چلے تھے دیو سائی ۔ جاویدخان/قسط7

جل کھنڈ 50100۱فُٹ کی بلندی پہ واقع ہے۔یہاں کوئی بڑا بازار نہیں۔یہ ایک کہساری وادی ہے۔سڑک سے ذرا نیچے دریا ء ایک آب جو کی شکل میں بہہ رہا ہے۔ہم بسم اللہ ہوٹل کے سامنے رکے۔یہ ہوٹل دیار کے تراشیدہ ستونوں اور مٹی کی دیواروں پہ کھڑا ہے۔ایسے ہوٹل کبھی ہمارے ہاں عام تھے۔ہر ایک کے باہر ایک کتبہ لگا ہوتا تھا کہ صرف وہی لذیذ کھانوں اور عمدہ چائے کا واحد مرکز ہے۔ان لذیذ کھانوں میں سفید چاولوں کے ساتھ مونگ کی دال اورگوشت کاشوربہ ہوتاتھا۔

نماز کا وقت ہو چکا تھا ہوٹل کے ساتھ کچی مسجد میں نماز کے لیے چلے گئے۔مسجد کاچھت اور ستون بھی دیودار کے تھے۔لکڑی کے کام میں صفائی اورعمدگی دکھائی گئی تھی۔کبھی مسجدیں اللہ کی ہوتیں تھیں۔اب وہ دن نہیں رہے اَب صرف مسلکوں اور بندوں کی ہوتی ہیں۔ہر عبادت گاہ کااشاروں کنایوں میں اپنی شناخت کا اظہار کرنا ایک فیشن ہے۔جب تک کوئی عبادت گاہ کسی مسلک کاچولا نہ پہنے گی وہ عبادت گاہ نہیں ہو گی۔اس50100 فٹ کی سرد بلندی کے عارضی بساؤمیں بھی یہ چھوٹی سی مسجد اپنے پاکیزہ وجودپہ مسلکی ٹکڑے چپکانے سے نہ رہ سکی تھی۔ہم اُس کی مجبوری سمجھ رہے تھے۔بابا بھُلے شاہ نے کہا تھا۔
جاجا وڑدے مندر مسیتی
کدی من اپنے وچ وڑیا نہیں
ایویں لڑدا ایں شیطان نال بندیا
کدی نفس اپنے نال لڑیا نہیں

ہم نے ٹوٹے پھوٹے سجدے کیے اورباہر آگئے۔چائے  پینے کا وقت نہ تھا۔بس ہوٹل والے سے حال احوال پوچھا۔اُس نے بتایا جل کھنڈ میں اکتوبر کی 10 تاریخ تک لوگ ادھر ہی رہتے ہیں پھر یا تو ناران چلے جاتے ہیں یامزید نیچے۔کیونکہ 10 اکتوبر کے بعد ادھر موسم شدید ہونے لگتا ہے۔مسجد کے سامنے چٹان ننگی تھی۔اُبھرے ہوئے پتھر ایسے لگ رہے تھے جیسے رنگ دار بجری سے چُنائی کی گئی ہو۔دراصل مسلسل برف گرنے اور پھر پگھلنے کے عمل سے پہاڑ کے سر سے مٹی اُتر نے سے پتھر نمایاں ہوگئے تھے۔جیسے شفقت کے اور میرے سر سے بال اُتر رہے تھے۔چوٹیوں پر چھوٹے چھوٹے گھاس کے قطعے نظر آرہے تھے۔یوں لگ رہا تھا جیسے مٹیالے رنگ کے کپڑے پر کسی نے سرخ پھول کاڑھ دیے ہوں۔

بارش کے بعد دھوپ نکل آئی تھی۔خنک موسم میں دوست خُودمنظری (سلیفی) میں مصروف تھے۔جب اس رواج سے تھک چکے تو گاڑیوں کا رُخ کیا۔طاہر یوسف نے میرا سنگ چھوڑ دیا اور عاصم صاحب کی دوہرے کیبن والی نسان میں جابیٹھے، گُڈو میری بغل میں آئے تو اسٹیرنگ راحیل خورشید نے سبنھالا۔نئی تارکول بچھی صاف سڑک جس کو ابھی ابھی بارش نے دھویا تھا پہ،راحیل کے لیے پہلا تجربہ تھا۔

سڑک کشادہ تھی،صاف تھی اور دھلی ہوئی تھی۔تازہ تارکول کی سیاہ چادر اُوڑھنے کے بعد ایسے ہی لگ رہی تھی جیسے نئی نویلی دُلہن مہندی کے دن سڑ خ جوڑا پہنے بنی ٹھنی آبیٹھتی ہے۔اس کے دو اطراف پیلے رنگ کی پٹیاں لگا دی گئیں تھیں اور بیچ میں سفید دھاریاں۔ ہماری ہرلڑکی مہندی کے دن سُرخ جوڑے کا خواب دیکھتی ہے اور ہماری ہر سڑک ایسی ہی تارکول اور پیلی پٹیوں کا۔ہر دو کی رعنائی کو حالات کے ستم نے چاٹ رکھا ہے۔پہاڑوں نے اپنے بازو  مزید  پھیلا لیے تھے۔ان پھیلے ہوئے بازوؤ ں میں وادی جل کھنڈ اور بیسل آباد ہیں۔کنہار اب دریا نہیں رہا تھا۔چھوٹے چھوٹے چشموں کے ملنے سے اک ندیاسی بن گئی تھی جو گھاس میں سرکتی بل کھاتی بہہ رہی تھی۔اس میں گھوڑے چر پھر رہے تھے سیاح اور چرواہے اس کے پانی پہ چل رہے تھے۔

جھیل لُولُوسر:
جل کھنڈ سے ۲۲ کلومیٹر کے فاصلے پر لُولُو سر آتی ہے۔بیسل سے ٹھیک دو کلومیٹر اُوپر دائیں طرف کنہار کا اصل آبی منبع لوُلُو سر۔نیم مستعطیل،16700 فُٹ کی بلندی پردومتوازی پہاڑوں نے لُو لُو سر کو اپنے بازوؤں میں لے رکھا ہے۔نیلے پیرہن میں ملبوس کہساروں  کی شہزادی  لُولُو سر ہے۔نہ کوئی شوریدہ لہر اُٹھتی ہے۔نہ شوریدہ سری،بس جیسے نیلا تاج پہنے کوئی دوشیزہ اپنے چاہنے والوں سے بے نیاز اپنی فطری مستی میں گُم ہو۔بے نیازی اور خاموشی،لُولُو سر کی خاص پہچان ہیں۔لُو لُو سر چُپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔گہر ی ہے اور گہر ی نیلی ہے۔جھیل ہو اور پھر نیلی نہ ہو،جھیل نہیں ہو سکتی۔

ہم گاڑیوں سے اُترے تو گاڑیوں کی ایک لمبی قطار لُو لُو سر کے کنارے سڑک پہ کھڑی تھی۔ایک سیاہ رنگ کی ٹو۔او۔ڈی کا باہنااگلا دروازہ کُھلا تھا۔غلام علی کی غزل ”ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے“زور سے بج رہی تھی۔پھر فوراً ہی جگجیت سنگھ کی غزل ”ہوش والوں کو کیا خبر ِ،خُودی کیا چیز ہے“ بجنے لگی۔ نیلگوں  آسمان،کوہ دمن اور اس دامن میں نیلے پانی کا خاموش روپ،خاموش مناظر اور دُور۔۔۔تک پھیلی خاموش دُنیا،ایسے میں یہ خلل فطرت سارے رنگ پھیکے کررہا تھا۔غلام علی اور جگجیت صاحب ہمارے بھی پسندیدہ ہیں مگر یہاں ہر سُر سوائے شور کے کچھ نہیں۔یہاں بس فطرف کا سُر ہے اور اس سُر میں لُو لُو سر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لنک قسط 6۔https://www.mukaalma.com/category/adabnama

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چلے تھے دیو سائی ۔ جاویدخان/قسط7

Leave a Reply