تبصرہ کتاب: اِک راستہ ہے زندگی.. صادقہ نصیر

 

کسی کتاب پر تبصرہ لکھنا اتنا آسان نہیں۔ تبصرہ یا ریویو لکھنے کے لئے بہت اچھا قاری ہونا اور کتاب کے حرفوں اور لفظوں سے مخلصانہ محبت جو مصنف کی دوستی کو بالاۓ طاق رکھ کر کی جاۓ۔ اس کے لئے مصنف کی راۓ سے متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔ البتہ کتاب سے فطری انس ہونا لازمی ہے۔علاوہ ازیں تنقید کرنے کے اخلاقی ضابطے پیش نظر ہوں کہ تبصرے میں تنقید مثبت اور تعصب سے پاک ہو اور مصنف کی شخصیت کو اور ذاتیات کہ نشانہ نہ بنایا جاۓ۔
میں کوئ تجربہ کار اور پیشہ ور نقاد اور تبصرہ نگار تو نہیں ۔ کسی بھی کتاب کو محض ایک ادنی قاری کی حیثیت سے پڑھ کر سیکھنے کا شوق پورا کرتی ہوں اور تبصرہ لکھنے کا مقصد کتاب اور کتاب کلچر کو فراخ دلی سے فروغ دینا اورکسی بھی کتاب کو پڑھنے کے لئے عوام الناس کو ترغیب دینا ہے۔
کتابوں پر تبصرہ کا اصل سلسلہ اس طرح سے شروع ہوا کہ جب میں نے اپنی اس سال شائع ہونے والی کتاب دوستوں کو تحفہ دی تو صاحب کتاب دوستوں نے بھی اپنی کتابوں کے تحفے بھجواۓ۔ اور میری کتاب پر ریویو لکھنے کی مہربانی کی شاید کتاب کی دنیا کی یہ رسم ٹھہری ۔لیکن میں نے اس رسم کو نبھانے میں تساہل برتا۔
زیر نظر کتاب بھی کتابوں کے بارٹر سسٹم کے تحت رفیع مصطفٰی صاحب نے عنایت کی۔یہ اس سلسلے کی پہلی وصولی تھی۔ اور اس پر ریویو لکھنے کا فرض آج نبھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ دیکھئے کہاں تک کامیاب ہوتی ہوں۔ رفیع مصطفی صاحب کے ناول
“ایک راستہ ہے زندگی” بتاتی چلوں کہ اس پر لکھنا محض رسم نبھائی نہیں ہے بلکہ جوں جوں کتاب کے اوراق پلٹتے گئے، محسوس ہوا کہ قاری کو الفاظ اور حروف کے سمندر میں بلا جبر غوطہ زنی کا شوق پیدا ہوتا جاتا ہے کہ وہ ایک بار مطالعہ شروع کردے تو کوئی صفحہ، پیرا گراف حتٰی کہ الفاظ سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتا۔
اور کتاب کے اندر جن موضوعات کو چھیڑا گیا ہے وہ اس قابل ہیں کہ ان پر غور کیا جاۓ۔
رفیع مصطفی صاحب سے میری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی۔ بس فیس بک کی وساطت سے شناسائی ہے۔ جس کی رو سے جناب رفیع مصطفی ایک اعلی تعلیم یافتہ، سائنسی اور ادبی اور سماجی شخصیت ہیں۔
وہ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ۱۹۹۱ سے کینڈا میں انڈس فلو سسٹم نامی سافٹ وئیر کمپنی سے منسلک ہیں اور 1969 سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ . سماجی و فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہونے کے باعث انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فاونڈیشن سے بھی منسلک رہے۔
ادبی کارناموں میں اب تک تین ناول اور متعدد کہانیاں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors


زیر نظر کتاب ” ایک راستہ ہے زندگی” کی ناشر حوری نورانی ہیں اور اس کتاب کو مکتبہ دانیال کراچی نے بڑے خوبصورت اور پر تاثر انداز سے شائع کیا ہے۔کتاب کا عنوان اگرچہ ایک عمومی خیال زندگی کو ظاہر کرتا ہے مگر بیان، اظہار واقعات نگاری اور ابلاغ میں یہ ناول زندگی کے ایک راستے سے نکلنے والے کئی راستوں اور ہر راستے پر چلنے کے الگ الگ دکھوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
کتاب کا انتساب ” ان کے نام جو بنگلا دیش کی آزادی کی بھینٹ چڑھ گئے”
اس انتساب کے نیچے معروف شاعرہ درخشاں صدیقی کا شعر درج ہے
ان چراغوں کو تم رکھنا روشن . . .
ان کی لو میں ہمارا لہو ہے . . . .
اگلے صفحہ پر صحافی افسانہ نگار اور سابق ایڈیٹر اخبار جہاں اخلاق احمد کا اس کتاب کا تعارفی نوٹ بہ عنوان ” چار پشتوں کی کہانی” سے
لکھا گیا ہے۔اس تعارفی نوٹ سے ایک اقتباس کا حوالہ درج کرتی ہوں کہ
“اچھے ناول کی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ زندگی کو جیتی جاگتی پینٹنگ کی طرح سامنے رکھ دے اور ایک عہد کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرے۔”
اس ناول کا مطا لعہ کرنے دوران اور بعد یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی اور یہ ناول واقعی اس معیار پر پورا اترتا ہے۔
پیش لفظ میں ناول نگار تحریر کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جس نے پشت ہا پشت سے اپنی روایات کی پاسداری اور پرورش کی۔ . ان کی زندگی کا محور خاندان تھا.
اس ضمن میں ایک جملہ حوالہ کے لائق ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں
” جب اشرافیہ کا دیوالیہ نکل جاتا ہے تو اس کی وضع داری جاتے جاتے ہی جاتی ہے اور اسی اثنا میں کئی پشتیں گزر جاتی ہیں”
اس ناول میں جس خاندان کا ذکر ہے وہ منو میاں کا خاندان ہے جس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
اس طرح پیش لفظ پڑھتے ہی بطور قاری مجھے محسوس ہوا کہ ناول ایک سوانح حیات ہے جس کے کرداروں کے نام بدل کر اس کہانی کو بائیو فکشن کا درجہ ملتا ہے۔ لیکن کمال خوبی سے قاری کو مفید علمی مواد بھی ملتا ہے جس می تاریخ، سیاست، سائنس، فلسفہ اور جینیاتی سائنس کے بارے میں مفید مشورے بھی بڑے لطیف پیراۓ میں ملتے ہیں کہ وہ گراں نہیں گزرتے۔
پٹھانوں کی تاریخ بتاتے ہوۓ وہ پہلے باب میں تحریر کرتے ہیں کہ
” ماہرین بشریات کے مطابق پٹھان بنی اسرا ئیل کے ان دس قبائل سے ایک بٹنی سے ہیں جنھوں نے۷۲۲ قبل مسیح میں وسط ایشیا سے آکر یو پی کو اپنا مسکن بنایا اور منوں میاں کا خاندان بھی ان میں سے ایک تھا ”
ناول جوں جوں آگے بڑھتا ہے معلوم ہوا کہ منوں میاں کے خاندان کی زندگی کے سفر میں تین ہجرتوں کے دکھ، اجڑنے، بسنے کی تکراری تکالیف اور مشقتیں شامل حال رہیں۔ ایک ہجرت جو ان کے پرکھوں نے وسط ایشیا سے ہندوستان ، پھر پاکستان اور پھر مشرقی پاکستان۔
اس اجڑنے بسنے کی تکالیف میں اپنوں سے بچھڑنے اور ملنے کی تکرار کے نتیجے میں جذباتی ہچکولوں کا ذکر بھی کبھی رومانوی انداز میں تو کبھی رقابتی انداز میں ہوتا ہے۔
ایک بات جو اس ناول کو خوبصورت بناتی ہے وہ یو پی اور دلی کی عام روز مرہ زبان اور کرداروں کے نام ہیں جیسے پیارے میاں، منوں میاں ,ببن میاں،باقی علی خان، بھنو، للی وغیرہ۔ یہ نام، گفتگو، محاورے آج بھی کراچی، حیدرآباد اور سندھ یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں آباد اردو سپیکنگ لوگوں کے گھروں میں سننے کو ملتی ہے۔ مصنف نے کرداروں کے ذریعہ ان الفاظ، اور محاوروں کی ادائیگی کروا کر ایک مخصوص لب و لہجے کی چاشنی کا لطف عطا کیا ہے۔
ابتدا میں کسی ایک مقام پر ناول بے مقصد ہوتا معلوم ہوا لیکن یہ بہت خفیف سا مقام تھا جب اس میں کزنز کا رومانس پڑھنے کو ملا لیکن ذرا سی کوشش کے بعد یہ خوف دور ہوگیا کہ مصنف نے کمال فن کے ساتھ ایک ساتھ پلنے بڑھنے والے بچوں کی جو آپس میں کزن ہوتے ہیں ان کی بچپن کی محبتیں کس طرح جذبا تی اور لطیف انسانی جذبوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہ کزن میرجز کا نتیجہ بنتی ہیں۔ ان رومان پرور جذبات کو والدین اپنی خوش نصیبی اور محبتوں اور خونی رشتوں کی مضبوتی کا ضامن سمجھتے ہیں اور بلا پس و پیش شادی کے لئے ہاں کر دیتے ہیں ۔ جبکہ مصنف نے ان سرٹیفائیڈ رومان پرور کم لاگت کی شادیوں کے رومانس کا بہت خوبصورت منظر پیش کرنے کے ساتھ ہی کمال فن و مہارت سے ان کے طبی نقصانات کی بھی نشاندہی کر دی ہے کہ کس طرح یہ کزن میرجز موروثی بیماریوں کو نسل در نسل منتقل کرتی ہیں ۔ کچھ اس طرح کی مشکل کااس ناول کے جوان ہیرو اور ہیروئن جاوید اور کہکشاں کو بھی سامنا کرنا پڑا اور یہ کزن میرج جو کہ دو تھلیسیمیا مائنرز کے مابین ہوتی ہے جس کا شادی سے پہلے کسی کو علم نہیں تھا۔ نتیجتا موروثی بیماری میں مبتلا بچے کا پیدا ہوتے ہی مر جانا اور پورے گھرانے کا شدید جذباتی کرب میں مبتلا ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے واقعے کی دلگیر لیکن موثر منظر نگاری رفیع مصطفی کے فن کی دلیل ہے اور اس ناول کی مقصدیت کی معراج ہے۔
اس ناول کی ہیروئن کہکشاں ایک دبنگ لڑکی ہے جو اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ڈٹ جاتی ہے اور جاوید اور منوں میاں تعلیم نسواں کے حامی اور عورت کو برابر کا رتبہ دینے والے ۔
ولن کے کردار کو جاوید اور کہکشاں کے کزن سلمان نے خوب نبھایا جو بعد میں اپنی اعلی ظرفی اور فراخ دلی سے ولن سے ہیرو نظر آنے لگتا ہے جو معافی کو انسان کے تمام خوفوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ جاوید اور سلمان کی رقابت حسد اور محبت کی آنکھ مچولی اس ناول کو دلچسپ بناتی ہے۔
رفیع مصطفی کے اس ناول میں صرف انسانوں کے رومانس کا ہی تذکرہ نہیں ملتا بلکہ پھولوں اور تتلیون کا بھی بیان کرتے ہیں۔ اور یہ رومانس حیدرآباد کے ایک چھوٹے سے گھر کے چھٹے سے آنگن میں گھر کی خواتین کی کھرپی سے بنائی ہوئی چھوٹی کیاریوں کی دلکش منظر نگاری سے جھلکتا ہے۔۔ مصنف نے آنگن میں بنی کیاریوں میں لگے ہر پھول کے شخصی خواص کا ذکر کیا ہے جیسے وہ پھولوں کے ماہر نفسیات ہوں۔ یوں ناول اپنے اندر اجمالی پہلو کو بدرجۂ اتم سموۓ ہوۓ ہے اور قاری کی توجہ کھینچتا ہے اور شوق جمال کی تسکین کرتا ہے۔
اس ناول میں کہکشاں کے والد پیارے میاں کا کردار بہت توجہ طلب ہے جو کمسنی میں یتیمی اور سخت مزاج تایا کے زیر سایہ پرورش پانے اور بھائی کے گھر سے بھاگ جانے کی کی وجہ سے تنہائی اور محرومی کا شکار ہوۓ اور ان کی شخصیت نفسیاتی مسائل کا مظہر بن گئی۔ لیکن تایا کو معاف کرکے انھیں گھر لاکر ان کی دیکھ بھال کا فریضہ اپنے سر لینے سے ان کی شخصیت میں بہتری آئی پھر دوسری خوشی بچھڑے بھائی کا پتہ لگنے اور اس کے زندہ مشرقی پاکستان میں موجود ہونے کی صورت میں ملی۔ پیارے میاں کا بے تابی سے مشرقی پاکستان کے شہر باریسال جانا اور بھائی سے ملنا ،بھتیجے سلمان کو ساتھ لانا یہ سب معجزے پیارے میاں کی جھولی میں نعمت غیر مترقبہ کی صورت میں آن گرے اور امیدوں نے پیارے میاں کو ایک خوشگوار فرد بنادیا لیکن مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے المیے نے ایک بار پھر اس خاندان کو ہجر کا خنجر گھونپ دیا جب پیارے میاں کے بھائی غفار خاں مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کے نتیجے میں ہنگاموں کے عتاب میں مکتی باہنی کے ہاتھوں قتل ہو گئےاور بھتیجا سلمان زخمی اور مفلوج پاکستان لایا گیا۔
اس واقعے نے جاوید اور کہکشاں کی زندگی کو ایک عجیب دوراہے پر لا کر آزمأش میں ڈال دیا۔ یہ آزمائش در اصل ناول کے ہیرو جاوید کی تھی جب اس کی بیوی کہکشاں اپنے معذور کزن سلمان کی دکھ بھال کو اپنا فرض سمجھ کر جاوید کو نظر انداز کر بیٹھتی ہے شاید وہ سلمان کو لا شعوری طور پر اپنا وہ بچہ سمجھتی ہے جو پیدا ہونے کے بعد چند سانسیں لے کر یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ کہکشاں تو اس نئے بچے کو پا کر مگن ہو گئی اور اس کے شب وروز سلمان کی خدمت کی سرشاری میں گزرنے لگے لیکن جاوید کے دل میں سلمان کے لئے رقابت پھر بھڑک اٹھی . لیکن جلد ہی سلمان کو اپنے روئے کا احساس ہوتا ہے اور وہ زندگی کے اس فلسفے پر غور کرتا ہے کہ یہ دنیا فطرت کا سکرین پلے ہے ہم سب پہلے سے لکھے گئے فطرت کے تفویض کئے گئے کردار نبھاتے بلکہ ایکٹنگ کرتے ہیں اور جاوید اپنے کردار کو تسلیم کر کے ایکٹنگ پر قائل کر لیتا ہے کہ اسے کہکشاں کے ساتھ مل کر سلمان کی دیکھ بھال کرنی چاہئے خواہ ایکٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔
ناول کے آخر میں جاوید کا خود سے مکالمہ اس ناول کو بہترین کلائمیکس عطا کرتا ہے
رفیع مصطفی اس خود کلامی کو اس طرح لکھتے ہیں
“ جاوید سوچنے لگا کہ اگر کہکشاں نے سلمان کی پرورش کا ذمہ اٹھا لیا ہے تو میں بھی اس کا ساتھ دوں گا۔ اسکرپٹ تو لکھا جا چکا ہے ایکٹنگ ہی تو کرنی ہے۔ پریشان تو وہ ہو جو افلا طون کی کی تصوراتی دنیا کا باشندہ ہے”
اختتامی لائن میں مصنف نے لکھا ہے
“اس نے سوچا کہ زندگی تو ایک راستہ ہے جو کسی منزل تک نہیں لے جاتا۔ ہمارا سفر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ ہمیں بیچ راستے میں ہی روک لیا جاتا ہے کیونکہ ہمارا رول ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ نئے کردار سامنے آتے ہیں اور فلم بندی جاری رہتی ہے”
اور اس طرح یہ ناول زندگی کے ایک فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے بہترین ون لائنر کے ساتھ اختتام کو پہنچتا  ہےاور دوبارہ پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔رفیع مصطفی صاحب کو اتنا اچھا ناول لکھنے پر مبارکباد۔
صادقہ نصیر
أٹوا ،کینیڈا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply