شناخت کا بحران کیسے پیدا ہوتا ہے؟۔۔آصف محمود

ہر ملک اور قوم کی کچھ شناختی علامات ہوتی ہیں جو دھرتی سے جڑی ہوتی ہیں اور قوم میں ان کے بارے میں ایک والہانہ پن پایا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جو شناختیں اور علامات ہم نے طے کر رکھی ہیںِ ان کا ہماری دھرتی سے کتنا تعلق ہے اور ہمارے ہاں ان کے بارے میں کتنا والہانہ پن پایا جاتا ہے ؟ مثال کے طور پر ہاکی نام کا ایک نیم اجنبی سا کھیل ہمارا قومی کھیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کھیل کو قومی کھیل قرار دینے کی حکمت کیا ہے اور یہ فیصلہ کس نے کیا ، کیوں کیا اور اس فیصلے کی شان نزول کیا تھی؟ کیا قیام پاکستان کے وقت اس خطے میں یہ کھیل بہت مقبول تھا اور چٹا گانگ اور ڈھاکہ سے لے کر کوئٹہ اور لاہور تک ہر طرف ہاکی ہاکی ہو رہی تھی ،اس لیے اسے قومی کھیل قرار دیا گیا؟ قومی علامت مذاق نہیں ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑی نسبت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ظلم یہ ہوا کہ بند کمروں میں فیصلہ سازقوم کے اجتماعی شعور اور حساسیت سے بہت دور خود ہی بیٹھ کر خود ہی فیصلے کر لیتے ہیں اور پھر وہ فیصلے سماج میں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی علامتوں کی توہین ہونے لگتی ہے ۔ ہاکی ہی کو لے لیجیے کہنے کو یہ قومی کھیل ہے لیکن مکمل طور پر یتیم ہے۔اس کے اہم میچز پی ٹی وی بھی نہیں دکھاتا ۔ یہاں ناز برداریاں کرکٹ کی ہوتی ہیں یا گالف کی۔ کرکٹ کا میچ ہو تو حکومت اور ذرائع ابلاغ خود سپردگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور گالف کی ناز و ادا کا تو خیر عالم ہی اور ہے۔ قومی کھیل کو کوئی پوچھنے والا نہیں اور کرکٹ کے لیے اسلام آباد کے جنگلات برباد کر کے ایک نیا سٹیڈیم بنانے کے منصوبے تشکیل پا رہے ہیں۔باوجود اس کے کہ چند قدموں پر پنڈی کرکٹ سٹیڈیم پہلے ہی موجود ہے۔ سماجی سطح پر بھی ایک طوفان بد تمیزی برپا ہے۔ دور درا زکی حسین وادیوں میں کہیں کوئی سر سبز قطعہ ارضی نظر آ جائے تو اس کی تصویر پر شور مچ جاتا ہے : کرکٹ سٹیڈیم بنائیے ، یہاں کتنا پیارا کرکٹ سٹیڈیم بنے گا۔ گوادر شہر کے مسائل ابھی حل نہیں ہو پا رہے لیکن وہاں کرکٹ کا سٹیڈیم بن چکا ہے اور اس کا ایک جہاں میں شہرہ ہے ۔ اس سارے شوروغل میں وہ کھیل کہاں ہے جسے قومی کھیل کہا جاتا ہے؟ایک کھیل کو اگر قومی کھیل قرار دے ہی دیا گیا ہے تو کم ازکم اسی نسبت سے اس کا کچھ خیال کر لیا جاتا ۔ لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ ہاکی کے کھلاڑیوں کو نہ ڈھنگ کا معاوضہ ملتا ہے نہ کوئی مراعات ہیں نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ ہاکی کی ٹیم کا کپتان کون ہے۔ مار خور ہمارا قومی جانور ہے۔ قوم کی غالب اکثریت کی جانے بلا کہ مار خور ہوتا کیا ہے۔بیل ، بکری ، گائے یا اونٹ کو قومی جانور بنایا گیا تو بات قابل فہم ہوتی کہ یہ جانور اپنی افادیت اور آگہی ہر حوالوں سے قوم کے لیے اجنبی نہیں ۔ ریاست بہاولپور کے جاری کردہ نوٹوں پر بیل کی تصویر ہوا کرتی تھی اور بکری ہمارے ہاں گھر گھر کی کہانی ہے۔لیکن یہ بھائی جان مار خور کب ، کیسے اور کیوں قومی جانور کے منصب پر فائز ہو گئے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔بس قوم کو بتا دیا گیا کہ مار خور بھلے تم نے ز ندگی میں کبھی دیکھا ہے یا نہیں لیکن یہ تمہارا قومی جانور ہے۔ چکور پاکستان کا قومی پرندہ ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کیوں؟ قوم میں سے کتنوں نے یہ پرندہ دیکھ رکھا ہے؟ اس منصب پر آ خر چڑیا کیوں فائز نہیں ہو سکتی جو ہر گھر کے صحن میں صبح سویرے اترتی ہے اور گیت سناتی ہے۔ چڑیا نہ سہی کوئل ہی کو قومی پرندہ بنا لیا جاتا جو اکثر دکھائی بھی دیتی ہے اور باغوں میں گنگنا بھی رہی ہوتی ہے۔ چکور میں آخر کیا ہے اور اس سے اس قوم کی کس طرح کی وابستگی ہے کہ اسے قومی پرندہ قرار دے دیا گیا۔یہ فیصلہ کس نے کیا، کب کیا ، کیوں کیا ؟نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی بتانے والا ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔متحدہ پاکستان میں کوئی ایک گھر ایسا نہ تھا جہاں پیدا ہونے والے کسی بھی بچے کی مادری زبان اردو ہو لیکن ہم نے اسے قومی زبان بنا دیا۔ اس کی ترویج بھی ایسے کی کہ مقامی زبانوں کو حریف سمجھ لیا۔ ہم انسانی تاریخ کا وہ واحد ملک ہیں ،جس نے ایک ایسی ز بان کے لیے آدھا ملک ناراض کر لیا جو مشرقی پاکستان اور مغربے پاکستان کے کسی ایک صوبے کے کسی ایک شہر کے کسی ایک گائوں کے کسی ایک گھر کی بھی مادری زبان نہیں تھی۔یو پی اور دلی والوں کی تحریک پاکستان میں خدمات اپنی جگہ اور رابطے کی زبان کے طور پر اردو کی اہمیت بھی ،لیکن مقامی تہذیب کے رنگوں کو حریف سمجھ لینا بھی کوئی ایسا عمل نہیں جس کی تحسین کی جا سکے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں سپیکر ( اس وقت صدر اسمبلی) نے جو پہلی رولنگ دی وہ یہ تھی کہ ایوان میں اردو بولنے کی اجازت نہیں ۔ ایوان کی زبان انگریزی ہے۔ اردو صرف وہ بول سکتا ہے جسے انگریزی نہیں آتی۔ وہ بھی صدر کی اجازت سے۔ لیکن چند ماہ بعد بنگالی بھائیوں سے کہا جاتا ہے اردو تمہیں آتی ہے یا نہیں آتی لیکن تمہاری قومی زبان اردو ہے۔بہت بعد میں اگر چہ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دے دیا گیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جب ہم نے اسے قومی زبان بنا لیا تو اب اس کی حرمت کا تقاضا تھا اس کو عزت دی جاتی ۔لیکن ہم رائج آج تک نہیں کر سکے۔ سارا نظام انگریزی میں چل رہا ہے۔ حتی کہ ضلعی انتظامیہ ٹماٹر بیچنے والوں کے لیے جو انگریزی میں نوٹی فیکیشن جاری کرتی ہے۔بڑے فخر سے سکولوں کے کوئز میں سوال ہوتا ہے قومی ترانے میں اردو کے کتنے الفاظ ہیں : ایک دو تین یا چار؟ نتیجہ یہ ہے کہ قومی ترانہ قوم کی غالب اکثریت کی فہم سے بالاتر ہے۔ اکثر لوگوں کو بس میوزک سے اتنا ہی پتا چل پاتا ہے کہ قومی ترانہ بج رہا ہے۔ نیشنل ایمبلم میں آج بھی پٹ سن موجود ہے لیکن پورے ملک میں اس کی کاشت نہیں ہوتی ۔ پانچواں صوبہ گنوا دیا لیکن ستارے کے کونے ابھی تک پانچ ہیں۔نیشنل ایمبلم کا عمومی رنگ زرعی ہے لیکن زراعت کو آج تک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا گیا۔ ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے لیکن ریاست اور مذہب مختلف مکاتب فکر کے ہاتھوں یر غمال ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اہم اداروں میں بھی اراکین کا انتخاب علم و فضیلت کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ عملا مختلف مکاتب فکر کو ایڈ جسٹ کیا جاتا ہے جیسے کوئی لشکر مال غنیمت تقسیم کر رہا ہو اور ہر قبیلے کو اس کا حصہ پہنچایا جا رہا ہو۔ شناخت کا بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قومی علامات کے ساتھ قوم کی جذباتی وابستگی ہی قائم نہ کی جا سکے۔یہی حادثہ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply