جغرافیہ کے قیدی (9) ۔ چین ۔ نئی طاقت/وہاراامباکر

اکتوبر 2006 کو امریکی بحریہ کا سپر کیرئیر گروپ جنوبی جاپان اور تائیوان کے درمیان سے جا رہا تھا کہ اچانک، بغیر کسی وارننگ کے، ایک چینی آبدوز سطح پر نمودار ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکی بحری بیڑے میں بارہ جنگی بحری جہاز تھے، نیچے آبدوزیں اور اوپر فضائی کور۔ چینی آبدوز خاموشی سے برقی پاور پر چلتی ہوئی، ان کے درمیان سے نکلی تھی۔
امریکیوں کو حیرانی بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ حیرانی اس لئے کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنی خاموشی سے یہ آبدوز ان کے ساتھ چل سکتی ہے اور غصہ اس لئے کہ یہ حرکت چھیڑنے کے لئے ہی کی گئی تھی۔ انہوں نے احتجاج کیا اور چینیوں کی طرف سے جواب آٰیا کہ سمندروں کے درمیان میں آپ کا جنگی بیڑہ ہماری آبدوز والی جگہ پر کیا کر رہا تھا۔
سون تزو (544 سے 496 قبلِ مسیح) چینی جنرل تھے جن کی ملٹری سٹریٹجی پر لکھی کتاب “جنگ کا فن” آج بھی مقبول ہے اور چینی ادب پڑھنے والے طلباء کے لئے لازمی نصاب میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ “اگر دشمن طاقتور پوزیشن میں ہے تو اسکو چکمہ دو۔ اور وہاں نمودار ہو، جہاں پر وہ توقع نہ رکھتا ہو”۔ چین نے بالکل یہی کیا تھا۔ پرانی تہذیب کے پرانے سبق کو اکیسویں صدی کی ڈپلومیسی میں استعمال کیا تھا۔
ایسی حرکت اپنے عروج کے وقت برطانوی کیا کرتے تھے جو کہ کسی چھوٹی طاقت کے لئے پیغام ہوا کرتا تھا۔ چین نے بھی اس سے یہ پیغام بھیجا تھا کہ “اب ہم بحری طاقت ہیں۔ یہ ہمارا وقت ہے۔ یہ ہمارا سمندر ہے”۔ چین کو اس میں چار ہزار سال لگے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کبھی بحری طاقت نہیں رہا۔ خشکی کا بڑا علاقہ، طویل سرحدی علاقے۔ تجارتی پارٹنرز کے ساتھ مختصر بحری راستے۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اور نہ ہی کبھی چینی نظریات پھیلانے کے لئے توسیع کا قائل رہا ہے۔ اس کے تاجر سمندروں میں مال لے کر سفر کرتے رہے ہیں لیکن اس کی بحریہ اپنی سرحدوں سے زیادہ دور تک نہیں گئی۔ بحرالکاہل، بحراوقیانوس یا بحرہند کے بحری راستوں کی نگرانی کرنا مشکل کام ہے جو اس کی ترجیح نہیں رہا۔ یہ خشکی کی طاقت رہی ہے جس کے پاس بہت سی زمین ہے اور بہت سے لوگ جو اب 1.4 ارب سے زیادہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخی طور پر سب سے پہلے سیاسی یکجائی پانے والا یہ خطہ اب اکیسویں صدی میں ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply