بظاہر لگتا ہے جنرل الیکشن نزدیک اور کراچی کی بلدیاتی انتخابات اگر ملتوی نہ ہو گئے۔۔ تو چند دنوں میں ہیں بلدیاتی الیکشن کے لئے سندھ بھر میں اقلیتی ووٹوں کی تعداد 2217141جن میں سے ہندؤ ووٹرز 1936749 مسیحی ووٹرز 254731 ہیں کراچی میں مسیحی ووٹرز کی تعداد 212197جبکہ کراچی میں ہندؤ ووٹرز کی تعداد 71757 ہے۔جنرل الیکشن تک اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوجانے گا۔۔ ہندؤوں کے ووٹرز کو نکال کر مجموعی ووٹرز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں کہ کوئی بڑی پارٹی ان کے لئے کچھ سوچے اور ہندؤ ووٹروں کی اس کثیر تعداد کو “چندے یا ایک آدھ بندے “کی گڈ بکس میں ہونے والے دیہاڑی دار سیاستی خرید یا لبھا لیتے ہیں۔۔ اس لئے ان ووٹوں کا کبھی بھی صحیح مول نہیں پڑا ،۔رہ گئے مسیحی، تو ان میں سے قومی پارٹیوں میں شامل سیاسیتوں کا مسلہ نہ پارٹی فلسفہ نہ اپنی کمیونٹی کے مسائلِ کا ادراک بس خوشامد کے نئے نئے ڈھنگ جو بعد میں دیہاڑی میں آسانی پیدا کردیں اور بچوں کے نان نطفے کا کچھہ آسرا ہو جائے رہ گئے ان کے نام پر ذاتی چند چند بندوں کی پارٹیاں بنانے والے تو انکا سب سے بڑا ہتھیار دروغ گوئی ہے ۔۔وہ لٹیا یوں ڈوبوتے ہیں کہ ووٹوں کی تعداد کو دس سے ضرب دے کر کہہ دیتے ہیں ہمارے ووٹرز تو اتنے ہیں۔لیکن ریکارڈ میں کم ہیں ۔مثلا وہ ان دو لاکھ بارہ ہزار کی جگہ پچاس لاکھ ووٹرز کراچی میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔اب قومی پارٹیاں کی ذمدارین کو چاہیے انھیں صحیح اعداد وشمار اپنے ان اقلیتی ورکروں کو بھی رٹائیں تحریک شناخت نے شعیب سڈل کمیشن کی وساطت سے بہت سارے اعداد و شمار پبلک کروالئے ہیں ۔مثلا اقلیتی ووٹروں کا صوبے ڈویژن ضلح اور تحصیل کی سطح کا ڈیٹا الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔۔جبکہ تحریک شناخت نے یوسی تک گزارش کی تھی وہ بھی امید ہے چند دنوں تک پبلک ہوجائے گا۔۔ مسیحی سیاستی پارٹیوں اور این جی اوز کو بھی چاہئے انکی فکری تربیت اعدادوشمار کی بنیاد پر کریں۔۔سرابوں اور جھوٹے خوابوں پر نہیں ۔ انکی ذمداری بھی ذیادہ ہے ۔۔یقین مانے بڑے سے بڑے قومی لیڈر کو بھی اقلیتوں کے اصل مسائل کا ادراک زیرو ہے ۔۔وجہ انکے قریب کے اقلیتی لوگوں کی نالائقی اور بدنیتی ہوتی ہے ۔مثلا ابھی پنجاب کے بیس حلقوں کے الیکشن میں میں نے پی ٹی آئی آور پیپلز پارٹی کے مسیحو کو کہا کہ بھائی اپنی قیادت سے ن لیگی دؤر کی اس گیارہ لاکھ آبادی کی چوری کا ذکر کریں لیکن وہ لیت و لعل سے کام لیتے رہے ۔۔ا جبکہ جس بھی انسان دوست مسلم سیاسی سے بات ہوئی وہ مسائل سے نابلد تھا اور سننے کے بعد اس بات پر حیران کے ہمارے قریبی لوگ یہ سب کیوں نہیں بتاتے ۔۔۔اور ذاتی سیاستی پارٹیوں والےتو جہاں جہاں جسکی سوئی فٹ ہے وہاں سے آگے پیچھے کرنے سے انکی قائدانہ صلاحیتوں اور چئیر مین شپوں کو شدید خطرات لا حق ہوجاتے ہیں۔۔ لہٰذا اس ساری صورتحال میں قومی پارٹیوں اور کراچی کی مئیر شپ کی امیدوار پارٹیوں سے گزارش ہے۔کہ انسانیت،اور انصاف کے ناطے ان اقلیتی ووٹروں کے شہری روز مرہ کے مسائل تو سانجھے ہیں۔۔ لیکن ان ووٹروں کی مذہبی شناخت سے جڑے مسائل کو جان کر انھیں اجاگر کرکے حل کا کوئی لالحہ عمل دیں۔۔
سندھ کی اس کثیر تعداد ووٹروں کو اپنی طرف راغب کریں اس وقت اقلیتوں کا سب سے بڑا مسلہء ایک شفاف اور انصاف پر مبنی انتحابی نظام ہے۔۔ جس میں مذہبی ؤ قومی تشخص کی بنیاد پر نمائندگی کی ضمانت ووٹ سے ہو ۔دوسرا مسیحو کی گیارہ لاکھ کی آبادی کی 2017کی افراد شماری میں چوری کی ہے ۔جو پارٹی ان مسائل کی طرف توجہ دے گی وہ سندھ کے اقلیتی ووٹروں کو جنرل الیکشن میں اور ابھی کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اقلیتی ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کریں گی۔ کل اسد عمر کاشف عباسی کو بتا رہے تھے۔۔ ہمارا اصلی منشور تین باتوں پر مبنی ہے۔۔
انسانیت ،انصاف،اور خود داری تو اسد صاحب انسانیت کے ناطے اقلیتوں کو انصاف پر مبنی انتحابی نظام کے لئے بھی کچھ سوچوں اور خودداری کا سبق اپنے قریب اقلیتی مبینہ پارٹی راہنمائوں کو بھی دیا کرو ۔۔ورنہ راجہ ریاض احسن گجر،رمیش کمار، علامتی کردار ہیں ۔یہ چاہے کسی بھی رنگ ،نسل مذہب سے ہوں یہ فکری قافلوں کو راہ میں لوٹ لیتے ہیں ۔۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں