کافوری خوشبو/سید محمد زاہد

سبز و سفید ردا پر نور کی برسات تھی۔ گرد آلودہ وردی چمک رہی تھی۔ ریت اور مٹی سے اٹا، کافوری خوشبو میں لپٹا چہرہ سکون اور ثبات کا مظہر تھا۔ اجنبی لوگوں کا جمگھٹا، اجنبی عورتوں کی باتیں سب تیری یاد کو بھڑکا رہی تھیں۔ تم چلے گئے تو یہی کافور میرے زخموں کا مرہم بن گیا۔
ماں کہتی تھی کہ روہی کے لوگ وہاں کی مٹی کی طرح نرم و ملائم ہوتے ہیں۔ پیاس اور افلاس کے مارے صحرا میں غربت اُگتی ہے۔ وہاں کی زمین بنجر ہوتی ہے لیکن کرم کی بارش برسے تو دھرتی کے سنگ سنگ دل بھی شاداب ہو جاتے ہیں۔ میرے بال گوندھتے وقت وہ مسلسل باتیں کرتی جارہی تھی۔ اس دن تم میرے بھائی کے ساتھ ہی آئے تھے۔ نئی نئی پوسٹنگ اور وہ بھی پہاڑی علاقے میں۔ تم بہت خوش تھے۔ تم کہہ رہے تھے پہاڑ تو روہی کے پیاسے لوگوں کا آئیڈیل ہوتے ہیں۔ نرم اور سرد ہوا ، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے بہتے جھرنے۔ میں نے پہاڑی بوٹیوں سے تیار کردہ قہوہ کی کشتی تمہارے سامنے پڑی میز پر رکھی تو تم اس کی دہکتی مہکتی خوشبو سونگھ کر کھل اُٹھے تھے۔

آئی جی کی بیگم میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ پیار بھری اور مہربان نظروں سے میری طرف مسلسل دیکھ رہی تھی۔ بہت مہربان خاتون تھی وہ۔ لیکن مجھے مہربانی نہیں جواب چاہیے تھا۔ بہت سے سوالوں کا۔۔ ان تمام سوالوں کا جو پوری قوم پوچھ رہی تھی۔
میں اپنی تین ماہ کی بچی کو سینے سے لگا کر چل پڑی۔ وہ کومل کامنی نرم و نازک خرگوش کی طرح میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ آنکھیں بند، پر سکون، سوال پوچھنے کی عمر ہی نہیں تھی اس کی۔
مجھے اس کے لیے جینا تھا۔۔

تم اور بھائی ایک ہی اکیڈمی سے ٹریننگ لے کر آئے تھے۔ بہت خوشگوار دن تھے۔ پھر میں تمہارے ساتھ ہی پہاڑوں کو الوداع کہہ کر چلی آئی۔ روہی کے سفید صحرائے عظیم کی طرف، تمہاری مضبوط باہوں کے سہارے ،اپنی کوکھ میں اس چند ماہ کے جنین کو اٹھائے ہوئے۔ تم اٹھلاتے پھرتے تھے۔
میں پہاڑوں کی طرف لوٹ آئی تھی اس چند ماہ کی بچی کو اپنی کمزور باہنوں میں اٹھائے ہوئے، اپنے دل میں بسی تمہاری یادوں کے سہارے۔

دوسرے کمرے میں بھی بہت سی عورتیں موجود تھیں۔ سب خاموش۔ ان عورتوں کی زبانیں گنگ تھیں اور آنکھیں پُر نم۔۔ زبانیں تو صاحبان ِحکم اور اربابِ اختیار کی بھی گنگ تھیں۔ شاید وہ اور ان درندوں کے پالن ہار منہ جھکائے، سوکھی آنکھیں چھپائے پھر رہے تھے۔
نئی توجیہات تلاش کرنے کے لیے!
****
میرے گاؤں کے قریب پھول بھری جنگلی پودوں کی باڑیں ہیں جن کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی زمین پر آلو، مٹر اور مکئی کی فصلیں لہراتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جسے آباد کرنے کے لیے میرے آباؤ اجداد نے صدیوں محنت کی ہے۔ ان کے جسم اس مٹی کی کھاد بن چکے ہیں۔ جو کبھی ان پہاڑیوں پر چلتے تھے ان کی زندگی کی توانائیاں ہی ہیں جو اَب ساری فصلوں کو پالتی ہیں۔ ان کی کدال نے پتھروں کے سر پھوڑ کر جھرنوں کے پانی کو راستہ دیا تھا ۔ یہ زمین ہماری اَن داتا ہے۔ یہ ہمارا رزق ہے اور ہم نے بھی اس کا رزق بننا ہے۔

بیٹی ان جھرنوں کے کنارے بھاگتی ہے۔ کوہ قاف کی پریوں کی طرح ان میں اُچھلتی کودتی ہے۔ میں سبزیاں اکٹھی کرتی ہوں تو وہ پھولوں سے جھولی بھر لیتی ہے۔ میری ماں ادھر بیٹھی اس کی قمیض پر ویسے ہی پھول کاڑھتی رہتی ہے۔
ہر طرف پھول کِھلے دیکھ کر اس کی تمہاری جیسی آنکھوں میں مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔

ان پہاڑیوں کے پاس لوگوں کی جھولی بھرنے کو بہت کچھ ہے لیکن جو اس کی جھولی میں کچھ ڈالے بغیر لینے کی کوشش کرتے ہیں یہ انہیں ٹھکرا دیتی ہیں۔ سرحد پار کے لوگ یہ نہیں جانتے۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ بات ہماری بیٹی کو بھی معلوم ہے اور وہ زمین پر بیٹھ کر اپنی ننھی انگلیوں سے مٹی کو کھود کر اس میں اپنا خون شامل کرتی ہے۔

بھائی کی پوسٹنگ کراچی ہو گئی تھی۔ بیوی بچے ادھر ہی ہوتے ہیں۔ بچے اعلیٰ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔اکثر اکیلے ہی گھر آتا ہے۔ ہماری بیٹی کو کھیلتے دیکھ کر وہ خوش ہوتا ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہے تو اس کی اپنی آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں۔
”اب بچی کو پہاڑیوں سے زیادہ شہری زندگی کی ضرورت ہے۔”
”وہ میرے ساتھ یہیں رہے گی۔”
”تم بھی ادھر آ جاؤ۔ اللہ بہت مہربان ہے کوئی اور سبب بھی بنا دے گا۔”

میں خاموشی سے اپنی بچی کا ہاتھ پکڑ کر چلی آتی ہوں۔ تم جانتے ہو یہ مجھے قبول نہیں۔

میرے پاس سب کچھ ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کی توانائیاں بھی تو میری ہم قدم ہیں اور پھر تمہارا ساتھ بھی۔

جب تم نے ایک گُھٹنے کو زمین پر لگا کر میرا ہاتھ تھام کر پوچھا تھا،
” کیا ہم مل کر اپنی دنیا کو سجا سکتے ہیں؟”

اس دن جو طاقت تم نے مجھے دی تھی وہ بہت زیادہ ہے۔
ملکی حالات سدھرے تو سیاحوں کا آنا جانا بڑھ گیا۔ میں نے اس زمین پر ایک چھوٹا سا ہوٹل بنا لیا۔
تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہماری بیٹی آج کالج سے موسم گرما کی تعطیلات پر گھر آ رہی ہے۔ اس کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک لے کر میں جلد ہی واپس لوٹ آئی ہوں۔

سال ہا سال گذر گئے ہیں اس نے لاکھوں طریقوں سے آپ کو زندہ رکھا ہے۔ لیکن اس کی وہ ہنسی جو میری ہُوا کرتی تھی، جو آپ کو بہت پیاری تھی اور میں اس دن کے بعد دوبارہ کبھی ویسے نہ ہنس سکی، وہ جب اس کے ہونٹوں پر بکھرتی ہے تو پوری کائنات مہک اٹھتی ہے۔ میرا بھائی اسے دیکھ  کر ہمیشہ کہتا ہے کہ اس میں تم دونوں کی بہترین خصوصیات جمع ہیں۔
میں بھی اس بات سے متفق ہوں۔

وہ مجھ سے بہت تیز ہے۔ بھاگ کر دور چلی جاتی ہے۔ وہ اس عمر میں مجھ سے کم از کم دس گنا زیادہ ہوشیار ہے اور آپ سے دگنی دلکش ۔
اٹھ کر بیٹھ گئے ہو؟ جل گئے ہو یا خوش؟
لیکن یاد رکھنا تمہارے جیسا دلکش کوئی نہیں ہو سکتا۔

وہ ہماری البم کھول کر دیکھ رہی ہے۔ ایک ایک تصویر پر ہزاروں بار تبصرہ کر چکی ہوں۔ وہ بھی بتا چکی ہوں جو بتانا نہیں بنتا تھا۔ اس کا دل ہی نہیں بھرتا۔ ہر بار اسے کھول کر بیٹھ جاتی ہے۔

وہ مجھے شب بخیر کہہ کر لپٹ جاتی ہے ۔ میرے منہ کو چومتے چومتے دھیرے دھیرے خوابوں میں کھو جاتی ہےٍ۔
مجھے لگتا ہے کہ وہ بھی اپنے بارے میں کچھ اہم فیصلہ کرنے والی ہے۔

میں البم سمیٹ کر لائٹ بند کرنا چاہتی ہوں لیکن پہلی تصویر پر نظر پڑتے ہی رُک جاتی ہوں۔ ہماری پہلی تصویر، جس میں میرے رخسار سرخ گلابوں سے زیادہ سرخ اور تمہاری آنکھیں نیلے آسمان سے زیادہ نیلی دکھائی دے رہی ہیں ۔ میں آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

بند آنکھوں میں وہ منظر گھوم جاتا ہے جب میں تمہارے ساتھ رہنے کے لیے ماں باپ کو چھوڑ کرروہی چلی آئی تھی- آپ کی ملکہ، آپ کا کہنا تھا ۔ لیکن میں اس دن تخت نشین ہوئی تھی جب میری کوکھ میں ہماری بچی نے گھر بنایا تھا۔ جب ہماری بچی نے ہمیں راتوں کی نیند کم کر دی تھی۔ میں سوتی تو وہ ٹانگ مار کر جگا دیتی اور تم بھی ساتھ ہی۔۔
وہ ہماری شادی کی پہلی سالگرہ کی رات تھی جب تم نے مجھے وہ خبر دی۔
تم کو اگلے دن پہاڑیوں پر جانا تھا۔ میرے والدین کے گھر نہیں، سرحد کے قریب چوکی پر۔

تقریباً آدھی رات تھی۔ تم پُرسکون تھے اور میں بے چین۔ ان دنوں میں بھی بھلا کوئی اپنی بیوی کو اکیلا چھوڑ کر جاتا ہے؟ تم کہہ رہے تھے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جلد ہی واپس آ جاؤں گا۔ تم نے میری پانی بھری آنکھوں میں دیکھا تو ہتھیلیوں کے پیالے میں میرے چہرے کو لپیٹ لیا۔
میں پریشان تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے سب یاد ہے۔ کچھ بھی نہیں بھولی۔ سبز و سفید پاکستانی پرچم میں لپٹا تابوت۔ گرد آلودہ، خون میں لتھڑی وردی اور کافوری خوشبو میں لپٹا پرسکون چہرہ۔ کفن کی وہی کافوری خوشبو جو ایک بار پھر پورے ملک میں بکھر گئی ہے۔ بس وہ بوسہ یاد نہیں جو تم نے اس رات میری آنکھوں پر ثبت کیا تھا۔ وہ رات جو ہماری شادی کی پہلی سالگرہ کی رات تھی۔ ہماری بچی کوکھ کے اندر تڑپ رہی تھی۔اس بوسے سے وہ بھی پرسکون ہوگئی تھی۔
کاش وہ مجھے یاد ہوتا!

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply