شاعر : درید بن صمہ (م ٨ ه‍)۔۔۔۔۔ترجمانی : احمد تراث

ساری قوم
میری گواہی دے گی
کہ میں نے عارض اور اس کے ساتھیوں
اور بنو سوداء کے گروہ کو
نصیحت کی تھی
اور ان سے کہا تھا
کہ دو ہزار مسلح جنگجوؤں کا گمان رکھو
جن کے سردار
ایرانی زرہوں میں ملبوس ہوں گے
مگر جب ان سب نے
میری بات نہ مانی
تو میں بھی ان کے ساتھ ہو گیا
حالانکہ میں ان کی اور اپنی غلط روی کو
دیکھ رہا تھا
میں نے مقام لِوٰی کے موڑ پر ہی
اپنی بات
ان کے روبرو پیش کر دی تھی
مگر ان کو صحیح بات کی سمجھ
اگلے روز
چاشت کے وقت آئی
میں بھی بنو غَزِیَّہ کا ہی ایک فرد ہوں
اگر وہ بھٹکیں گے تو میں بھی بھٹک جاؤں گا
اگر وہ راہ راست پر رہیں گے
تو میں بھی رہوں گا

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے آواز لگائی
کہ شہسوار کو
شہسوار نے مار گرایا
میں نے پوچھا
کیا یہ گر جانے والا عبد اللہ ہے ؟
پھر میں اس کے پاس آیا
تو نیزے اس کے بدن پر ایسے لگ رہے تھے
جیسے جولاہے کا کانٹا
بُنے جانے والے کپڑے میں
پیوست ہوتا جاتا ہے
(یہ دیکھ کر)
میں ایسے ہو گیا
جیسے وہ اونٹنی جس کے بچے کی کھال میں بھوسہ بھرا جا چکا ہو
اور جب وہ کسی بےنام اندیشے سے گھبرا کر (بچے کی طرف) متوجہ ہو
تو اس کے ننھے اور بوٹیاں ہو چکے بچے کی کھال ہی باقی رہ گئی ہو
پھر میں اس (اپنے بھائی) کے دفاع میں
نیزہ زنی کرنے لگا
یہاں تک کہ
سخت سیاہ غبار
مجھ پر چھا گیا
میں نے اس شخص کی طرح نیزہ زنی کی
جو اپنی جان کی بازی لگا کر
اپنے بھائی کی غمخواری کرتا ہے
حالانکہ اس کو معلوم ہوتا ہے
کہ (دنیا میں) کسی کو بھی
دوام نہیں دلایا جا سکتا
سو آج اگر عبد اللہ بھی
اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چلا گیا ہے
تو وہ رک جانے والا ہی کب تھا
عبد اللہ کے ہاتھوں پر کبھی رعشے جیسی کپکپی طاری نہیں ہوئی
وہ اپنا تہبند اونچا کر کے رکھتا تھا
اور اپنی پنڈلی کا آدھا حصہ (تہبند سے) باہر رکھتا تھا
آفتوں سے دور
اور عظمت کے مقام تک
رسائی پا لینے والا تھا
مصائب کی شکایت بہت کم کرتا
اور کل ظاہر ہونے والے حوادث کے انجام کی پیش بندی
آج ہی کر لیتا تھا
تم اسے دیکھتے تھے
کہ دبلے پیٹ والا تھا
اگرچہ سامان خوردونوش
ہر وقت موجود اور تیار رہتا تھا
پھٹی پرانی قمیص میں نظر آتا
اگر کبھی اس پر
تنگدستی اور مشکل آ جاتی
تو اس کی سخاوت
اور جو کچھ ہاتھ میں ہوتا اس کو اڑا دینے کی عادت میں
اور اضافہ ہو جاتا تھا
مجھے اس بات کی خوشی ہے
کہ میں نے عمر بھر
اس کو ایسی بات نہیں کہی
جو اس کے لیے
رنج کا باعث ہو
نہ ہی کبھی
(اس کے معاملے میں)
بخل سے کام لیا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply