فائزہ کی قسمت نہیں بدلے گی۔۔سعید چیمہ

دو بچوں کی ماں،لمبے قد،گول چہرے اور دودھیا رنگ والی اٹھارہ انیس برس کی فائزہ(فرضی نام) شاید اُن لوگوں میں شامل تھی جن کی قسمت پر سیاہ رات ایسا اندھیرا ہمیشہ غالب رہتا ہے۔اُس کی گالوں کے سرخی مائل رنگ کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی نے دودھ میں گلابی رنگ گھول دیا ہے۔مگر قسمت کی سیاہی چہرے کی سفیدی پر غالب آ گئی اور اُس کی خوشیوں کا قصر تعمیر ہونے سے پہلے ہی زمین بوس ہو گیا۔اُس نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں غربت و افلاس کا بھوت ننگے پاؤں صبح شام ناچتا تھا،فائزہ کا باپ اُس کی پیدائش پر خوش نہیں تھا کیونکہ اُسے بھی روایتی جاہلوں کی طرح بیٹا چاہیئے تھا مگر قدرت کے فیصلے تو اٹل ہوتے ہیں جن پر کسی کو کچھ اختیار نہیں ہوتا حتّیٰ کہ جلیل القدر انبیاء کو بھی نہیں۔وہ زمین کے سب سے بڑے بادشاہ و نبی سیلمانؑ کو معذور بیٹا عطا کرتا ہے اور جلیل القدر شعیبؑ کو صرف بیٹیاں،اُس کے قلم سے لکھے گئے الفاظ کی سیاہی ماند نہیں پڑتی،قرطاس کو وقت کی دھول گم نہیں کرتی مگر پھر بھی لوگ اُس کے فیصلوں سے مطمئن نہیں ہوتے اور بغاوت کا رستہ اختیار کرتے ہیں۔وہ ہر روز اپنی ننھی ننھی سیاہ آنکھوں سے دیکھتی کہ اُس کا باپ اُس کی ماں کو بری برح پیٹتا ہے مگر ماں ہے کہ یعقوبؑ کی طرح صبر کیے جا رہی ہے۔

وہ فقط چھ سال کی تھی جب اُس کی ماں عالمِ بالا چلی گئی اور اپنے حصے کے سارے دکھ خیرات کی طرح اپنی بیٹی کی جھولی میں ڈال گئی۔کچھ عرصہ بعد باپ نے دوسری شادی کر لی اور وہ اپنی ماں کے سایہ پرورش میں آ گئی،وہ اپنی سوتیلی بیٹی سے اچھا سلوک کیوں کرتی کونسا اُس کاخون فائزہ کی رگوں میں بہتا تھا۔پتہ نہیں یہ قانون کیسے بن گیا کہ ہر عورت اپنی سوتیلی اولاد سے برا سلوک کریگی مگر خدا کی کائنات میں کچھ لوگ مستثنٰی بھی ہوتے ہیں۔

ایک سال بعد فائزہ کے سوتیلے بھائی نے اِس دنیا میں آنکھ کھولی،سوتیلے بھائی کے پیدا ہونے سے فائزہ کی مشکلات بڑھنے لگیں جیسے بارش کے بعد ندی نالوں میں پانی بڑھنے لگتا ہے۔باپ پہلے ہی اُس سے شفقت و محبت سے پیش نہیں آتا تھا اور اب تو بیٹے کی محبت میں اُس سے نفرت کرنے لگا،بیٹی سے نفرت کی بات سے وقت پیچھے کی طرف چلنے لگا،ساڑھے چودہ سو سال پیچھے،پتھروں اور گارے سے بنی مسجدِ نبوی کے کچے صحن میں نبوت کے چاند(حضور) اپنے ستاروں(صحابہ) کے درمیان بیٹھے ہیں،ایک صحابی اپنا واقعہ سنانا شروع کرتے ہیں کہ میں ایک سفر پر نکلا،کچھ سالوں بعد گھر آیا تو دیکھا کہ ایک پیاری سی  بچی گھر کے صحن میں کھیل رہی ہے،اِس ڈر سے کہ میں اُسے قتل نہ کر دوں میری بیوی نے کہا کہ وہ رشتے داروں کی لڑکی ہے اور کچھ عرصہ کے لیے ہمارے گھر آئی ہوئی ہے،میں نے اُس لڑکی کو گود میں اٹھا کر پیار کیا کیونکہ معصومیت اُس کے چہرے سے جھلک رہی تھی،گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھو ایک بیٹی کا باپ آ رہا ہے،میں سمجھ گیا کہ گھر میں کھیلتی ہوئی وہ ننھی سی گڑیا میری ہی بیٹی ہے۔میں نے خاموشی سے اپنی بیٹی کو گلے سے لگایا اور جنگل کی طرف چلنا شروع کر دیا،جنگل کے قریب پہنچ کر میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا،آفتابی گولہ آسمان پر چمکتے ہوئے آگ برسا رہا تھا،گرد اُڑ کے میرے کپڑوں پہ پڑ رہی تھی اور میری بیٹی میرے کپڑے صاف کر رہی تھی لیکن مجھے پھر بھی اُس پر رحم نہ آیا،میں نے اُس ننھی سی گڑیا کو اٹھا کر گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈالنی شروع کی،میری بیٹی روتے ہوئے میری طرف دیکھتی رہی لیکن پھر بھی میرا دل نہ پسیجا اور میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر کے پلٹ آیا،راوی کہتا ہے کہ واقعہ سن کے رحمۃ اللعالمینﷺ اتنا روئے کہ آنسو ریش مبارک کو تر کرتے ہوئے زمین پر گرنے لگے،اِس واقعے کو امام عبدالرحمان دارمی نے سنن دارمی میں نقل کیا ہے،وقت آگے کی طرف دوڑا۔

صبر کیساتھ مشکلات برداشت کرتے ہوئے فائزہ کی عمر سولہ برس ہو گئی،باپ نے اپنے کندھوں سے بوجھ اتارنے کے لیے ساتھ والے گاؤں میں ایک آوارہ لڑکے سے اُس کی شادی کر دی،فائزہ کا شوہر اُس کے باپ کی کاربن کاپی تھا،مارتا پیٹتا گویا کہ فائزہ جو میکے کے جہنم میں جھلس رہی تھی اب سسرال کے ویل نامی جہنمی گڑھے میں پہنچ گئی۔شادی کے اڑھائی سال بعد وہ دو بچوں کی ماں بھی بن گئی،انسانوں کی ہدایت کے لیے نبی بھیجنے والے خالقِ کُل کا شکر کہ اُس کے دو بچوں میں ایک بیٹا بھی ہے وگرنہ کیا معلوم بیٹیوں کی وجہ سے اُسے طلاق ہو جاتی۔شب آہستہ آہستہ کسی دوشیزہ کی جوانی کی طرح ڈھل رہی تھی،پیڑوں پر پرندوں کے نغمے دن کی آمد کا مژدہ سنا رہے تھے کہ فائزہ کے شوہر نے اُسے مارنا شروع کیا،اُس بیچاری کا جرم فقط یہ تھا کہ بچوں نے رونا کیوں شروع کر دیا،فائزہ کی المناک چیخیں فضا میں اداسی بکھیر رہی تھیں اور پرندوں کے نغمے تھم چکے تھے کیونکہ وہ بھی کسی مظلوم پر ہوئے ظلم سے اداس ہو گئے تھے۔

ہمارے ہاں عام طور پر بیوی پر رعب و دبدبہ رکھا جاتا ہے کہ عجب قسم کے مردوں کو مردانگی کا اظہار مقصود ہوتا ہے،صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ آپؐ کو جواب دے دیتی تھیں اور حضور صرف مسکرا دیتے تھے۔معلوم نہیں بیٹیوں کی پیدائش پر اب بھی لوگوں کے چہرے سیاہ کیوں پڑ جاتے ہیں،جس نے دو یا تین بیٹیوں کی پرورش کی اور اُن کی شادیاں کیں ،وہ بیٹیاں قیامت کے دن اپنے باپ اور جہنم کے درمیان آڑ بن جائیں گی مگر لوگ نہ جانے اِس عظیم خوشخبری پر خوش کیوں نہیں ہیں۔لبرلز کو اسلام بحیثیت دین قبول نہیں کیونکہ اُن کے نزدیک مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے لیکن جو علما اسلام کو بحثیت دین اپنانے کی بات کرتے ہیں وہ بھی عورتوں پر ہو رہے ظلم پر پُراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔جمعے کے کتنے خطبات میں امام لوگوں کو تلقین کرتا ہے کہ بیویوں سے رسول اللہﷺ کی طرح حسنِ سلوک کرو،کتنے خطبات میں بیٹیوں کے حقوق پر بات ہوتی ہے؟اپنے تائیں ہر کوئی مجرمانہ غفلت برت رہا ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ہوا کا رخ بدلے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: فائزہ والے واقعے کا سچائی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ سورج کا دن کیساتھ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply