ہمارے مذہبی رویوں میں در آنے والی تنزلی۔۔۔۔۔ سبط حسن گیلانی

گزشتہ چالیس سالوں میں بدلتا ہوا سماج ہماری آنکھوں دیکھی کہانی ہے۔ ایک اچھا بھلا قابل برداشت سماج اور اس کے رویوں کے ساتھ ایسا کیا ہو گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے فراز نہ سہی ترقی کا سفر بھی نہ سہی مگر اچھے خاصے زمین پر ٹکے اور ٹھہرے ہوے سماج کو ایک ایسی ٹھوکر لگی کہ ڈھلوان کا سفرختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ میرے سماجی مطالعے کے مطابق وہ ٹھوکر 1979 کا سال ہے۔یہ گزشتہ صدی کا ایسا بدبخت سال ہے جس نے ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔جس نے ہمارے سفر کی سمت ہی بدل ڈالی۔میں نے اس سال کو بدبخت اپنے ملک و قوم کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس سال ہمارے خطے میں چند ایک ایسی ملکی و بین الاقوامی تبدیلیاں اور حوادث وجود میں آے جنہوں نے ایک دوسرے کیساتھ مر بوط ہو کر ہماری تنزلی اور زوال کی کہانی لکھی۔ پاکستان میں ڈیڑھ سال قبل ٖضیا کا تاریک ترین مارشل لا آ چکا تھا۔ ہر مارشل لا ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ جنرل ایوب اور یححٰ خان کے مارشل لا ہماری ترقی کے خلاف ایسی رکاوٹیں تھیں جنہیں ہم آج بھی عبور نہیں کر سکے۔ مگر جنرل ضیا کا مارشل لا اُلٹے پاؤں کا سفر تھا جو آج بھی تھما اور رکا نہیں ہے۔ نہ ہی اس راستے میں کوئی پڑاو آیا ہے۔ بس چل سو چل۔ دوسری بڑی تبدیلی جو سن نواسی میں آئی وہ روس کی فوجوں کا افغانستان کی طرف مارچ کرنا تھا۔ تیسری بڑی تبدیلی ایران کا مذہبی انقلاب تھا۔ یہ ایران کے لیے کتنا سود مند اور نفع رساں تھا، یہ ایک الگ بحث ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ مگر اس کے اثرات مجموعی طور پر ہمارے ملک اور اس کے اندر مذہبی طور پر تقسیم معاشرے کے لیے ہر گز فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے۔ اپریل 1979میں ایک اور اہم واقع پیش آیا جسے ہمارے تجزیہ کار اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں مگر اس نے آگے چل کر پورے بر صغیر اور بالخصوص پا کستان پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ یہ واقع تھا خانہ کعبہ پر ایک شدت پسند گروہ کا قبضہ۔ دس اپریل صبح صبح یہ خبر ملی کہ ایک باغی مسلح گروہ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس خبر کو ساری دنیا باالخصوس اسلامی دنیا نے حیرت اور گہرے دلی صدمے کے ساتھ سنا۔ چند دنوں کے اعصاب شکن ماحول اور انتظار کے بعد پاکستانی فوجی گوریلوں کی مدد سے یہ قبضہ واگزار کروا لیا گیا۔ مگر قابض گروہ کے مطالبات و نظریات کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی، ان کا سب سے بڑا دعویٰ یہ تھا کہ سعودی حکمران خاندان مغرب پرستی اور عیش پرستی میں کھو کر دین و مذہب سے بہت دور ہو چکا ہے، اور دین و مذہب سے روایتی وابستگی چھوڑ کر یہ خاندان اب حق حکمرانی کھو چکا ہے۔ ان قابضین کو تو بہت جلد تلوار کی خوراک بنا دیا گیا مگر سعودی عرب کے حکمران بادشاہ خاندان نے بہت شدت کے ساتھ باغیوں کے دعوے پر توجہ دی اور نہ صرف اپنے ملک بلکہ دوسرے مسلم ممالک کے اندر بھی مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کا بیڑہ اُٹھا لیا کہ آئیندہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ہم مذہب سے دور ہو چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے پورے خطے میں سنی مسلم اجارہ داری کا علم اٹھا لیا اور سواد اعظم کے اندر انتہا پسندی کے بیج بونے کا سلسلہ شروع ہوا، اور ان بیجوں پر تیل کی بے کراں دولت لٹائی جانے لگی۔ سال کے ختم ہوتے ہوتے ایران میں مذہبی انقلاب کا پرچم بلند ہوتے ہی ساری دنیا نے یہ اعلان بھی سنا کہ یہ انقلاب ہم پوری دنیا کو برآمد کریں گے۔ چنانچہ قبل از اسلام کی عرب و ایران دشمنی کو ایک نئی طاقت میسر آئی۔ امریکہ نے روس کو افغانستان کی سر زمین پر ناکوں چنے چبوانے کا ارادہ باندھا اور پاکستان کے اقتدار پر قابض جرنیل شاہی نے اس کام میں امریکا کا ساتھ نبھانے کا عہد کیا۔ مطالعہ پاکستان کو برصغیر کا مستند تاریخی ماخز ماننے والی قوم نے اس دعوے پر جھٹ سے یقین کر لیا جس میں آج تک کوئی فرق نہیں آیا کہ روس کا اصل نشانہ افغانستان نہیں بلکہ پاکستان اور اس کے گرم پانیوں تک رسائی تھا۔ اس سیاسی لڑائی کو مزہبی ثابت کرنے اور فتوے دینے والے مفتیان کرام ایک ایسی جنس فراواں ہے جس کا قحط ہماری مسلم تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا۔ چنانچہ اس پرائی اور سیاسی جنگ کو مذہبی ثابت کر کے اس کا نقارہ ہم نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی اسلحے کے کنٹینر اور ڈالروں سے بھرے تھیلے ہماری سر زمیں پر اترنے لگے۔ اس وقت کے معروف بی بی سی کے برطانوی صحافی مارک ٹیلی نے افغانستان میں بھیجے جانے والے چھوٹے امریکی ہتھیاروں کا حجم ساٹھ ہزار ٹن لکھا ہے۔ یاد رہے یہ رپورٹ 79سے 89تک کے دس سالوں پر مبنی ہے۔ بعد کی ترسیل اس میں شامل نہیں ہے جو بدقسمتی سے آج بھی روز اول کی طرح جاری ہے۔ 1977تک پورے ملک میں شیعہ سنی مدارس کی تعداد ایک رپورٹ کے مطابق 900سے کم تھی۔ جن مین زیادہ تر غیر معروف مدارس تھے۔ شیعوں کے مدارس تو انگلیوں پر گنے جانے والی تعداد سے بھی کم تھے۔ پورے پنجاب میں دو بڑے شیعہ مدارس تھے ایک سرگودھا کا جامع محمدیہ اور دوسرا لاہور کا جامع المنتظر۔ اگلے دس سالوں میں یہ مجموعی مدرسے دس ہزار تک جا پہنچے تھے۔ اور اگلے دس سالوں میں صدی کے اختتام سے پہلے پہلے یہ تعداد بیس ہزار سے متجاوز تھی۔ اور آج کل تیس ہزار سے زائد ہے۔ ملک کے طول و عرض میں مدرسوں کے اس جال نے دو طرح کے کام کیے۔ اقتدار پر قابض ٹولے کو صرف ”جہاد“ کی بٹھی جلانے سے غرض تھی۔ اس کے لیے انہیں انسانی شکل میں خام مال چایے تھا۔ اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونے تھے اس کا تجزیہ کرنے کی نہ انہیں فرصت تھی اور نہ صلاحیت۔ اس ساری کشمکش میں سعودیہ امریکا کے ساتھ برابر کا مالی طور پر شریک تھا۔ایران کو پاؤں جمانے کا موقع دینے سے پہلے ہی اس پر عراق کی طرف سے جنگ مسلط کر دی گئی تھی جس میں سعودی عرب اور امریکا کی عراق کو بھر پور معاونت حاصل رہی۔ چنانچہ افغانستان کی جنگ میں تو ایران فریق نہیں تھا مگر اس نے پاکستان میں شیعہ فرقے کے اندر اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے عمل میں کوئی غفلت نہیں برتی۔ معروف تجزیہ کار ظفر ہلالی نے مجھے بتایا کہ ان دنوں ایرانی سفیر نے ایک محفل میں مجھے کہا کہ اگر ہم چاہیں تو ہزاروں لوگ باہر سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ اس طرح ہماری ریاست پاکستان مزہبی انتہا پسندی کا گڑھ بنتی چلی گئی، جس نے اگے چل کر ملک کی چولیں ہلا ڈالیں۔ بین الا قوامی قوتوں کی افغانستان کی سر زمین پر لڑی جانے والی سیاسی جنگ کو مقدس جنگ کا نام دیا گیا جس کی وجہ سے اس جنگ کی بٹھی کو گرم رکھنے کے لیے انسانی جہادی خام مال کی ترسیل کو یقینی بنایا گیا، جس کی وجہ سے دہشت گردی کے لیے زمین ہموار ہوئی۔ اور دوسری طرف اس کے سائڈ افیکٹ کے طور پر فرقہ وارانہ منافرت کو کھلی ہوا ملی جس کی وجہ سے یہ خار دار فصل تیزی سے جوان ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران نے پاکستان میں سنی شیعہ فرقہ وارانہ منڈیوں پر کھل کر سرمایہ کاری کی جس کے بہت جلد نتائج بھی سامنے آئے۔وہ شیعہ مولوی جو بسوں پر دھکے کھایا کرتے تھے اور وہ سنی مولوی جو رمضان میں تراویح کی امامت کے لیے گاؤں گاؤں گھوم کر مساجد تلاش کرتے تھے اب قیمتی پجارو گاڑیوں پر نظر آنے لگے۔ گاؤں گاؤں میں مدرسے قائم ہونے لگے۔ گاؤں دیہات کی مساجد میں باقاعدہ امام مقرر نہیں تھے۔ اب باقاعدہ امام مقرر ہوئے۔ شیعوں میں آئمہ مساجد کی کمی ایران نے پوری کی اور سنی سیکٹر میں تیزی کے ساتھ پروان چڑھنے والے مدارس نے۔ بچے گاؤں کے کسی قرآن پڑھے ہوے مسلمان سے عمومی طور پر کسی ماسی پھوپی سے پڑھ لیا کرتے تھے۔ قرآن پڑھانے والے کی مسلکی وابستگی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا تھا۔ مگر اب اس بات کی تبلیغ ہونے لگی کہ شیعہ بچے شیعہ عالم سے اور سنی سنی عالم سے قران پڑھیں۔ اس ونڈ نے فرقہ پرستی کے بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا۔ستر کی دہائی تک مساجد عموما ًغیر فرقہ وارانہ پہچان رکھتی تھیں۔ گاؤں میں مساجد محلوں کی بنیاد پر تقسیم تھیں۔ اس محلے کے تمام سنی شیعہ بزرگ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ نماز عموما ًبزرگ ہی پڑھا کرتے تھے۔ مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے سنی مولوی اور ایران سے پڑھ کر آنے والے شیعہ مولوی کی تبلیغ سے پہلی تبدیلی یہ آئی کہ مساجد فرقہ وارانہ طور پر تقسیم ہوتی چلی گئیں۔ کہیں پر یہ تقسیم پر امن ہوئی اور اکثر لڑائی جھگڑوں کے بعد۔ ہمیں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ سنی اور شیعہ دو الگ الگ فرقے نہیں بلکہ مذہب ہیں۔ مساجد سے باقاعدہ سنی قوم اور ملت شیعہ جیسی اصطلاحات سنی جانے لگیں۔شیعوں کے سر پر ایران سے پڑھ کر آے ہوئے فاضل قم مولوی نے ہاتھ رکھا اور اسے بتایا کہ اس کے مذہب کا مرکز مکہ و مدینہ نہیں ایران ہے اور ولایت فقیہ کے پرچم تلے ہی اسے اور اس کے عقائد کو پناہ مل سکتی ہے۔ اور سنیوں کو بتایا گیا کہ خادم الحرمین شریفین ہی اس کے ملجا و ماویٰ ہیں۔ فاضل قم مولوی نے جب شیعہ کے مسلکی عقائد پر گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی تو اسے اندرونی طور پر ایک شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس نے دو عشروں کے اندر اندر شیعوں کے ہاں دو فرقوں کے خدو خال ابھار دیے۔ ستر تک شیعہ منبر پر ذاکر بلا شرکت غیرے حکمرانی کر رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ایران سے غول در غول عمامہ و جبہ پوش مولوی آ آ کر ممبروں پر جلوہ افروز ہو رہے ہیں تو ان کی صفوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ اس بے چینی کو کسی بین الاقوامی ایجنسی نے فوراً محسوس کر لیا۔ چناچہ کویت میں ایک شیعہ مجتہد کو لانچ کیا گیا۔ میرزا احسن الحقاقی۔ انہوں نے سن اسی سے لیکر پچاسی تک پورے پاکستان کے طول وعرض میں ذاکرین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، کچھ خطیب نما مناظروں کو علما کے روپ میں سامنے لایا گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں اربوں کا سرمایہ گردش کرنے لگا۔ سب سے پہلے جو فتنہ چھوڑا گیا وہ نماز میں شہادت ثلاثہ کی گواہی کا تھا، ایران و عراق سے پڑھے ہوے علما اس بات پر متفق تھے کہ علیً ولی اللہ کلمے اور آزان میں پڑھا ضرور جاتا ہے مگر یہ جزو کلمہ و آزان نہیں ہے۔ دوسرے گروہ نے اسے ثابت کرنے کی مہم چلائی۔ اس پر ایمان نہ رکھنے والوں کو دشمن آل رسول قرار دیا۔ ان کے لیے مقصر کی ایک اصطلاح وضع کی گئی یعنی آل رسول کی شان میں کمی کرنے والا۔ ستر کے عشرے سے شروع ہونے والی اس کشمکش نے شیعوں کو ایک دوسرے سے بر سر پیکار کر رکھا ہے۔ آج کی نوجوان نسل علامہ سید علی نقی نقن،علامہ رشید ترابی، علامہ مفتی جعفر حسین جیسے علما کو جانتی تک نہیں مگر ضمیر اختر نقوی،جعفر جتوئی آصف علوی،غضنفر تونسوی، اور ان جیسے سینکڑوں دوسرے خود ساختہ علما کے حصار میں ہے۔ جو شیعہ کو شیعہ کے خلاف بھڑکانے اور فرقہ وارانہ منافرت کی آگ پر پھونکیں مارنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف دیوبندی و اہل حدیث نے اکثریتی بریلوی طبقے کے خلاف اپنی توپوں کا رخ ایک منٹ کے لیے تبدیل نہیں ہونے دیا۔ دیوبندیوں میں سے ہی ایک فرقہ اٹھا جس نے بریلویوں اور شیعوں کو ایک ہی تلوار کی دھار پر رکھا۔ دونوں کو بدعتی اور کافر ثابت کیا، اب ان کے نوجوان مولانا حسین احمد مدنی مولانا محمود الحسن ،مولانا رشید گنگوہی اور قاسم نانوتوی جیسے علما سے نا آشنا ہیں مگر مولانا احمد لدھیانوی جیسوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بریلوی بھی اسی سماج کا غالب حصہ تھے وہ اس سے کیسے متاثر نہ ہو پاتے۔ چنانچہ آج کا بریلوی مولانا شاہ احمدنورانی سے دامن چھڑا کرمولانا خادم رضوی اور پیرجماعت علی شاہ اورپیر آف گولڑہ شریف جیسے پیروں کو چھوڑ کر پیر افضل قادری جیسوں کی بیعت کر رہا ہے۔ فرقوں کے اندر فرقے اور گروہوں کے اندر گروہ جنم لے چکے ہیں عمومی رویے انحطاط اور زوال در زوال کا شکار ہو کر اچھے بھلے معتدل معاشرے کو فرقہ وارانہ عدم برداشت اور مذہبی جنونیت کا جہنم بنا رہے ہیں۔ اور ریاست اپنی طاقت سے اس آگ کو بجھانے اور فتنہ پروروں کا قلع قمع کرنے کی بجائے اس آگ سے اپنی ہنڈیا پکانے میں مصروف ہے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہمارے مذہبی رویوں میں در آنے والی تنزلی۔۔۔۔۔ سبط حسن گیلانی

  1. بہت گہرائی میں جا کر حالات و واقعات کی۔تجزیہ کیا صاحب تحریر نے۔
    ایک بات جس کا تزکرہ ضروری نہیں سمجھا گیا وہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں اسلام اباد کا دھرنا

Leave a Reply