مریخ کا انسان(2)-ڈاکٹر حفیظ الحسن

حارث نے اپنی بیوی آرمینہ کو دور سے آواز دی۔
سنو!  ان آلوؤں کو روبوٹ کو دیکر میرے پاس آؤ۔ تمہیں ایک دلچسپ چیز دکھاتا ہوں۔
آرمینہ نے آلوؤں کی باسکٹ پر بٹن دبایا اور وہ رینگتے ہوئے روبوٹ کی طرف بڑھی۔ روبوٹ نے ٹوکری اُٹھائی اور اسے کھول کر اس میں مزید آلو رکھنے لگا۔
آرمینہ حارث کے پاس گئی تو حارث نے اُسے کھیت میں اُگتا پھول دکھایا۔
یہ پھول سرخ رنگ کا تھا۔۔آرمینہ بولی:
یہ پھول یہاں کب اُگا۔
تمہیں یاد ہے آرمینہ پچھلے برس ہمارے بیٹا آئیو(مشتری کا چاند) پر چھٹیاں منانے گیا تھا جہاں بڑے بڑے آتش فشاں تھے۔ وہاں سے وہ اس کیلسیولاریا پھول کے بیچ لایا تھا۔ آئیو پر یہ پھول ہر طرف تھے کیونکہ آئیو کی مٹی اور آب و ہوا اس پھول کے لیے بے حد موافق تھی۔

ہاں یاد ہے۔ یاواش بہت خوش تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ یہ پھول مریخ پر اُگائے۔ اس حوالے سے اس نے اپنی یونیورسٹی میں موجود اپنے پروفیسر روبوٹ ڈاکٹر مائیک ایتھن سے بات بھی کی تھی جو نظامِ شمسی میں مختلف سیاروں پر پھولوں پر مہارت رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مائیک نے یاواش کے دماغ میں اس مضمون کی چِپ بھی ڈالی تھی تاکہ یاواش معلوم کرسکے کہ مریخ پر کون سی جگہ پر یہ پھول اُگ سکتا ہے۔
آرمینہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
ہاں اور یاواش نے کہا تھا: بابا جس روزمریخ پر یہ پھول کِھلے گا اُس روز مریخ نظامِ شمسی کا سب سے خوبصورت سیارہ بن جائے گا۔ میں پورے جزیرو کو ان پھولوں سے بھر دونگا۔
حارث ہنستے ہوئے بولا۔
اور دیکھو جب پھول کِھلا ہے تو یاواش زحل کے چاند ٹائٹن پر سمر کیمپ کے لیے گیا ہوا ہے۔
آرمینہ بولی۔
رُکو! یاواش سے بات کرتے ہیں۔
یہ کہہ کر حارث نے روور پر لگی سکرین پر ہاتھ سے اشارہ کیا اور سکرین سے ایک ہالوگرام سکرین برآمد ہوئی۔
اچانک سے یاواش کا ہالوگرام حارث اور آرمینہ کے سامنے تھا۔۔
ہیلو بابا!  کال کا شکریہ۔ آپ اپنا پیغام ریکارڈ کرا دیں میں ٹائٹن پر یاواش کو یہ پیغام بھیج دونگا۔ اس وقت چونکہ ٹائٹن کا چاند مریخ سے اپنے مدار میں سب سے قریب ہے اس لیے آپکا پیغام سوا ایک گھنٹے میں یاواش تک پہنچ جائے گا۔
یاواش یہ دیکھو تمہارا لگایا ہوا پھول ہمارے کھیت میں کِھل چکا ہے۔ بیٹا جہاں رہو، خوش رہو اور سنو!! آرمینہ تمہاری ماں کہہ رہی تھی کہ ٹائٹن سے اُسکے لیے زحل کے ہیروں کا ہار ضرور لانا۔
حارث نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں بیٹا! اور ٹائٹن پر اپنی خالہ کے ہاتھ کے پکے چاول اور پالک ضرور کھانا۔ ٹائٹن کی مٹی میں پالک بہت اچھی اُگتی ہے۔
آرمینہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
اچھا ماں ! میں یاواش تک یہ پیغام پہنچا دونگا۔
یاواش کا ہالوگرام بولا۔
اسکے ساتھ ہی اس نے کھیت میں اُگے پھول کی مختلف زاویوں سے تصاویر لیں اور غائب ہو گیا۔
چلو ارمینہ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔اپنے گلاس ڈوم میں جا کر کھانا کھاتے ہیں۔
یہ کہہ کر یاواش نے روور کو اشارہ کیا اور اس کے دروازے کُھل گئے۔ حارث اور آرمینہ روور میں بیٹھے۔ اچانک سے روور کے اوپر سے ایک ڈرون نکلا جس میں حارث اور آرمینہ تھے۔ ڈرون تیزی سے اُڑتا ہوا پانچ منٹ میں کھیتوں کو عبور کرتا انکے گلاس ڈوم تک پہنچ گیا۔ راستے میں انہیں اُنکا پڑوسی میتھیو اور اسکی بیٹی کامنی ملی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حارث کہاں جا رہے ہو؟
میتھیو نے اپنے ڈرون کے کمیونیکیشن سسٹم سے حارث سے رابطہ کر کے پوچھا۔
کھانا کھانے گھر۔ حارث نے ڈرون کی ونڈ شیلڈ پر پیغام لکھا جسے پڑھ کر میتھیو نے ڈرون کے مائیک پر کہا ۔
شام کو کھانا ہماری طرف کھانا۔ میری بیٹی کامنی نے خاص ملٹی وائٹامن سوپ بنایا ہے۔ ساتھ ہی سیباشپاتی (سیب اور ناشپاتی کے ملاپ سے بنا پھل) کی سلاد بھی ہو گی۔
خوب ! ضرور۔ حارث نے ڈرون کی سکرین پر اوکے کا نشان بنایا۔
اپنے گلاس ڈوم کی چھت پرپہنچ کر ڈرون ایک ڈرون پیڈ پر اُترا۔ ڈرون کے اترتے ہی چھت کھلی اور حارث اور آرمینہ گھر میں داخل ہوئے۔
بابا!  گھر میں داخل ہوتے ہی حارث کی بیٹی “میری” اس سے لپٹ گئی۔
میری ! حارث خوش ہو کر بولا۔ تم سکول سے آ گئی۔
ہاں بابا! ابھی ہمارا سکول ڈرون مجھے چھوڑنے آیا تھا۔
جناب! کھانا تیار ہے۔
میری کے قریب ٹھہرے روبوٹ شیف نے حارث کو اطلاع دی۔
چلو سب ملکر کھانا کھاتے ہیں۔
آرمینہ بولی
—————-
جزیرو کا صدر بے تابی سے اپنے سینٹرل کمپیوٹر دماغ میں جزیرو کے شہریوں کا جینیاتی ڈیٹا کھنگال رہا تھا۔
اسے تلاش تھی ایک ایسے آدمی کی جسکے جینز میں وہ خاص میوٹیشنز ہوں جو کرومائٹ کے خلاف مزاحمت کے قابل ہو۔ گو وہ یہ میوٹشن مصنوعی طور پر بھی کسی انسان میں کر سکتے تھے تاہم اس پر وقت لگتا کیونکہ اسکے لیے تجربہ گاہ میں۔۔۔۔
جاری ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply