مجھے یاد ہے۔۔۔ حامد یزدانی۔۔۔قسط نمبر 22

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)

قسط نمبر 22

والد صاحب کی برسی پر ’’بیادِ یزدانی جالندھری‘‘ تقریب بھرپور انداز میں جاری ہے۔خطبہ صدارت میں ندیم صاحب جناب یزدانی کے شعری محاسن بیان کرنے کے ساتھ اس امر پر بھی زور دےرہے ہیں کہ اس درویش صفت تخلیق کار پر باقاعدہ تحقیقی کام آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بحثیت شاعر ، ادیب اور صحافی یزدانی جالندھری کی خدمات واقعتاً گراں قدر ہیں۔یہ الگ بات کہ انھوں نے پبلک ریلشننگ کے بل پر بڑا شاعر بننے کے بجائے گوشہ نشینی کو ترجیح دی۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس درویش شاعر کے فن کا اعتراف کریں اور اس کے پیغامِ محبت کو آگے بڑھائیں۔

اُن سے پہلے شہرت بخاری صاحب نے یزدانی صاحب سے اپنی دوستی کے حوالے سے گفتگو کی ہے  اور عہدِ جوانی کی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔۔وہ یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ ان کی پہلی شعری تخلیق یزدانی جالندھری نے اپنے رسالہ ’’اداکار‘‘ میں شائع کی اور یہ کہ یزدانی صاحب ادبی حلقوں میں استادِ فن کا درجہ رکھتے تھے۔

حفیظ تائب صاحب نے یزدانی صاحب کی نعت نگاری کے موضوع پر مقالہ پڑھا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ حضرت یزدانی جالندھری کی رُوح فنِ نعت کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ تھی اور نعت کہتے ہوئے ان کے دل و دماغ بھی ان کا بھرپور ساتھ دیتے تھے۔ وہ عشقِ رسول ﷺ کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔

جناب خالد احمد نے اپنے مضمون میں یزدانی مرحوم کے شعری محاسن کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ وہ یزدانی صاحب کو بازارِ فن کا ایک بے بدل زرگر قرار دے رہے ہیں۔ایک ایسا زرگر جو اپنی سانسوں کی دھونکنی سے فن کی آگ روشن کرتا ہے اور اس آگ پر وہ شب بھر حروف کو شعری زیورات میں ڈھالتا ہے اور صبح دم اسے غزل کی دیوی کی نذر کردیتا ہے۔

نوجوان ادیب اسرار وڑائچ ،یزدانی صاحب کی شاعری سے حوالے پیش کرتے ہوئے انھیں ایک ترقی پسند شاعر قرار دیتے ہیں جبکہ طارق کامران ،یزدانی صاحب سے اپنی ابتدائی ملاقاتوں کا ذکرکرتے ہوئے ان کی شفقت اور اندازِ رہنمائی کی تعریف کرتے ہیں۔  سرفراز سید صاحب بھی یزدانی صاحب سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے شخصی اور فنی محاسن بیان کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے مطابق یزدانی جالندھری صاحب نے وقتی مفاد اور سستی شہرت کی جانب کبھی رُخ نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ادب میں کرنٹ اکاؤنٹ یا چلت کھاتہ کھولنے کے بجائے سیونگ اکاؤنٹ کو ترجیح دی تھی۔اس لیے ان کا فن ان کی زندگی کے بعد بھی نفع بخش ہے اور رہے گا۔

ان کی باتوں نے محفل کو خوب گرما دیا ہے۔

 آخر میں میں سب حاضرین کا شکریہ ادا  کرتا ہوں اور والدصاحب کی محبت بھری یادیں اور باتیں جستہ جستہ بیان کرتا ہوں۔ یہ ایک یادگار تقریب ہے۔ تقریب کے بعد سبھی مجھے یہی بتا رہے ہیں۔

٭٭٭٭٭

اس تقریب میں امی جان اور چھوٹی بہن انیسہ شریک نہ تھیں مگر ان کی محبت بھری دعاؤں کی خوشبو اس تقریب کے کام یاب انعقاد کی ضامن تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا۔اُن کے دیکھنے کے لیے تقریب کو وڈیو پر بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

٭٭٭٭٭

بھائی اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ والدصاحب کی یاد میں اگلی تقریب کسی بڑے ہال میں ہونی چاہیے۔ استاد اختر علی اور انجم شیرازی صاحب آئندہ تقریب میں والدصاحب کا کلام ترنم سے پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔ تقریب کے اختتام پر ندیم صاحب، تائب صاحب، جعفر بلوچ صاحب، ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب اور مقبول سرمد صاحب نے مجھے الگ سے شاباش اور مبارک دی ہے کہ یزدانی صاحب کی یادیں کس شان دار طور پر تازہ ہوئی ہیں۔ احباب کے دل کی خوشی ان کے چہروں کی تمتماہٹ سے چھلک چھلک پڑرہی ہے اور میں سراپا تشکر و طمانیت ہوں۔

٭٭٭٭٭

رسالہ ’’زندگی‘‘ کا مئی انیس سو نوے کا شمارہ میرے سامنے ہے جس میں والدصاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو درج ہے۔ یہ انٹرویو جناب نظر زیدی کا کیا ہوا ہے۔ سوال جواب سے پہلے زیدی صاحب نے لاہور کی ادبی محافل اور ان میں شریک ہونے والے مخلص تخلیق کار اساتذہ اور احباب کو یاد کیا ہے اور ادب سے ان کے بے لوث تعلق کو سراہا ہے۔ ماضی قریب میں لاہور کے ادبی منظر نامہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے وہ والدصاحب کے تعارف پر پہنچتے ہیں اور ان کا تعارف کرواتے ہوئے اُن کے ساتھ اپنی دوستی کا ذکر بھی بے حد محبت سے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ یزدانی صاحب کی زندگی کا آخری انٹرویو تھا جو انھوں نے ان کی علالت کے دنوں میں ریکارڈ کیا۔ میں انٹرویو پڑھتا چلا جارہا ہوں۔ والد صاحب بتا رہے ہیں کہ ان کی ولادت متحدہ ہندوستان میں پنجاب کے شہر جالندھر کے قصبہ میرپور سیّداں (نکودر) میں ایک گیلانی سادات گھرانے میں سولہ جولائی انیس سو پندرہ میں ہوئی ۔ ان کے والد سیّد بہاول شاہ گیلانی اور والدہ بی بی جنت گیلانی دونوں ہی مقامی سکول میں مدرس تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی۔انیس سو تیس کے آس پاس بہاول شاہ صاحب کا تبادلہ محکمہ تعلیم نے بہاول پور کی طرف کردیا۔ اس طرح یہ خاندان بہاول پور اور پھر منٹگمری (ساہی وال) میں آ بسا۔ یہاں انھوں نے ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی اور تعلیمی وظیفہ بھی پایا اور مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوگئے جہاں مستقبل کے کئی نام ور تخلیق کار ان کے ہم جماعت ہوئے مگر بہاول شاہ صاحب کے انتقال کے بعد گھر کے معاشی حالات مستحکم نہ رہے اور یزدانی صاحب کو اپنی تعلیم کا سلسلہ ادھورا چھوڑ کر یہاں وہاں وقتی ملازمتوں کا سہارا لینا پڑا۔ اس عرصہ میں انھوں نے ادبی جرائد و اخبارات کی ادارت بھی کی اور فلمی دنیا کے لیے بھی لکھا۔ غیرسرکاری تعلمی اداروں میں اردو اور فارسی کے مضامین بھی پڑھائے۔ زندگی کا یہ سفر جو ایک روز انھیں منٹگمری سے لاہور لایا تھا۔اب لاہور سے دہلی اور بمبئی تک لے گیا اور پھر وہاں سے قیامِ پاکستان کے چند برس بعد کراچی لے آیا۔ وہاں بھی مستقل سکونت کی صورت نہ بن پائی تو برسوں بعد واپس لاہور لوٹ آئے۔یہاں بھی لکھنے لکھانے اور صحافت ہی کے شعبوں سے وابستگی رہی۔

اس کے بعد نظر زیدی صاحب کے سوال کے جواب میں اپنی شادی کا مختصر کرتے ہیں۔ ہم سب بچوں کے بارے میں فرداً فرداً بتاتے ہیں اور ہماری خداداد صلاحیتوں کو سراہتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ادبی دوستوں اور اساتذہ کو یاد کرتے ہیں اور ان میں خصوصی طور پر شمس العلما (پروفیسر) علامہ تاجورنجیب آبادی کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ معروف ادبی جریدہ ’’ادبی دنیا‘‘ کے بانی اور اولیں مدیر علامہ تاجور ہی تھے مگر افسوس لوگ انھیں بھول گئے ۔

بعد میں یہ جریدہ مولاناصلاح الدین احمد صاحب کے نام سے منسوب ہوکر رہ گیا۔اس انٹرویو میں آگے چل کر برصغیر کی ادبی تحریکوں، ادب کے معماروں اور بدلتے ہوئے معاشرتی اور ادبی رویوں پر بھی گفت گو کی گئی ہے۔شاعری کی مختلف اصناف سے والدصاحب کے شغف کی وضاحت بھی اس میں مذکور ہے اور آخر میں ان کا کلام بھی۔

 یہ شمارہ  واقعی ایک یادگار اور قیمتی تحفہ ہے جو مجھے ملا ہے۔

٭٭٭٭٭

اس انٹرویو نے مجھے برسوں پہلے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ لاہور کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہونے والا والدصاحب کا انٹرویو بھی یاد دلا دیا جو جناب بیدار سرمدی نے کیا تھا اور بڑے اہتمام سے شائع کیا تھا۔ اس انٹرویو میں بھی بنیادی سوالات تو یہی تھے مگر فروغِ ادب میں ذرائع ابلاغ کے کردار اور اس وقت کے ذرائع ابلاغ یعنی اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی پر مخصوص گروہ یا گروہوں کی اجارہ داری کے مضر اثرات پر بھی کُھل کر بات کی گئی تھی اور سرکاری ذرائع ابلاغ تک مساویانہ اور عادلانہ رسائی ممکن بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے ملک کے ادبی و صحافتی حلقوں میں اس انٹرویو کا خوب چرچا ہوا تھا۔

٭٭٭٭٭

خالداحمد صاحب مجھے بتا رہے ہیں کہ وہ اپنے ادبی جریدہ ’’بیاض‘‘ میں یزدانی صاحب پر خصوصی گوشہ شامل کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے قائم نقوی صاحب کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ ’’ماہِ نو‘‘ میں چھپنے والا ’’گوشہ یزدانی‘‘ یاد آ رہا ہے جو ان کی زندگی ہی میں شائع ہوا تھا اور جس میں میرزا ادیب، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، جعفر بلوچ، خالد احمد اور قائم نقوی صاحبان کی خصوصی تحریریں بھی شامل تھیں اور والد صاحب کی نعتوں اور نظم و غزل کا انتخاب بھی۔

٭٭٭٭٭

Advertisements
julia rana solicitors london

ماہ نامہ ’’بیاض‘‘ کے گوشہء یزدانی میں درج بالا احباب یزدانی کی تحریروں کے ساتھ ساتھ وہ یادگار اور نایاب انٹرویو بھی شامل ہے جو خالد احمد صاحب نے ایک پینل کی صورت والدصاحب سے کیا تھا اور جو پہلی بار روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ادبی صفحہ میں شائع ہوا تھا۔ انٹرویو کیا ہے تاریخِ ادب کی ایک دستاویز ہے۔ اس انٹرویو میں والدصاحب اپنے ابتدائی دنوں ، اپنے ادبی ذوق کی نشو ونما اور اپنے بزرگ رہنماوں اور اساتذہ اور دوست احباب سبھی کو یاد کرتے ہیں۔ اس انٹرویو میں جہاں جگر اور جوش صاحبان کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا واقعہ بیان ہوا ہے وہاں والد صاحب کی حضرت علامہ اقبال سے ملاقات بھی مذکور ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply