• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط1

چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط1

چنڑے پشتو زبان میں مدرسہ کے اس طالب علم کو کہا جاتاہے جو گاؤں دیہات میں پڑھتے ہوئے گھروں سے کھانا جمع کرکے مدرسہ لاتا ہے۔ چنڑے کے قسط وار سلسلہ میں اسی طالب علم کے شب وروز کی کتھا بیان کی گئی ہے۔ کہ کس طرح دور دراز کے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے گھر بار چھوڑ کر مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں وہاں کن مسائل کا سامنا کرنا ہوتاہے۔ معاشرہ میں انہیں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ چنڑے دینی مدارس میں پڑھنے والے ایک طالب علم کی آپ بیتی ہے۔ جسے دلچسپ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔

پہلی قسط

اس عمارت میں قطار سے بنے ہوئے چار کمرے تھے  ۔جن میں سے ایک کو کچی دیوار بناکر قاری صاحب کی فیملی کیلئے مختص کیا گیا تھا جبکہ باقی تین کمروں میں طلبہ گزر بسر کرتے تھے ۔
اس علاقے کے سب سے بڑے گاؤں کے انتہائی آخری حصے میں ایک اونچی جگہ قائم یہ وہ پہلا ادارہ تھا جہاں مجھے حفظ قرآن کیلئے گھرسے بھیجا گیا تھا ۔
مدرسے کی چاردیواری سے نکل کر نیچے دور تک پھیلے  ہوئے  کھیتوں کے درمیان دریا بہہ رہا تھا،جس کے کنارے چناروں کے بلند درختوں کی طویل قطاریں کھڑی تھیں ۔
وہ جنوری کے آخری یا فروری کے ابتدائی ایام تھے اور علاقہ شدید سردی کی گرفت میں تھا ۔ صبح دریا پر گہری دُھند  چھائی رہتی ۔  اس سخت سردی کے موسم میں ہم تین ساتھیوں کو مدرسہ لایا گیا  ۔ ظہر کا وقت تھا ،ہمیں داخلہ کے وقت جو شیڈول سنایا گیا۔ ۔اس کے مطابق تہجد کے وقت سے پڑھائی شروع ہوتی ہے ۔آٹھ بجے چا ئے کے لئے آدھے گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے ۔ وقفے کے بعد سردیوں میں نماز ظہرتک جبکہ گرمیوں میں دوپہر گیارہ بجے تک پڑھائی ہوتی ہے ۔۔ پڑھائی کے بعد دوپہر کا کھانا اوراس کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا قیلولہ ہوتا ہے ۔  قیلولہ کے بعد عصر تک پڑھائی ہوتی ہے۔عصرکی نماز کے بعد مختصر تعلیم اوراس کے بعد مغرب تک کھیل کود کا وقت ہوتا ہے ۔اس دوران بھی بازار جانے کی اجازت نہیں ہوگی اوراگر ضرورت محسوس ہو تواستاذ سے اجازت لینی ہوگی ۔

مغرب کے بعد شروع ہونے والی پڑھائی عشا کی نماز اورکھانے کے ایک گھنٹہ وقفے کے بعد رات ساڑھے  دس بجے تک جاری رہتی تھی ۔۔ مدرسے کے گیٹ پر داخل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ میری آنکھوں سے اس وقت آنسو نکلے جب معلوم ہوا کہ مدرسے میں ظہرکی چائے نہیں ملتی ۔ گویا چائے نہ ملنے کی خبر نہ ہوئی موت کا پیام ہوا ۔  مجھے بچپن سے چائے کی ایسی لت پڑی ہے کہ آج تک اس سے جان چھڑانے میں کامیابی نہ ہوئی اور جان چھڑائی بھی کیوں جائے ، کہ ایک پیالی جو کچھ دیر کے لئے گپ شپ کا ماحول مہیا کرتی ہے ۔ جس کے چار گھونٹ دل کا غبار ہلکا کرنے اور سر درد کم کرنے میں تریاق کا کام دیتے ہیں انہیں کیونکر چھوڑدیا جائے۔

تہجد کے وقت اٹھ کر شروع ہونے والی پڑھائی آٹھ بجے تک جاری رہتی تھی تاہم اس دوران ہم جیسے کم عمر طلبہ کو اس مشکل سے نجات مل جاتی جب استاذ آواز دیکر ہمیں وظیفہ مانگنے کی ہدایت کرتے ۔

وظیفہ ۔۔۔؟ جی ہاں ۔۔! وہ وظیفہ نہیں جسے بڑے شہروں کے مہتمم حضرات مبلغ کی صورت میں لفافے میں ڈال کر مدرسین کو عنایت کرتے ہیں ۔۔ وہ وظیفہ بھی نہیں جسے روگ کو سنجوگ میں بدلنے کے دعویدار پیر، فقیر اور عامل زیرلب پڑھنے کے بعد جوان عورتوں پرپھونکتے ہیں  ۔
یہ وظیفہ ایک روٹی اورایک پلیٹ سالن پرمشتمل وہ پیکج ہوتا ہے جسے صوبہ خیبرپختونخوا کے مسلمان گھرانے دن میں دو مرتبہ اللہ کے نام سے خیرات کرتے ہیں اوراس کا بلا شرکت غیرے مستحق اورحقدار صرف دینی مدرسے کا طالب ٹھہرتا ہے ۔

صوبے کے باشندے ملنگ کو دی جانے والی امداد کو خیرات، ملاّجی کو دی  جانے والی چیز کو شکرانہ ، مزار کے چڑھاوے کو نذرانہ اورطالب کو دینے والے کھانے کو وظیفہ کہتے ہیں ۔وظیفہ مانگنا ایک مستقل فن اور الگ تجربہ ہے ، جس میں انسانی فطرت، نیک وبد اور اچھے برے رویوں کا بخوبی مشاہدہ ہوجاتا ہے ۔ وظیفہ مانگنے کیلئے لگائی جانے والی صدائیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں  ۔صبح کی چائے کیلئے دی جانے والی صدائیں دوپہر اورشام کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں  ۔ وظیفہ مانگنے والے طالب کو چنڑے کہا جاتا ہے  ۔ یہ لفظ کچھ عجیب سے ملے جلے جذبات اور تاثرات سے عبارت ہے ،جس میں بیک وقت تصغیر اورتذلیل کے ساتھ ہمدردی اور اپنائیت کا جذبہ بھی محسوس ہوتا ہے ۔۔ بس اس کا انحصار بولنے والے کی نیت اورلب ولہجے پر منحصر ہوتا ہے،البتہ کچھ مہذب لوگ طالب کہنے کو ترجیح دیتے تھے  ۔

وظیفہ مانگنے والے گھر کے باہر کھڑے ہوکر زور سے صدا لگاتے تھے ۔دعائیہ کلمات پر مشتمل اس صدا میں ہزاروں بانسریوں سے زیادہ درد دکھ اور فریاد پنہاں ہوتی تھی۔

گھر سے دوری کی اذیت ، والدین کی جدائی کا غم، مانگنے کی شرمندگی وذلت کا احساس اور ماحول وموسم کی شدت کی تکلیف و اذیت ۔۔ یہ سب کانٹے بیک وقت ہاتھ میں گرم سالن کی بالٹی لئے طالب کے دل ودماغ میں چُبھ  رہے ہوتے ہیں ۔ مدرسہ کی انتظامیہ نے گاؤں کو کئی محلوں میں تقسیم کررکھا تھا ۔ ہر محلہ ایک مخصوص نام سے مشہور تھا ۔  جو عمومی طورپر وہاں کے کسی مشہور رہنے والے کی جانب منسوب ہوتا تھا ،مثلاً شوکت چم ،سلیم چم وغیرہ ۔۔

ان محلوں میں دو دوچنڑوں کو روانہ کردیا جاتا تھا۔ صبح چائے کی بڑی کیتلی اورایک چنگیرجبکہ دوپہراورشام کو چنگیر کےساتھ کیتلی کے بجائے بالٹی ہوتی تھی۔یہی دو چیزیں معصوم چنڑوں کی کُل متاع تھیں۔ یہ معصوم چنڑے گاؤں کے گھروں سے کھانا جمع کرکے لاتے اور مدرسے کے بالغ طلبہ اسے انتہائی بے دردی کے ساتھ تناول فرما تے تھے ۔

دوسرے گروپ کے محلے میں مداخلت قابل سزا جرم تصورکیا جاتا تھا جس کے ارتکاب پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں ۔۔

خوش قسمتی سے ہمارے استاذ ایک عظیم انسان ،شریف النفس ،حلیم الطبع اور ہرقسم کے اعلی انسانی اوصاف سے مالامال تھے ۔۔ جتنا ملا اور جیسا ملا ۔۔اس پر صبر وشکر کیا۔

چنڑوں کی شامت مگر جمعے اورجمعرات کو آجاتی تھی  ۔ جب استاذ اپنے گاؤں چلے جاتے اور مدرسے کی ذمہ داری کی ’’ کمانڈ کین ‘‘ کوگا مہاجر کیمپ سے آئے بڑی عمر کےایک طالب علم کو مل جاتی  ۔
نیلی آنکھوں والے اس طالب علم کے سینے میں دل کی جگہ سنگ تھا جبکہ آنکھوں میں مروت کی جگہ کمینگی بسی ہوئی تھی  ، شاید اندرونی حرص کی پرچھائیاں تھیں یا کچھ اور ۔۔مگر سچ یہ ہے کہ اس کے دانوں اور مہاسوں سے بھرے ہوئے سرخ چہرے میں کشش نام کی کوئی چیز نہیں تھی  ۔احساسات سے عاری اور حفاظ قرآن کی طبعی خوبصورتی سے یکسر محروم ۔۔۔مختلف مدرسوں میں دس سال گزارنے کے باوجود اس کم بخت کے شقی دل میں قرآن کریم داخل نہ ہوا تھا  ۔۔ ہاں اس کے بدلے اس کی فصاحت اورلفظوں کی درست ادائیگی سے محروم زبان میں قدرت نے بڑی فراوانی کے ساتھ یہ خاصیت رکھی تھی کہ وہ گاؤں کے تقریباً ہرگھر کے بنے ہوئے پراٹھے کے ذائقہ کو الگ سے شناخت کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھا۔۔ مطلوبہ گھروں کا پراٹھا نہ ہونے کی صورت میں وہ معصوم چنڑوں پر غداری اور حرام خوری کا فتوٰ ی لگا نے میں دیر نہ کرتا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply