دیو سائی - ٹیگ

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 29

اُجلی وادیوں میں آلُودہ لوگ! ایک بات حیران کرنے والی ہے کہ گلگت بَلتستان و کشمیر کے ہر سیاحتی مقام پر ناقص دُودھ کی چائے بِکتی ہے۔قراقرم،ہندوکُش اَور ہمالیہ کی اِن وادیوں میں،جہاں محنت ہی سب کا دین ہے،ہر گھر←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 28

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27 مِنی کاگھر،مِنی مَرگ :۔ مِنی مَر گ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے،جووادی کشمیر کے گُل مَرگ کاہی ٹُکڑا لگتا ہے،جِسے چاروں طرف سے ڈھلوانی پہاڑوں نے گھیر رَکھا ہے۔مِنی مَرگ ایک چھوٹاسا قصبہ ہے،جِس میں ایک←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27

مائی کی باتیں: سڑک کے دائیں طرف گھاس کے چھوٹے سے میدان کنارے خیمے لگے تھے۔سڑک پہ ایک بُزرگ عورت اَور دو لڑکے کھڑے تھے۔اُنھوں نے ہماری گاڑیوں کو ہاتھ سے رُکنے کا اِشارہ کیا۔وقاص نے گاڑی تو نہ روکی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔جاوید خان/قسط23

آشیانے کی تلاش: پہلا مسئلہ رِہائش کاتھا۔دو تین جگہوں پر بات کی،عاصم میر سفر کو کوئی بارعایت آشیانہ چاہیے تھا۔جہاں کھانا اَچھا مِلے اَور رات بھی آرام سے بَسر ہوسکے۔آخر میدان کے نُکڑ پر جہاں نانگا کا بِچھڑا پانی شور←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی۔۔۔محمد جاوید خان/قسط20

رَامہ نگرمیں بانسر ی کے اُداس سُر: رَامہ میدان کے آغاز میں سیاحوں کے لیے خیمے لگے تھے۔ایک خیمے سے خُود کار جدید ٹیپ ریکارڈ سے بانسری کی ریکارڈ شُدہ لَے نکل کر پورے جنگل میں پھیل رہی تھی۔یہ لَے←  مزید پڑھیے

چلے تھے دِیوسائی ۔۔۔۔جاویدخان /قسط18

اَستور بازار ایک نالے کے آر پار واقع ہے۔پار والا حصہ نیم ڈھلوانی سطح پہ کھڑا ہے۔اَستور ضلع ہے۔2004 ء میں اِسے ضلع کا درجہ دِیاگیا پہلے یہ ضلع گلگت کا حصہ تھا۔اَستور 1966   مربع میل ہے۔پُورے گلگت بلتستان←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی۔ جاویدخان/سفر نامہ۔قسط15

دوسرے پہاڑ سے ایک ندی لڑکھڑا تی اُتر رہی تھی اُس کا بجتاترنم سُنائی دے رہا تھا۔لُولُوسَر نَدی کامیدان اَورپہاڑ کِسی قدیم آبی گُزر گاہ کا پتہ دے رہے تھے۔چندقدم آگے تقریباً دس فُٹ اُونچا پتھروں کامینار کھڑا تھا۔ہم نے←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔ جاویدخان/قسط 8

جھیل لُولُوسَر: اگر وادی ِ لُولُو سَر کوایک اَلہڑ کہساری دوشیزہ مانیں تو جھیل لُولُو سر اُس کی وہی نیلی آنکھیں ہوں گی جس کے ذکر سے ہماری رومانوی نثر اور شاعری بھری پڑی ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے حُسن←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی ۔ جاویدخان/قسط7

جل کھنڈ 50100۱فُٹ کی بلندی پہ واقع ہے۔یہاں کوئی بڑا بازار نہیں۔یہ ایک کہساری وادی ہے۔سڑک سے ذرا نیچے دریا ء ایک آب جو کی شکل میں بہہ رہا ہے۔ہم بسم اللہ ہوٹل کے سامنے رکے۔یہ ہوٹل دیار کے تراشیدہ←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔ جاویدخان/قسط3

ہماری گاڑیاں رُکیں تو ذوالفقار علی بھٹو برج (پُل)کے  کنارے پر۔جیسے پل نے کہا ہوابھی اس سے آگے جانا منع ہے۔پل کے آغاز میں ایک افتتاحی کتبہ (بورڈ) لگا تھا۔عمران رزاق اے۔ٹی۔ایم مشین سے کچھ اُگلوانے چلے گئے سڑک پار←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔جاوید خان

خُوبصورت پگڈنڈیوں ،ڈھلوانوں پہ بسے گاؤں ،جہاں سارے گھر کبھی کچے تھے میں نے شعور سنبھالا۔میرے کچے گھر کے سامنے سیبوں کا گھنا باغ تھا۔بہار میں سیبوں پہ پھول آتے تو بھنورے  ،شہد کی مکھیاں اِن پہ لپک آتیں ۔کچے←  مزید پڑھیے