کبھی انجان رستوں پر
کبھی بے نام سمتوں سے
صدائیں آ کے ٹکراتی ہیں جب میری سماعت سے
مجھے محسوس ہوتا ہے
بہت سی ان کہی باتیں
جو لفظوں میں نہ ڈھل پائیں
وہ میرا پیچھا کرتی ہیں
ادھورے خواب
چپکے سے مری پلکوں پہ دستک دینے لگتے ہیں
مجھے ماضی بلاتا ہے
مری راتوں کی تنہائی مجھے بے چین کرتی ہے
تو ایسے میں
مرے دل میں مقید نیم خوابیدہ کئی جذبے
دفعتاً جاگ اٹھتے ہیں
میں جذبوں کی حرارت بھیگی آنکھوں سے
رگِ جاں میں اترتے دیکھتی ہوں
مسکراتی ہوں
یوں محسوس کرتی ہوں
میرا ماضی بلاتا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں