• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دجلہ عراقیوں کی زندگی میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے(قسط6)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دجلہ عراقیوں کی زندگی میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے(قسط6)۔۔۔سلمیٰ اعوان

دجلہ نے مجھے تھوڑا سا نہیں قدرے زیادہ مایوس کیا ہے۔میری زمانوں کی پالی ہوئی فینٹسی نے ہلکا سا نہیں ذرا زیادہ زور سے جھٹکا کھایا ہے۔
”تو یہ دجلہ ہے۔“اندر کی بے کلی نکل کر باہر آگئی تھی۔
میرے تصورات نے جو صورت گری کی تھی وہاں وسعت،کِسی حد تک لامحدودیت،طلسم اور رومانیت تھی۔یہ تو بڑا سکڑا سکڑایا گدلا سا ہے۔جیسے کسی شہر کے بیچوں بیچ کوئی عام سی نہر بہتی ہو۔جسے زمانے اور وقت کے بے رحم ہاتھوں نے گھائل کر دیا ہو۔قوموں اور تہذیبوں کی مار دھاڑاور غلبے کی خواہشوں نے اِسکا بھرکس نکال دیا ہو۔
تو میں دجلہ کے پانیوں کو دیکھتی ہوں اور ان پانیوں میں بغداد کا چہرہ دیکھنے کی کوشش میں ہوں اور بے حدجذباتی ہو رہی ہوں۔
”اللہ میں تو تیری رومانیت کی اسیر تجھے کہاں سے دیکھنے آئی ہوں۔“
کاظمین سے جب چلے تھے تو ایما برج(Aimma Bridge) تک آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔افلاق مجھے بتا رہا تھا ایما برج کو سینٹ برج (Saint Bridge)بھی کہتے ہیں کہ اس کے ایک طرف اعظمیہ یعنی امام ابوحنیفہ کی نسبت سے مشرقی بغداد اور دوسری جانب کاظمیہ امام ابوموسیٰ کاظمی کے تعلق سے کاظمیہ مغربی بغداد ہے۔درمیان میں دجلہ کِسی موٹے بل کھاتے سانپ کی طرح بہتا ہے۔
گاڑی کی رفتار تیز تھی۔میں شیشے سے منظروں کو دیکھتی اور اس کی رواں کمنٹری سُنتی تھی۔یہ امام اعظم کا علاقہ اس کے ساتھ نشا اور ہم اب المغرب سکوائر سے مڑتے ہوئے امام اعظم روڈ پر رواں دواں ہیں۔
جب ایرموک اسپتال سے نکلے تو دجلہ کیلئے میری بے کلی،میرے شوق و محبت کی انتہا،میرے لفظوں،میری باتوں،میرے اظہارئیے میں تکرار کی صورت زوروشورسے گونجی تھی۔پیارے سے لڑکے نے اُس کا احترام کرتے ہوئے کہا تھا۔”دجلہ کے کنارے اکثر مقامات پر کنوپیاں بنی ہوئی ہیں۔وہاں بیٹھ کر نظارہ کریں۔دھوپ میں سہ پہرکے باوجود بہت تیزی ہے۔“
اُس نے ایک جگہ مجھے اُترنے کیلئے کہتے ہوئے اپنے داہنے ہاتھ سے گھنے درختوں کی طرف اشارہ کیا۔
”آپ وہاں بیٹھئے۔میں گاڑی پارک کرکے آتاہوں۔“
میرے جیسی کو دجلے کا اشتیاق نچلا نہیں بیٹھنے دے رہا تھااور اب کبھی کھڑے ہوتے، کبھی بیٹھتے متاسف سی، کہیں اس کے گدے مٹیالے سے رنگ، کبھی گردوپیش اور کبھی اس کے پانیوں میں تاریخ کھوج کرتی ہوں۔
شام کے سلونے حُسن کا انداز صحرائی علاقے میں اپنے رنگ لئے ہوئے ہے۔لُو کے تھپیڑوں میں وہ دوپہر والی شدت تو نہیں ہے پر تپش میں ابھی بھی آگ کے بُجھتے شعلوں پر سے تیر کر آنے کا احساس ملتا ہے۔ یوں تیز ہوائیں اِس شدت کو تھوڑا سا کم بھی کر رہی ہیں۔ سنہری کرنیں دُور پانیوں پر اُتر اُتر کر اُنہیں زرنگار بنا تی ہیں۔
کناروں کے ساتھ ساتھ کہیں بلندو بالا اور کہیں کہیں پستہ عمارتوں کے سلسلے ہیں۔پرندوں کے غول اڑانیں بھرتے پھرتے ہیں۔
افلاق گاڑی کہیں پارک کر کے میرے پاس آگیا ہے۔اُس کی نشان دہی پر میں نے دوربین سے اُن دو پُلوں کو دیکھا ہے جوSinakاور جمہوریہ برج ہیں۔انکے دائیں بائیں فلک بوس عمارتیں ہیں۔ہوٹل ہیں۔اُن کے آگے پھولوں سے بھرے پارک ہیں۔ سیڑھیاں اور راستے دریا کے پانیوں میں اُترتے ہیں۔ اور دریا کے کنارے کنوپیاں ہیں۔سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیوں کی ایک ڈور ہے۔
چند کشتیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔کبھی دونوں حصّوں میں کشتیوں سے آمدورفت تھی۔کشتیوں کو آہنی زنجیروں سے باندھ کر چوبی شہتیروں کے پُل بنائے جاتے تھے اوراُن پر گھوڑے اور اونٹ بھاگے پھرتے تھے۔
دجلہ کو Tigrisبھی کہتے ہیں۔یہ نام گوروں کی دَین ہے۔ ہے کوئی بات مجال ہے جو ذرا سا تعلق اور قربت محسوس ہو۔جیسے اس کا وہکزن فرات بھی تو ہے۔Euphratesیہاں کچھ شناسائی کی جھلک تو ملتی ہے پر شاہوں کی مرضی جو اُن کی سماعتوں کو اچھا لگے وہی رواج پائے۔
دجلہ عراق کی محبت اور خیر خواہی میں سر سے لے کر پاؤں تک لُتھڑا پڑا ہے۔ترکی کی جھیل اُرمیہUrmiyaسے نکل کریہ مار دھاڑ کرتاکُر دش پہاڑوں کے راستے عراق میں داخل ہوتا ہے۔
ترکی کے پہاڑوں سے ہی ایک بڑی نہرGrater Zabموصل سے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر آگے آکر اسمیں شامل ہوتی ہے۔
Lesser Zab کے نام سے دو مزید نہریں (Al-Azayan) اور (Qiyala) نیچے بغداد تک آتے آتے اس کی معاون بنتی ہیں۔
فرات تو شام کو ممنون کر تا ہوا عراق کی ناف سے اندر گُھستا ہے۔پاس پاس چلتے ہوئے قرنا پر دونو ں کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔اورپھر یک جان ہو کرشط العرب کے پانیوں میں گُم ہو جاتے ہیں۔
عراق کی قدیم ترین تاریخ،اُس کی صدیوں پُرانی تہذیبیں اور قومیں اِن دونوں کے بغیر نامکمل۔انہوں نے عُروج و زوال کے المیے،جنگ اور خون ریزیوں کے معرکے دیکھے اور سب کے چشم دید گواہ بنے۔
دجلہ کی اہمیت مقدم کہ عراق کا دل بغداد اور بغداد کی جان دجلہ۔ صدیوں سے چولی دامن جیسا ساتھ،میاں بیوی جیسا سنگ،بغداداسلامی جاہ و حشمت کا گہوارہ اورنمائندہ،علم و تہذیب کی مرکزیت سب اِسی کے کارن۔اِسی کی مرہون منت، اس کے بغیر اُدھوری اور نا مکمل۔
میری دجلہ میں حددرجہ دلچسپی کو افلاق نے بہت پسندیدگی سے دیکھاتھا۔یہ ہر عہد کے عراقیوں کی زندگی میں خون کی طرح دوڑتا رہا ہے۔ہماری خوشیوں،ہمارے غموں کا امین،ہماری باغیانہ سرگرمیوں کا راز دار ہمارے باغی شاعروں کی جائے پناہ۔
انھوں نے بھی ٹوٹ کر اس سے محبت کی ہے۔افلاق نے ابراہیم جیبرا (Jabera) کی شاعری گنگنائی توافلاق مجھے ایک تلاوت کرنے والا خوش الحان قاری محسوس ہوا۔
Blessed Tigris what inflames your heart inflames me and what grieves you makes me grief.
اس کے پانیوں نے شاہوں کی بے وفائیوں اورقہر و عتاب کے بہت دُکھ جھیلے ہیں۔ جعفر برمکی کی لاش کے تین ٹکڑے دجلہ کے تین پُلوں پرلٹکائے گئے اور سر اِس پُل پر جسے باب المدام کہتے ہیں۔ ذہانت،فطانت و سخاوت اور خلیفوں سے محبت و رفاقت اور وفاداری جیسی خوبیوں سے مالا مال یہ سر مہینوں اِس پُل پر لٹکا شہریوں کیلئے سامان عبرت اور پانیوں کیلئے وجہ غم و درد بنار ہا۔
اِن پانیوں نے وہ منظر بھی دیکھا تھا۔جب ہارون الرشید والئی خراسان کی سر کو بی کے بعدبغداد آیا۔اِس پُل سے گزرا۔جعفر کا سر لٹک رہا تھا۔رُکا۔اُس وقت سورج پوری آب و تاب سے چمکتا تھا۔ہوائیں تھم تھم کر چلتی تھیں۔ دجلہ کا پانی مدھم مدھم سُروں میں کوئی المیہ گیت گنگناتا تھا۔ہارون گھوڑے پر سوار اُس سر کے قریب گیا۔کپڑا طلب کیا۔اُس کے چہرے پر پڑے گردو غبار کو صاف کیا۔کھُلی آنکھوں کو بند کیا۔دجلہ کے پانیوں پر نظر ڈالی۔کچھ سوچتا رہا۔یقیناََ اُس نے پانیوں کو کہا ہوگا۔
”میں تم سے شرمندہ ہوں۔شرمسار بھی ہوں۔مگر مجبور تھا۔خلافت عباسیہ کا تاجدار ہارون الشید برامکیوں کے سامنے دو کوڑی کا ہو کر رہ گیا تھا۔بے وقعت اور بے توقیرا سا۔“
یقیناََ پانیوں نے بھی اُسے کچھ سُنایا ہوگا۔اُس وقت کی کچھ منظر کشی کی ہوگی۔کچھ یاد دلایا ہوگا۔جب وہ بہت سال پہلے خلافت کا عہدہ سنبھالنے بغداد آ رہا تھا۔اُس کاطمطراق کروّفر سبھی اُنہیں یاد تھا کہ وہ یہاں آکر رُکا تھا۔اُس دن بھی سورج چمکتا تھا۔اُس کی چمک میں تپش تھی۔اور ہوائیں تھم تھم کر چلتی تھیں۔یحییٰ برمکی نے پاس آکر کہا تھا۔
”حضور دیر ہو رہی ہے۔مادر ملکہ خیزران محل میں بے تابی سے آپ کی منتظر ہیں۔شماسیہ میں ہمارا خاندان اور رعایا دو رویہ کھڑے منتظر ہیں۔ آپ کونئے خلیفہ کی مبارک باد دینے اورتحائف پیش کرنے کیلئے بے تاب و بے قرار ہیں۔
“میں نے شاہی انگوٹھی یہاں پھینکی تھی۔اسی جگہ، انہی پانیوں میں،بھائی ہادی مجھ سے خائف تھانا۔بابا مہدی کی شاہی وراثت کی نشانی۔میں نے سوچا کہ بانس ہی نہیں ہوگا تو بانسری کیسے بجے گی؟“
وہ چند لمہوں کیلئے رُکا پھر جیسے خلاؤں میں دیکھتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا۔
”آپ تو جانتے ہیں اُستاد مکرّم میں تو اِن خلافتوں اور شاہی وراثتوں کے چکر میں ہی نہیں پڑنا چاہتا تھا۔زبیدہ کے ساتھ پُر سکون سی عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کا خواہاں تھا۔مگر مادر ملکہ اور آپ کی کاوشوں نے مجھے قائل کیا ہے۔اب آپ بتائیے شاہی مہر کے بغیر بات کیسے بنے گی؟“
اور جن جیالوں نے دریا میں چھلانگیں ماریں اُن میں جعفر برمکی بڑا نمایاں تھا۔
پانی احسان فراموش نہیں ہوتے۔سزا دینے پر تُل جائیں تو دوسری بات ہے۔پانیوں نے شاہی مہر واپس کر دی تھی۔
شہزادے نے ہاتھ میں تھامی۔بوسہ دیا۔اُنگلی میں پہنی۔احسان مندی کے جذبات سے لبالب بھری نظروں سے دجلہ کا شکریہ ادا کیا کہ حفاظت کا حق ادا کیا۔جعفر کی جان نثاری کا ممنون احسان ہوا۔
افلاق کچھ گنگنا رہا تھا۔کاش میں نے عربی کا علم حاصل کیا ہوتاجومیری مذہبی زبان ہے۔آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام۔کچھ کھٹ ہی لیتی۔ترجمے سے جانا یہ اوائل بیسویں صدی کا شاعر محمد البعیدی تھا۔
اے عراقیو اپنی ذات پر پرچسپاں ذلت کے اِن دھبوں کو دھو دو۔
ہم غلام نہیں کہ گردنوں میں طوق پہنیں۔
ہم قیدی بھی نہیں ہیں۔
کہ پاؤں میں بیڑیاں پہنیں۔
ہم کوئی عورتیں ہیں
کہ جن کے پاس آنسو ہیں۔
تو اگر ہم نے ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی
تو دجلہ کی خوشیوں کا خون ہوجائے گا۔
اور جب میں دیگر انقلابیوں کی شاعری سُنتی اور دُور دجلہ کے منظروں کو دیکھتی تھی۔میری وہ مایوسی ختم ہوگئی تھی کہ تیزی سے گرتی شام کا جوبن دجلہ میں جو نئے رنگ گھول رہا تھا اُنکی دل آویزی کمال کی تھی۔سنہری کرنوں نے جیسے اُس کے اندر اُتر کراُس کے گدلے پن کو سونے میں بدل دیا تھا۔درختوں کی شاخیں تیز ہواؤں کے ساتھ جُھک جُھک کر جیسے اُسے پیار کرتی تھیں۔پرندوں کی ڈاریں اور کشتیاں پانی میں اُتر رہی تھیں۔
اور میں نے اپنی اس مُسرت کو افلاق کے ساتھ شیئر کیا تھا اور سُنا تھا۔
”رات کو دیکھیئے گا۔دجلہ آپ کو حیران کرے گا۔“
ٹیکسی کی رفتار جوُں جیسی تھی۔صدام گرینڈ موسک کو دکھاتے اُس کے بارے میں بتاتے مجھے شہدا برج پر لے آیا۔شہدا برج اپنی تاریخ کے حوالے سے کونسا کم تھا۔آزادی کی جدوجہد کا سمبل۔جان نثاروں کی قربانیوں کا مرکز۔
عراقی ایک طویل جدوجہد سے گزرے۔1914سے 1958 تک ہمارے شاعروں کی آوازیں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک گونجیں۔اپنے لوگوں کی خاموشی، ان کی بے حسی اُنہیں تکلیف دیتی تھی۔ وہ جلتے تھے۔ کڑھتے تھے۔جمیل صدقی الزاہوی آوازیں دیتے تھے۔پُکارتے تھے۔
سو رہے ہو۔
تو کیا سوتے ہی رہنا ہے۔
اٹھ جاؤ۔
اور مقابلے پر کھڑے ہوجاؤ۔
لکھنے والے کا لکھا ہوا مٹا ڈالو۔
تھوڑی دیر کیلئے میں دُکھ کی رُو میں بہنے لگی تھی۔میں نے خود سے کہا تھا۔
آزادی کی دیوی کوئی ایسے ہی بانہوں میں آجاتی ہے۔ صدیاں گزر جاتی ہیں۔کتنی جانوں کے نذرانے اس کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ کتنی دُلہنوں کے سہاگ اُجڑتے ہیں۔کتنے بچے یتیمی کے دُکھ سہتے ہیں۔کتنے ارمانوں کا خون بہتا ہے پھر کہیں اس کا ھُما سر پر بیٹھتا ہے۔کشمیر،فلسطین،افغانستان،عراق اور اپنے وطن کے حالات نے آنکھوں کو بھگو دیا تھا۔کیسے میرے ملک کا بازو ٹوٹا۔کیسے اب میرا مادر وطن اور یہ مظلوم ملک خون میں نہا رہے ہیں۔گو قصور وار تو ہم سب بھی ہیں۔
پھردُکھ کی ایک لہر میرے اندر سے اٹھی اور میرے لبوں پر آکر دم توڑ گئی۔
”میرے مولا۔یہ تو آزاد ہوگئے تھے۔یہ اب پھر غلام بن گئے ہیں؟ہماری طرح کیا یہ بھی آزادی کے قابل نہ تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply