چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27

مائی کی باتیں:
سڑک کے دائیں طرف گھاس کے چھوٹے سے میدان کنارے خیمے لگے تھے۔سڑک پہ ایک بُزرگ عورت اَور دو لڑکے کھڑے تھے۔اُنھوں نے ہماری گاڑیوں کو ہاتھ سے رُکنے کا اِشارہ کیا۔وقاص نے گاڑی تو نہ روکی اَلبتہ عاصم نواز رُک گئے۔لڑکوں میں سے ایک نے کہا ہماری مائی (ماں) بیمار ہیں نیچے ہسپتال جانا ہے۔لے چلیں مہربانی ہوگی۔خیموں کے پاس ایک پیجارو کھڑی تھی عاصم نے پُوچھا گاڑی تو آپ کے گھر میں کھڑی ہے۔بولے یہ ٹھکیدار کی ہے۔اَور وہ یہاں نہیں ہے۔

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط26
شفقت فوراً اَگلی نِشست سے پیچھے آئے اَور مائی کو اُن کی جگہ بیٹھالیا گیا۔ساتھ والے دو جوانوں میں سے ایک پیچھے سیٹ پہ بیٹھ گیا۔گاڑی چلی تو مائی نے پہلے ڈھیروں دُعاؤں کے ساتھ اپنا تعارف کرایا۔گُجربکروال خاندان کی یہ بُزرگ مائی ہر طرح سے پُراعتماد تھی۔سرکے بالوں کو تیل لگا کر چھوٹی چھوٹی لَڑیوں میں بال گھوندے ہوئے تھے،جیسے بکروال خواتین کے ہوتے ہیں۔سر پہ کڑھائی شُدہ ٹوپی۔لہجے میں اَعتماد اَور ہر سوال کا نِپا تُلا جواب۔ہم میں سے زیادہ سوال عاصم نواز صاحب ہی کررہے تھے۔ہمارے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے مائی وقتی طور پہ اَپنے درد کو بھُو ل گئی تھی۔مائی کی تین بیٹیاں اَور چار بیٹے تھے اَور سب کی شادی کروا دی تھی۔وہ سب اپنے حال میں خوش ہیں۔ساس بَہو کا جھگڑا اِس خانہ بدوش دُنیا میں بھی موجود ہے۔شاید یہ آسمانی ہے تبھی لاعلاج ہے۔اِس آسمانی جھگڑے کا شکار مائی بھی تھی،مگر اُن کے ہاتھ پاؤں اَبھی مضبوط تھے۔کیوں کہ ایک مضبوط چھڑی اُن کے ہاتھ میں تھی۔یہ چھڑی جہاں اُن کی دُکھتی ٹانگ کاسہارا تھی،وہاں بھیڑ بکریوں کے ساتھ بَہُو رانیوں کو بھی سُدھارتی تھی۔بَہو رانیاں آپس میں اَکثراُلجھ جاتی ہیں۔

مائی کا کہنا تھا کہ وہ سُنی ہیں اَور بُزرگوں کا اَحترام کرتے ہیں۔ اَپنے پیر صاحب کے مزار پر آتے جاتے بکرا دے جاتے ہیں۔عاصم نواز صاحب نے سوال کیا،کیا آپ بکروالوں کے پاس جڑ ی بُوٹیاں ہو تی ہیں۔؟مائی نے ہوشیاری سے جواب دیا۔ہاں ہمارے بُزرگ جڑی بُوٹیوں سے خُوب واقف تھے۔ہم زیادہ نہیں جانتے نہ ہی اِتنا وقت ہو تاہے۔دوسرا جنگل نہیں رہے آبادی کے بڑھنے سے جنگل اَور زمینیں کم ہورہی ہیں۔ تاریخ کے ٹھیکدارو ں کا کہنا ہے کہ جانوروں کو اِنسانوں نے پالتو بنانے کے لیے بڑی مشقت اُٹھائی۔دُودھ اَور گوشت دینے والے جانور پہلے پالتو بنائے گئے۔آریا اَور سامی اَقوام نے ریوڑوں کے ریوڑ پالے اَور دُنیا کی باقی اَقوام کے مقابلے میں یہ نامور ہوے کیوں کہ یہ باقیوں کے مقابلے میں دُودھ پینے والے اَور گوشت خور تھے۔پھر خاندان بندی کا مرحلہ طے ہوا،اُس کے بعد ریاست اَور ذاتی ملکیت کی بُنیاد پڑی۔بکروال آریائی ہیں یا نہیں مگرخانہ بدوشی اَور چراگاہوں کی تلاش میں بھٹکنے کی عادت آج تک ترک نہ کر پائے۔بڑھتی آبادیوں کے مسلے نے اِن کے لیے مسائل کھڑے کردیے ہیں۔

مُجھے بچپن کے وہ دِن بھی یاد ہیں جب گرما کی صُبحوں کو،گھر کے سامنے والی سڑک بکروالوں کے قافلوں سے بھر جاتی۔میری ماں مُجھے بیدار کرتی اَور اِن خانہ بدوشوں کو دِکھاتی،صُبح کااُجالا،سکول جانے والے بچے اَبھی تیاریوں میں ہوتے ،بکروال ماؤں نے اپنے بچوں کو پُشت پہ،دوپٹے کی جھولی میں ڈال کر اُسے پیشانی پہ بَل دے کر کَس لِیا ہوتا۔بکروالو ں کے کُتے،جن کے بال اُن کی بکریوں کی طرح بڑے ہوتے،برفانی موسم سے لڑنے کے لیے قُدرتی ڈھال تھے۔یہ کُتے بکریوں کو ایک قطار میں رکھنے کی ذمہ داری سنبھالتے۔گھوڑوں پہ بوڑھے جب کہ جوان پیدل چلتے۔کوہ قاف سے سُورج بلند ہو کردُھوپ ڈالنے لگتا،تو بکروال اَپنا نصف سفر طے کر کے منزل کے قریب ہوتے۔

ہزار وں سالوں سے اِسی زندگی کے عادی بکروال جنگلوں اَور چراگاہوں میں آبادرہتے آئے ہیں۔بن اَور چراگاہیں زیادہ تھے تو یہ آسودہ تھے۔اَب زمینوں کی قلت نے اِن اَزلی خانہ بدوشوں کی خاموش زندگی میں مداخلت کردی ہے۔اَور یہ اِس کے لیے پریشان ہیں۔یہ خاص طور پہ مقبوضہ کشمیر،آزادکشمیر اَور گلگِت بَلتِستان کی ثقافتی پہچان ہیں۔

اِن وادیوں کاپہلاحُسن،اِن کافطری حُسن ہے۔جِس کی تراش خراش قُدرت نے کی ہے۔دُوسرا حُسن بکروال ہیں،جن سے اِن گھاٹیوں اَور سبزہ زاروں کی رُونق آباد ہے۔گرمیوں کے دِن بلند اَورسرد چراگاہوں میں گزارتے ہیں تو سردیاں گرما  علاقوں میں۔اَپریل کے آغاز میں یہ جہلم،سماہنی اَور بھمبر سے چلتے ہیں تو جولائی کے وسط تک اِن ٹھنڈی وادیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔تب یہاں کے برفانی درّے کھُل جاتے ہیں۔برفیں پگھلنے لگتی ہیں اَور رَسیلی گھنی گھاس نکل آتی ہے۔جسے اِن کے ریوڑ شوق سے چرتے ہیں۔

مائی کہہ رہی تھی کہ اُن کے ایک بھائی نے خانہ بدوشی ترک کرلی ہے۔اُس نے اپنے گھوڑے،بکریاں بیچ کر جہلم میں ایک اَچھا گھر بنا لِیا ہے۔اُس کابیٹا اَب ایک ورکشاب میں کام کرتا ہے۔مائی کو شکوہ تھا اَور ڈر بھی کے چراگاہیں تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔مائی کے بھائی نے خانہ بدوشی آج ترک کی،اِنسان شروع میں خانہ بدوشی ہی کی زندگی گزارتا رہا،پھر بستیاں بسائی،وہ آج بھی ناآسودہ ہے۔مگرمائی کواُمید ہے کہ گھوڑے اَور ریوڑوں کے بدلے جو گھر اُس کے بھائی نے بنایا ہے وہ اُسے آسودگی دے گا۔

مِنی مَرگ سے پیچھے اِک بَستی آئی کچے ڈھارے،اِن میں اِک جِستی چادروں کی چھت کا بنا گھر۔یہ عارضی بَسیرا تھا۔سردیوں میں یہ لوگ نیچے چلے جائیں گے۔اِس بَستی کے لوگ گھاس کی کٹائی میں مصرُوف تھے۔گھاس کاٹ کر،اُس کے مینار بنا رہے تھے۔جو قد آدم سے قدرے اُونچے تھے۔یہ گھاس یہاں سے کُچھ عرصے بعد اُٹھا لی جائے گی۔َبَرف پگھلے تقریباًڈیڑھ ماہ ہوا تھا اَور یہاں گھاس نکل کر اَب کٹنے کے لیے تیار تھی۔

مِنی مَرگ میں داخل ہوتے وقت ایسی ہی پڑتا ل سے گُزرنا پڑا جو چَلَم اَور بُرزَل پہ ہوچُکی تھی۔ضروری ہدایات یہ تھیں کہ آپ رات کو یہاں ٹھہر نہیں سکتے۔دُوسرا رات ہونے سے پہلے رُخصت ہونا پڑے گا۔آج دومیل نہیں تھے۔مَنی مَرگ میں داخلی دروزے پر ایک راستہ باہیں ہاتھ نکل جاتا ہے۔یہ دومیل کو جاتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply