کی تشکیل میں یکسانیت کم اور فرق زیادہ ہے۔ ان میں تبدیلی حادثہ نہیں عام بات ہے۔ا ن کے افراد متنوع ہیں اور ان کے گروہ اور اقوام میں مشترکات میں اتنی یکسانیت نہیں کہ ان کے لئے یکساں جامع قوانین تو کیا ، ان سب کی ایک جامع اور مانع تعریف بھی ممکن ہو۔
اب مذہب اور مذہبی تحریکوں کے مطالعے کے لئے سماجیات کے اصول تحقیق سے استفادے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔تاہم بعض مغربی جامعات میں اب یہ رجحان ابھر رہا ہے کہ کہ سیکولرزم کو مذہبیت کے متضاد اور لادینیت کا ہم معنی سمجھنے کی بجائے دونوں کی حدود اور دائرہ کار کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس رجحان کا بڑا سبب سماجیات کے علوم کی بڑھتی اہمیت ہے۔
سماجیات نے علمی منہج تحقیق میں اثباتیت، قطعیت ، معروضیت اور علت و معلول کے طریق تحقیق کے اصولوں کو انسانی معاشروں ، معاشرتی اداروں اور مذہبی تحریکوں کے مطالعے کے لئے ناکافی قرار دیا ہے ۔ آج کل جامعات میں جاری تحقیقات میں مذہب اور دین کے جونئے مفاہیم زیر بحث ہیں ان میں تدین، عقیدت، عبادت، تقدیس، مذہبیت، مذہبی رسومات، اور مذہبی ادارے شامل ہیں۔ روایتی اصطلاحات کے نئے مفاہیم کا بھی مطالعہ کیا جارہا ہے۔ مذہبی علوم کے لئے سماجیات میں میدان بہت وسیع لگتا ہے کیونکہ مذہبیات میں موت کو عام طور پر انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ مذاہب میں موت، زندگی، حیات بعد ممات، نو مولود، ابدیت، فنا اور بقا کے مفا ہیم پہلے سے موجود ہیں۔ چنانچہ مذہبی روایت میں زندگی اور موت کو جمود اور اختتام کی بجائے مراحل کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے مذہب اور مذہبیت کی پھر سے واپسی اچنبھے کی بات نہیں۔
ویسے بھی مذہبی سوچ میں دینی اور دنیاوی ، روحانی مادی، حقیقی اور مجازی، ابدی اور عارضی کی تفریق اور دونوں کی بیک وقت موجودگی کا تصور موجود ہے۔ چنانچہ اہل مذہب کی سوچ میں سیکولر اور سیکرڈ بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں۔دونوں کی اپنی حدود ہیں جن میں ساتھ رہنا نا ممکن نہیں۔جدید دور کا مسئلہ غلبے اور اقتدار کا نظریہ ہے۔ ایک جانب سیکولر اپنی حدود میں توسیع کر کے مذہب اور روایت کو بے دخل کرنے کے عمل کو منطقی اور نظریاتی سمجھتے ہیں تو دوسری جانب اہل مذہب مقدس کے مفہوم کو وسعت دے کرمذہب کی حدود میں توسیع کر رہے ہیں۔ سماجی علمیات میں پہلے عمل کے لئے سیکولر اور دوسرے عمل کے لئے سیکرڈ یا تقدیس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
بیسویں صدی کے اواخر میں عمرانیات، سیاسیات، اور بشریات کے شعبے میں مذہب اور مذہبی تحریکوں پر کافی کام ہوا۔ اس ضمن میں ایک اہم بات سامنے آئی کہ مذہبی معاشرت اور مذہبی تحریکات کے مطالعے میں ایک اہم مسئلہ اصطلاحات کا بھی ہے۔ بعض اصطلاحات مذہبی یا سیکولر مفہوم سے اس طرح جڑی ہیں کہ انہیں کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کرنا ممکن نہیں۔ مثلا مقدس، تقدیس، اور مقدسات کی اصطلاحیں مذہبی مفہوم سے مخصوص ہو گئی ہیں۔ہم عصر مذہبی تحریکات پرتحقیق کے دوران عمرانیات اور بشریات کے ماہرین نے مذہبیت کے متعدد معاشرتی نظریات بھی پیش کئے ان میں مذہبیت سے زیادہ مذہب کی تقدیس کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ ہم ان میں سے چار کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔
۱۔ مذہب کا مقدس چھاتا۔پروفیسر پیٹر برجرمعاشرتی تشکیلات کے موضوع پر اپنی مختلف تحریروں خصوصا ‘حقیقت کی معاشرتی تشکیل’ کی بنا پر مشہور ہے۔ اس نے اپنی کتاب” مقدس چھاتا، مذہب کے بعض عوامل کی علم سماجیات کے نقطہ نظر سے توجیہ میں تفصیل سے بتا یا ہے کہ مذہبی طبقات اپنے مقام اور اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے تقدیس کے اصول سے کام لیتے ہیں۔ تقدیس کے اصول ایک جانب معمولی اور ماورائی کی تفریق اور دوقطبی کشمکش کو جاری رکھنے میں مدد دیتے ہیں تو دوسری جانب مذہب سے بغاوت اور بے راہروی کو مقدس ضابطوں کی توہین قرار دے کر مذہبی قوانین کی بقا کو یقینی بناتے ہیں۔ تقدیس کے اصول کا استدلال یہ ہے کہ معاشرے کائنات کے نظام کا حصہ ہیں۔ان کے نظم و ضبط کے لئے قوانین بنتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہے۔ان کی خلاف ورزی سے کائنات کا نظم درہم برہم ہو جاتا ہے۔ معاشرے کے وہ ضابطے جو مذہب نے مقرر کئے ہیں ان کی خلاف ورزی مذہب سے غداری بلکہ در حقیقت تاریکی اور بدی کی قوتوں کی وفاداری کے مترادف ہے۔
یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ سیکولر اور سیکرڈ کی بحث میں یہ بات نظروں سے اوجھل رہتی ہے کہ جس طرح مذہبی طبقات تقدیس کے معاشرتی عمل کو اپنی طاقت کی بنیاد بناتے ہیں اسی طرح سیکولر عناصر بھی سیکولیرٹی یا مذہب بیزاری کے معاشرتی رویے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سماجی طریق تحقیق پر مبنی مذہبی معاشرتی عمل کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اہل مذہب کی جانب سے تقدیس کے ذریعے مذہب کے دائرے میں توسیع اور سیکولر طبقات کی جانب سے مذہب بیزاری کے رویے کے ذریعے سیکولر کی حدود میں توسیع دونوں میں غلبے اور اقتدار کا داعیہ مشترک ہے۔ اس لئے تقدیس ہو یا توہین محقق دونوں میں سے کسی کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
۲۔ مقدسات اور معاشرے کی سا لمیت: ولیم پاڈن تقدیس کو سا لمیت کا اصول گردانتا ہے۔اس نے “مقدس نظام، مذہبی تنظیم کی تعریف کی عمدہ مثال” کے عنوان سے مقالہ لکھا جو ‘ مقدسات اور ان کا مطالعہ: مذہب کی مبادیات پر معلوماتی مواد کے مطالعے میں تحقیق کے تقابلی طریقوں کا جائزہ’ کے عنوان سے چھپی ایک کتاب کا اہم باب ہے۔ اس کتاب کو تھامس ایڈی نوپولس اور ایڈورڈ یونان نے ترتیب دیا اور برل پبلشرز نے میں شائع کیا ہے۔ولیم پاڈن کا کہنا ہے کہ تقدیس کا اصول مذہب میں محدود نہیں ۔اس اصول کامقصود کسی بھی عالمگیر نظام کی بقا اور اس کی سالمیت کی حفاظت ہے ۔ کسی بھی ادارے کی سا لمیت کے لئے اسے مقدس بنا دیا جاتا ہے۔ معاشرتی نظم کا جواز مذہب سے جڑا ہو یا نظام کی بقا اس کی سلامتی اور اس کی خلاف ورزی کے مابین کش مکش کی مرہون ہو ،تقدیس اس نظم سے وفاداری کو یقینی بناتی ہے۔مذہبی طبقات مذہب کی سرحدوں کی سا لمیت کے لئے دنیوی نظاموں کے ساتھ معاملہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح غیر مذہبی امور کو مذہب کا درجہ دے کر ان کی سا لمیت کے لئے تقدیس کے عمل کا سہارا لیتے ہیں۔تاہم تقدیس کے مذہبی مفہوم پر قائم رہتے ہوے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ سیکولر طاغوت اور بدی کا نظام ہے، مذہب سیکولر طرز حیات کے ساتھ مفاہمت نہیں کر سکتا ۔
مقدس اور تقدیس کی اصطلاحوں میں فرق بیان کرتے ہوے پاڈن کا کہنا ہے کہ مقدس اپنے مفہوم میں مذہب کے زیادہ قریب ہے۔ اس کے بر عکس تقدیس معاشرتی رویے کا نام ہے۔۔ تاریخی نقطہ نظر سے مقدس کے مفہوم میں مافوق الفطرت ، ماورا،پر اسرار اور غیر معمولی کے مفاہیم شامل ہیں۔ اس لحاظ سے پاڈن تقدیس کی دو اقسام بیان کرتا ہے۔ پہلی قسم (من و سلوی )کہلاتی ہے جو سماوی مانی جاتی ہے۔ دوسری کو غیریت، ممانعت یا حرمت کہا جاتا ہے ۔ دونوں کی تقدیس میں مذہبی فرق یہ ہے کہ پہلی سے عقیدت اور دوسری سے پرہیز واجب ہے۔ عام آدمی کے لئے مقدس اور تقدیس میں فرق کرنا بہت مشکل ہے لیکن علمیات میں یہ دقیق تفریق بہت اہم ہے ۔عیسائی متکلمین نے مقدس کو تو خدا کی صفت کے طورپر قبول کرلیا لیکن حرمت کو تقدیس کے مترادف قرار دینے میں مشکل پیش آئی کیونکہ تاریخی طورپر حرمت کے مفہوم میں اس کا ناقابل توہین ہونا بھی شامل تھا۔
اس تجزیے سے پاڈن نے سیکولر کے بھی دو مفہوم بیان کئے ہیں۔ ایک مفہوم کسی عمل کی فطری، عام، اور انسانی حیثیت ہے جو مافوق الفطرت اور سماوی کے بر عکس ہے۔ اس مفہوم میں مذہبی اور سیکو لر مختلف بھی ہیں اور متضاد بھی۔ دوسرا مفہوم دوقطبی دوئی کا ہے، جیسے دنیا وی اور دینی، مادی اور روحانی متوازی خطوط میں ایک دوسرے سے مختلف تو ہیں لیکن الگ نہیں۔ان کے درمیان حد بندی ممکن ہے۔ تاہم دونوں ایک بڑے کل کا حصہ ہیں۔
۳۔ مقدس مادیت۔ ریبیکا گزلبریخت اور رالف کنز نے میں شائع مرتبہ کتاب ‘ تقدیس اور مادیت: ارتباط کا تعین’ میں سوال اٹھایا کہ کیا مقدس کا مادیت سے الگ وجود ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ مقدس مادیت اور مقدس روحانیت دونوں کا وجود ہے اور وہ اپنی جدا گانہ حیثیت سے موجود ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جدید فکر میں حقیقت ان دونوں کے بیچ ہے۔ آج کی روحانیت نہ کلی طور پر باطنی ہے نہ کلی ماورائی۔
اب تک ہم نے ہم عصر مذہبی تحریکات کے مطالعے میں مغربی جامعات میں پیش آنے والے مسائل کا جائزہ پیش کر رہے تھے۔ یہی مسائل مسلم تحقیقی اداروں کو بھی در پیش ہیں۔ لیکن ان کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی بجائے ہمارے ہاں انہیں استشراق کے پیدا کردہ سوالات قرار دے کر قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ اگلی سطور میں ہم علامہ اقبال کے حوالے سے بات کریں گے کہ ان تحریکات کا تجزیہ کرتے وقت انہوں نے کن مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ علامہ اقبال کے بعد سماجی علمیات اور طریق تحقیق میں بہت پیش رفت ہوئی ہے لیکن اقبال سے بات شروع کریں تواس میدان میں ہمارے تحفظات اور تذبذب کو صحیح طریقے سے سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے اور تحقیق کے دروازے کھولنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔
علامہ اقبال: اسلامی تحریکیں، اسلامی ثقافت کی روح، ریاست، اوراجتہاد
علامہ اقبال کی کتاب’ اسلام میں دینی فکر کی نئی تشکیل’ میں جو میں شائع ہوئی ان تمام مسائل پر بحث ملتی ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ان میں دین، نبوت، ختم نبوت، اجتہاد، اجماع، مذہبی تجربہ، زمان و مکان، عقل، علم، عقل، عشق، سیکولر، روحانی، مادی، ثقافت، اور بہت سی اصطلاحیں ہیں جن کے نئے مفہوم سامنے آئے ہیں لیکن محققین عام طور پر انہیں قدیم مفہوم میں ہی لیتے ہیں اس لئے جدید مذہبی تحریکات کو پوری طرح سمجھ نہیں پارہے۔
اقبال نے وہابیت سے لے کر خلافت تک عالم اسلام کی تقریبا تمام مذہبی تحریکات کا تجزیہ کرتے ہوے اپنے ہم عصر مطالعات کی خامیاں بھی بیان کی ہیں۔ انہوں نے ختم نبوت اور جدیدیت، مذہبیت اور سیکولرزم، علمیات میں سائنسی طریق تحقیق میں مسلم فکر کے کردار پر مبا حث میں نئے دروازے کھولے ہیں۔یہاں علامہ اقبال کی جدیدیت کا مطالعہ مقصود نہیں ہم صرف ان چند نکات کا ذکر کریں گے جو آج کے موضوع سے متعلق ہیں۔
احیا اور اصلاح کی اسلامی تحریکات
فکر اقبال کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد سے انسانی تاریخ میں دور جدید کی ابتدا ہوئی۔اسلام نے ایک ایسی ثقافتی تحریک برپا کی جو دسویں صدی میں رہنما عالمی تہذیب بن چکی تھی۔ اس کی کامیابی کا بنیادی اصول اجتہاد کا طریق فکر و تحقیق تھا جس نے قدیم یونانی میکانکی طرز فکر کی بجائے متحرک کائنات کا تصور دیا ۔روح اور مادہ کی تفریق اور دوئی پر مبنی علمیات کی بجائے توحید کو حرکت کا اصول بتایا جس کی روسے کائنات کی تخلیق تصادم کی بجائے ایک مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ یورپی اور مسلم دونوں تہذیبیں جدیدیت کی تکمیل میں ناکام رہیں۔ یورپی تہذیب جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں کامیاب رہی لیکن سیاسی اور سماجی علوم میں ناکام۔ اس کے برعکس مسلم تہذیب جو اپنے سنہرے دور میں سائنسی اور سماجی دونوں علوم میں آگے تھی جدید دور میں جمود اور زوال کا شکار ہوئی۔ اقبال کا تجزیہ یہ ہے کہ ان دونوں کی ناکامی کے اسباب مختلف ہیں ۔یورپ نے تسلسل کے اور مسلمانوں نے تغیر کے اصولوں کو رد کردیا۔ اس کی وضاحت میں اقبال نے لکھا :
معاشرہ حقیقت مطلق کے ایسے تصور پر استوار ہوتا ہے جس میں تسلسل اور تغیر دونوں میں موافقت ہو۔ اس کے لئے ایسے ابدی اصول لازمی ہیں جن پر قائم رہتے ہوے معاشرہ سماجی زندگی کو متوازن رکھ سکے۔ مسلسل تغیر پذیر کائنات میں یہی ابدی اصول قدم جمائے رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔تاہم اگر یہ ابدی اصول تغیر کے امکان کو تسلیم نہ کریں تو معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن کے مطابق تغیر کا اصول خدا کی عظیم نشانیوں میں سے ہے۔ اس کو نظر انداز کردیں تو ایک فطرتا متحرک شے کو غیر متحرک بنانے کا رویہ سامنے آتا ہے ۔ ص۔، ترجمہ وحید عشرت
اقبال نے دسویں صدی سے انیسویں صدی تک کی مختلف اسلامی تحریکوں کا جائزہ لیتے ہو ئے انہی رویوں کی نشاندہی کی ہے۔ نویں صدی میں علم الکلام کی تحریکوں میں سے ایک تحریک معتزلہ عقلیت کے پہلو پر بہت زیادہ زور دینے کی وجہ سے قرآن کو قدیم ماننے سے انکار کرتی تھی۔ اس کے برعکس قدامت پسند سمجھتے تھے کہ قرآن کا قدیم ہونا اسلام کا بنیادی اصول ہے جس کے انکار سے اسلامی معاشرہ غیر مستحکم ہو جائے گا ۔ اسی طرح تصوف میں ظاہر اور باطن میں فرق بنیادی بات خیال کی جاتی تھی۔ گیارہویں صدی میں اسماعیلی اور باطنی تحریک نیبھی اسی بات پر زور دیا۔ تصوف کی مخالفت میں ان کی باطنی تحریک سے مماثلت بھی ایک وجہ بنی۔ تاہم ظاہر اور باطن میں تمیز نے جب ظاہر یا دنیا سے بے توجہی اور ترک دنیا کے رویے کو دین کا درجہ دیا تو اسلام کے سماجی اور سیاسی پہلو نظر انداز ہونے لگے۔ حتی کہ ان میدانوں میں عوام کی رہنمائی بھی فقہا کے پاس چلی گئی ۔
بغداد کی تباہی اور عباسی خلافت کے خاتمے کے بعد تیرہویں صدی میں قدامت پسند مسلم فکر نے معاشرے کو انتشار اور شکست و ریخت سے بچانے کے لئے فکر و عقل کی آزادی کو خطرہ سمجھتے ہوئے فقہی مذاہب کی تقلید پر زور دیا تاکہ عوام کی سماجی زندگی کو فقہ اور قانون کے ضابطوں سے متحد رکھا جاسکے۔یوں بتدریج تقلید کو تقدیس کے عمل سے غیر متبدل کا درجہ دے دیا گیا ۔ایسے وقت میں ابن تیمیہ جیسے مفکر نے اس بات پر زور دیا کہ فقہی مذاہب کی بجائے اولین دور کے فقہا اور سلف صالحین کی تعلیمات کی طرف لوٹنا ہی انتشار سے بچا سکتا ہے۔ ابن تیمیہ نے تقلید کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ تقلید اسلام کی روح کے منافی ہے۔
اٹھارہویں صدی میں جو اصلاحی تحریکیں ا بھریں ان میں سے اکثر مثلا وہابی، سنوسی، فولانی، مہدوی سب نے تقلید کے خلاف آواز بلند کی۔ تاہم ان تمام تحریکوں نے ماضی کی طرف لوٹنے کی دعوت دی۔ اقبال نے وہابیت کے حوالے سے لکھا کہ اگرچہ میکڈانلڈ کے بقول یہ اسلام کی زندگی میں پہلی دھڑکن تھی تاہم ” یہ تحریک اندر سے قدامت پسندانہ مزاج کی حامل تھی۔اس نے مکاتب فقہ کی قطعیت کے خلاف بغاوت کو تو فروغ دیا اور شخصی استدلا ل کی آزادی کے حق پر بھی زور دیا لیکن ماضی کی جانب اس کا رویہ تنقیدی نہیں تھا”
بیسویں صدی میں ترکی میں نیشلسٹ پارٹی اور اصلاح مذہب پارٹی کے تجزیے میں بھی افراط و تفریط کے یہی رویے دیکھنے میں آئے۔ نیشلسٹ پارٹی قومی زندگی میں ریاست کو بنیادی قرار دیتی تھی اس لئے ریاست میں مذہب کے کردار کی قائل نہیں تھی۔ اس پارٹی نے ریاست اور مذہب کے تعلق سے پرانے تمام تصورات کو رد کرتے ہوئے دونو ں کی علیحدگی پر زور دیا۔ اس نکتے کاتعلق ریاست میں مذہب کے مقام اور کردار کے مطالعے کے طریق کار سے ہے اس لئے اس پر آگے چل کر بات ہوگی۔
اسلامی تحریکات کے مطالعے میں مسلمات پر نظر ثانی کی ضرورت
علامہ اقبال اس کتاب میں جدید یورپی فکر، اسلامی روایت اور جدید مسلم فکر سب کا جائزہ لیتے ہوے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ مسلمات، علمیات اور طریقہ تحقیق اسلام کی تاریخ اور اس کی جدیدیت کا صحیح ادراک نہیں کر پا رہے ۔مغربی فکر میں انہوں نے خصوصا اوسوالڈ سپینگلر کے تجزیات میں مسائل کی نشاندہی کی ہے ۔سب سے پہلے ہم مسلمات اور علمیات کے حوالے سے مختصرا سپینگلر کے دعووں پرا قبال کی تنقید کا ذکر کریں گے، بعد میں ہم ان موضوعات پر اقبال کے تجزیات پر بات کریں گے۔
اقبال سپینگلر کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یورپی ثقافت کی روح کلاسیکی ثقافت کی مخالف ہے(ص )۔ البتہ اسلام کے بارے میں سپنگلر کے تبصروں پر انہوں نے کڑی تنقید کی ہے۔ اقبال مانتے ہیں کہ مجو سی جھوٹے خداو ں کے وجود کو تسلیم کرتے تھے لیکن انہیں سپنگلر کی اس رائے سے اتفاق نہیں کہ مجوسی جھوٹے خداؤں کی پوجا بھی کرتے تھے۔وہ سپنگلر کے اس دعوے کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ اسلام مجوسی مذاہب کی فہرست میں شامل ہے۔ اسلام جھوٹے خداوں کی پوجا تو کیا ہر طرح کے جھوٹے خداوں کے وجود کا منکر ہے (ص )۔ اسلام تو خیر و شر دونوں کو اللہ کی تخلیق مانتا ہے۔اقبال کو سپنگلر کا یہ دعوی بھی قبول نہیں کہ کلاسیکیت کے خلاف آواز جدید یورپ نے اٹھائی۔’’جدید دنیا میں کلاسیکیت کے خلاف روح کا ظہور حقیقتاً یونانی فکر سے اسلام کی عقلی بغاوت سے ہواہے (ص )۔
علمیاتی پس منظر
علامہ اقبال نے اسلامی ثقافت کو جدید تہذیب کا آغاز قرار دیا ہے اور اس کی وضاحت کے لئے اسلامی تعلیمات میں انسانی عقل پر اعتماد ، یونانی فکر کی میکانکیت پر عقلی تنقید، کائنات میں تغیر اور اختلافات پر غور کی دعوت، اجتہاد اور اجماع کو اصول حرکت ، علوم کی وحدت ،انسان کی فکری آزادی کے حوالے دئے ہیں اور ان سب کی قرآنی اور دینی بنیادوں سے بحث کی ہے۔ ،ہم ذیل میں صرف چار اصولوں کا ذکر کریں گے۔
ختم نبوت اور عقلیات: علامہ اقبال نے ختم نبوت کے عقیدے کو اسلام میں عقلیات کی مذہبی اہمیت کی بنیاد بتایا ہے۔ ختم نبوت کا معنی تکمیل دین ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اب کسی کو دین میں اضافے اور توسیع کا حق نہیں۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے عقائد کی بنیاد بھی عقلی غورو فکر پر ہے دین سے خارج امور میں عقل کا ا ستعمال منع نہیں۔
فکر اقبال میں نبوت روحانی شعور کا نام ہے جو انسان کو وحی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ روحانی شعور زندگی کا عالمگیر اصول ہے۔ انسانی تاریخ میں معاشرے کے ارتقا کے مراحل انسانی زندگی کی طرح بچپن، بلوغت اور بڑھاپے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ جیسے بچپن میں تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اسی طرح انسانی معاشرت کی بلوغت سے پہلے احکام انبیا کے ذریعے براہ راست وحی سے حاصل ہوتے تھے۔جیسے بلوغت کے بعد انگلی پکڑ کر چلانے کی ضرورت نہیں رہتی معاشرتی بلوغت کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہوا اور انسان کو اپنی عقل سے فیصلوں اور اجتہاد کی صلاحیت ملی۔ تحقیق اور جستجو انسان کی جبلت میں شامل ہیں۔ مسلم علمیات کی بنیاد آسمانی کتابوں سے استنباط اور استقرائی طریق کار پر رکھی گئی۔ تاریخ انسانی میں دور جدید کا آغاز نبی اکرم کی بعثت سے ہوا۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قدیم اور جدید دنیا وں کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک وحی کے منابع کا تعلق ہے آپکا تعلق قدیم دنیا سے ہے۔ جہاں تک اس وحی کی روح کا تعلق ہے آپ کا تعلق دنیائے جدید سے ہے۔ اسلام کی آفرینش عقل کی آفرینش ہے۔ اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اسلام نے پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ کیا۔ قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا بار بار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا ان سب کا ختم نبوت کے تصور کے مختلف پہلووں سے گہرا تعلق ہے ۔ (اقبال: اسلام میں دینی فکر کی تشکیل نو، ص – ۔ ترجمہ وحید عشرت)
دوسری جانب مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ میں عقل محض اور مذہبی نفسیات ،اس اصطلاح سے میری مراد اعلی تصوف ہے۔ دونوں کا مدعا یہ ہے کہ لامتناہی کو حاصل کیا جائے ۔ اور اس سے لطف اندوز ہوا جائے۔ زمان و مکان کا مسئلہ ایسی ثقافت میں موت اور حیات کا مسئلہ بن جاتا ہے۔( ص ، ترجمہ وحید عشرت)
تسلسل اور تغیر:علامہ اقبال اجتہاد کو اسلامی ثقافت کا اصول حرکت بتاتے ہیں۔ قرآن کریم میں کائنات میں تغیرات، تاریخ کے انقلابات، فطرت کے مظاہر میں اختلافات سب میکانکیت اور سکون کی بجائے حرکت کو اللہ کی نشانیاں بتا کر ان کے مطالعے کی دعوت دیتے ہیں۔ فکر اسلامی کو اجتہاد نے متحرک رکھا ۔ فقہی مذاہب میں جب اجتہاد کی جگہ تقلید نے لے تو اسلامی فکر جمود کا شکار ہوئی۔ علامہ اقبال نے اجتہاد کے بارے میں چھٹے خطبے میں تفصیل سے لکھا ہے یہاں ان کا مندرجہ ذیل نقل کرنا ہی کافی ہے کہ ” اسلامی فکر کے تمام ڈانڈے ایک متحرک کائنات کے تصور سے آ ملتے ہیں” ( ص ۔ ترجمہ وحید عشرت)۔
۔روح اور مادے کی وحدت :اقبال کے تجزیے کی رو سے قدیم علمیات میں غلطی انسان کی وحدت کو دو علیحدہ اور مختلف حقیقتوں میں تقسیم کرنے سے پروان چڑھی ہے جو اپنی اصل میں ایک دوسرے سے متضاد اور متخالف ہیں۔ لیکن ان میں ایک نقطہ ہم آہنگی کا بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمان و مکان کے حوالے سے مادہ بھی روح ہے۔ وہ وحدت جسے آپ انسان کہتے ہیں وہ جسم ہے جب آپ اسے خارجی دنیا میں عمل پیرا دیکھتے ہیں۔ اور وہ ذہن یا روح ہے جب آپ اسے عمل کے مقصد اور نصب العین کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔(ص ، ترجمہ وحید عشرت)
مذہب اور ریاست۔ اقبال کے نزدیک اسلامی نقطہ نظر سے ریاست مندرجہ بالا اعلی اصولوں کو زمانی اور مکانی قوتوں میں تقسیم کرنے کی جدوجہد سے عبارت ہے جو مخصوص انسانی ادارے میں عملی صورت دینے کی خواہش کا نام ہے۔ صرف اسی ایک مفہوم میں اسلام میں ریاست تھیو کریسی ہے۔ اس مفہوم میں ہرگز نہیں کہ ریاست کا سربراہ زمین پر خدا کا نائب یا نمائندہ ہو گا جو اپنی مطلق العنان استبدادیت پر اپنی مفروضہ معصومیت کا پردہ ڈال دے۔(ص ، ترجمہ وحید عشرت)۔ روح اور مادے کی تفریق کے عقیدے نے ریاست کے حوالے سے مغرب میں مذہب اور سیکولرزم میں تفریق کو لازمی بنایا۔ علامہ اقبال ا وضاحت کرتے ہیں کہ مسلمانو ں کا سیکولرزم کو دیکھنے کا زاویہ یورپ سے مختلف ہے ۔ یورپ میں یہ بحث چرچ اور سٹیٹ میں اتحاد یا تفریق کے حوالے سے ہے۔
اسلام میں یہ( مذہب اور سیکولرزم کی تقسیم) صرف ریاست کے کام اور دائرہ کار کی تقسیم ہے۔ یورپ میں اس کی بنیاد روح اور مادہ کی مابعد الطبیعیاتی دوئی اور تفریق ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام ابتدا ہی سے ایک سول سوسائٹی ہے جہاں قانون اپنی نوعیت میں سول ہے اگرچہ عقیدے کی رو سے اس کا منبع وحی الہی ہے (اسلام اور احمدیت، ، ص ۔)
اقبال اس کا مزید تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
اسلام میں روحانی اور مادی دو الگ الگ خطے نہیں ہیں۔ کسی عمل کی ماہیت بظاہر کتنی ہی سیکولر کیوں نہ ہو اس کا تعین عامل کے ذہنی رویے سے ہوگا۔اگر اسے دنیاوی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دنیاوی اور دینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ریاست دینی نظر آتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ کلیسااور ریاست ایک ہی چیز کے دو رخ یا دو حقیقتیں ہیں۔ اسلام ایک واحد ناقابل تقسیم حقیقت ہے۔ اسلام کو کلیسا یا ریاست قرار دینا نقطہ نظر کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کے نتائج دور رس ہیں اور اس لحاظ سے بہت ہی دقیق فلسفیانہ تجزیے کی متقاضی ہے ( ص ، ترجمہ وحید عشرت)۔
اصول تحقیق
اقبال نے اسلامی علمیات میں اصول تحقیق میں معروضیت کی بحث کاتجزیہ کرتے ہوے تحقیق کی مقصدیت پر زور دیا ہے۔اس مقصدیت کا تقاضا ہے کہ غور وفکر کی یونانی طریقے کے برخلاف مابعد الطبیعیات کی بجائے طبیعیات اور مادی اور ٹھوس حقائق کا تجرباتی مشاہدہ کیا جائے اور استقرا کے طریقے سے نتائج کا استنبا ط کیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں : “مسلم ثقافت کے بارے میں پہلی چیز جو غور طلب ہے وہ علم کے حصول کے مقصد میں ٹھوس اور متناہی پر توجہ مرتکز رکھنا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسلام میں مشاہدے اور تجربے کے طریق کار کی آفرینش یونانی فکر سے موافقت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس سے مسلسل عقلی جنگ کا حاصل تھا (تشکیل نو ص ، ترجمہ وحید عشرت)۔
حاصل بحث
اٹھارہویں صدی میں احیائے اسلام کی تحریکوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسلامی معاشرت میں بدعات کا رواج تقدیس کے عمل سے وجود میں آیا۔ اصلاحی تحریکوں نے بدعت کو قابل مذمت قرار دے کر اسے سنت کے دائرے میں واپس لانے کی کوشش کی۔تقدیس کا عمل غیر دینی امور کو دین میں شامل کرنے اور ان کو مقدس بنانے کا نام ہے۔ انیسویں صدی میں استعمار کے خلاف جہاد کی تحریکوں نے سیاسی تقاضوں کے تحت مذہب کی حدود میں توسیع کی اور سیاسی جد و جہد کو تقدیس کے عمل کے تحت عبادت کا درجہ دیا۔بیسویں صدی میں آزادی کی تحریکوں نے قومیت اور وطنیت کو مقدسات میں شامل کیا۔اسی صدی کے نصف آخر میں جب قومی ریاستیں قائم ہوئیں تو ریاست اور سیاست کے مذہبی یا سیکولر کی بحث چھڑی۔سیکولر مخالف مذہبی فکر نے سیکولرازم سے بچنے کے لئے دین کی حدود میں توسیع کرتے ہوے تقدیس کے عمل سے ریاست کو بھی مقدسات میں شامل کرلیا۔ آزادی کے بعد جب دنیا دو قطبوں میں تقسیم ہوئی اور بعض مسلم ملکوں میں اشتراکیت پسند جماعتیں اقتدار میں آئیں تو متعدد مذہبی تحریکیں سامنے آئیں جنہوں نے تقدیس کے عمل کے ذریعے مذہب کے دائرے کو مزید وسیع کرتے ہوے کمیونزم ، سوشلزم اور اسی قسم کے دیگر نظریات کو کفر قرار دیا اور اس کے مقابلے میں دوسرے نظریات کو تقدیس کے عمل کی مدد سے دین میں داخل کر لیا۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ان تمام تغیرات اور تحریکات کے تجزیاتی مطالعات کے لئے جہاں مغربی علمیات اور مسلمات کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے وہاں اس بات کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ مسلم تحریکات نے دین کی حدود میں توسیع یا مادیات کی تحدید کرتے ہوے مقدسات میں کیا اضافے کئے ہیں.
بشکریہ تجزیات آن لائن
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں