سانحہ نوشکی/عامر حسینی(1)

میرے ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ سانحہ نوشکی کے بارے میں ، میرا کیا خیال ہے؟
میں سب سے پہلے تو یہ واضح کردوں کہ میرے نزدیک نہتے غیر مسلح شہریوں کا قتل کسی بھی وار زون میں مصروف جنگ کسی بھی گروہ کی طرف سے ہو چاہے وہ ریاستی ادارے ہوں یا نجی مسلح عسکریت پسند ہو ،غلط ہے اور اس کے جواز کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

اس لیے سانحہ نوشکی میں مسافر بسوں میں سوار نہتے مزدوروں کو ان کے شناختی کارڈ پر درج ان کے ضلع و تحصیل کے بند و بست پنجاب میں ہونے کے سبب قتل کردیا جانا بھی قطعی درست اقدام نہیں ہے اور یہ قابل مذمت ہے ۔

دوسری بات جو انتہائی اہم ہے اور جس پر ہمارے مین سٹریم میڈیا نے تو چپ سادھ لی ہے، خود سوشل میڈیا پر بھی اس پر بات کرنے والے بہت کم ہیں اور وہ یہ ہے کہ کیا وفاق اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی و انٹیلی جنس آپریٹس کے نزدیک بلوچستان جیسے وار زون یا جیسا کہ سرکار اسے شورش زدہ علاقہ قرار دیتی ہے کی مرکزی شاہراہوں پر چلنے والی عام ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے عام مسافر اور خصوصی ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے غیر ملکی مزدور اور ہنرمند کی جان کی حفاظت کے لیے یکساں ایس او پیز بنائے گئے ہیں؟ اسی سے جڑا یہ سوال بھی ہے کہ کیا حکومت بلوچستان میں جاری منصوبوں میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کشوں کو ان کے رہنے اور کام کرنے کی جگہ پر ویسی ہی حفاظتی سہولیات مہیا کرتی ہے جیسی سہولتیں یہ غیر ملکی لیبر ورکرز کو فراہم کرتی ہے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ جب کبھی عام پاکستانی نہتے شہری دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں تو کیا ریاستی حکام ویسے ہی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جیسا رد عمل غیر ملکی شہریوں پر حملے کے بعد سامنے آتا ہے؟
غیر ملکی شہریوں پر حملے کا تازہ ترین واقعہ بشام میں چینی عملے پر ہوئے خود کش حملے کا تھا ،جسے سی پیک سکیورٹی ٹاسک فورس اور پولیس کے حفاظتی اسکواڈ کے حصار میں ایک ڈیم پروجیکٹ کی سائٹ پر لیجایا جا رہا تھا ۔

اس واقعے پر پاکستان کے اوپر سے لیکر نیچے تک کے ایڈمنسٹریٹو سٹرکچر میں کھلبلی کے آثار دیکھے گئے۔ اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم پاکستان کی صدارت میں ہوا۔

وفاقی وزیر داخلہ کی صدارت میں تمام سویلین انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں ، کے پی کے سی ٹی ڈی کے سربراہ ، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی -نیکٹا کے سربراہ، کے پی کے کے آئی جی اور ہوم سیکرٹری بھی ایک خصوصی اجلاس میں شریک ہوئے ۔

وفاق اور کے پی کے کے اعلیٰ ترین حکام بشمول وزیراعظم ، وزیر خارجہ و وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ چینی سفارت خانے پہنچے اور انھیں یقین دلایا کہ اس واقعے کے ذمہ داران کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا ۔

ایک اعلیٰ  سطحی جوائنٹ انویسٹی گیشن انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا جس کا مینڈیٹ یہ تھا کہ وہ اس واقعے میں ان افسران کی نشاندہی کرے جو اس واقعے میں فرائض کی غفلت اور ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے میں ناکامی اور غفلت کے مرتکب ٹھہرے اور یہ انکوائری دنوں میں مکمل کی گئی اور انتظامی غفلت کے ذمہ داران کا تعین بھی کردیا گیا ہے ( یہ اور بات ہے کہ اس انکوائری رپورٹ پر کے پی کے کے ہزارہ ڈویژن کے عوام کی طرف سے سخت احتجاج سامنے آیا ہے جو یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ساری ذمہ داری ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پولیس افسران پر ڈال دی گئی ہے اور دیگر کو بچا لیا گیا ہے) ۔

بلوچستان کی شاہراہوں پر سفر کرنے والے دوسرے صوبوں کے شہریوں اور وہاں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو ویسا تحفظ اور حفاظتی پروٹوکول میسر نہیں ہے جو غیر ملکی شہریوں کے لیے بنائے گئے سیکورٹی ایس او پیز کے تحت انھیں حاصل ہے حالانکہ دونوں کے لیے خطرات قریب قریب ایک جیسے ہی ہیں جس سے بجا طور پر یہ احساس جنم لیتا ہے کہ بلوچستان جیسے وار زون میں ریاست کے نزدیک عام شہریوں کی جان و مال کی وہ قدر و قیمت ہرگز نہیں ہے جو غیر ملکی شہریوں کی ہے۔ حالانکہ ریاستی حکام کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ جب پہلی بار بلوچستان کی کسی شاہراہ پر مسافر بس سے بندوبست پنجاب کے شہریوں کو اتار کر مارا گیا تھا یا کسی پروجیکٹ کی سائٹ پر ان پر حملہ ہوا تھا تو وہ ان کو بھی انھی ایس او پیز کے تحت سیکورٹی فراہم کرتے جن کے تحت غیر ملکی شہریوں کو سیکورٹی فراہم کی جارہی تھی اور ہے ، لیکن پے در پے اب تک ایسے 10 بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں پنجاب سے آنے والی یا جانے والی پسنجر بسوں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو بس سے اتار کر مار دیا گیا اور اس وقت ان بسوں کو کسی بھی طرح کی کوئی سیکورٹی حاصل نہیں تھی ۔ پروجیکٹ سائٹ پر ایسے پانچ دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور اس وقت بھی یا تو سیکورٹی انتظامات تھے ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر تھے ۔ مرنے والوں میں پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے محنت کش شامل تھے ۔

ان واقعات میں سے کسی ایک واقعے پر حکومت کی جانب سے اس طرح کی حساسیت کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا جیسا سانحہ بشام پر دیکھنے کو ملا تھا بلکہ “بے حسی” دیکھنے کو ملی اور ان واقعات کو سرکار نے بند و بست پنجاب میں بلوچ ایشو پر ریاست اور حکومتوں کی کالونائزڈ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والی پنجاب سے اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کیا – (جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply