چلے تھے دِیوسائی ۔۔۔۔جاویدخان /قسط18

اَستور بازار ایک نالے کے آر پار واقع ہے۔پار والا حصہ نیم ڈھلوانی سطح پہ کھڑا ہے۔اَستور ضلع ہے۔2004 ء میں اِسے ضلع کا درجہ دِیاگیا پہلے یہ ضلع گلگت کا حصہ تھا۔اَستور 1966   مربع میل ہے۔پُورے گلگت بلتستان کے مُختلف حصوں میں مختلف زبانیں بولی جاتیں ہیں۔سکردو میں بلتی،اَستور میں شئنازبان بولی جاتی ہے۔بلکہ پُورے ضلع  گلگت کی زبان شئنا ہے۔کہا جاتا ہے یہ شین قوم کی زبان ہے۔1973میں ء گلگت کے گاؤں لو پورہ میں کھدائی کے دوران ایک دستاویز ملی جو شئنا زبان میں لکھی تھی۔اِس کا رَسم الخط سنسکرت سے مماثل تھا۔مگر تا حال مزید کوئی آثار نہیں مِلے۔

گلگت ریڈیو سے شئنا زبان میں پروگرام  پیش کیے جاتے ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ شئنا بولنے والی شین قوم ہند آریائی نسل سے ہے۔شین قوم کئی قبائل میں بٹی ہے۔مختلف شین قبائل مختلف اوقات میں چراگاہوں کی تلاش میں پھرتے پھراتے اِدھر  آئے اور یہاں کی بالائی چراگاہوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔گلگت اور تبت کسی وقت میں ایک سرزمین رہے۔تبتی زبان میں چراگاہ کو ”بروق“ کہا جاتا ہے۔لِہٰذا اِسی مناسبت سے شین ”بروقپا“ یعنی چراگاہوں کے رہنے والے بھی کہلاتے رہے۔

دُشوار زمین کے دُشوار لہجے:
ماقبل تاریخ سے اِن لوگوں کی زندگی مشقت کی عادی ہے۔اور آج بھی مشقت کے بِنا کوئی چارہ نہیں۔سخت موسموں سے نبرد آزما ئی یہاں کے رہنے والوں کا پہلا امتحان ہے۔پہاڑی دروں میں بند چراگاہوں میں آکر بسنے والے یقیناً اِس سے بھی مُشکل تر زندگی سے دوچار ہوئے ہوں گے۔تبھی اِن خُوبصُورَت مگر انتہائی دُشوار وادیوں میں آن بسے۔شین یقیناً جفا کَش اور مُشکل قوم ہے۔اور شئنا زبان اِن سے بھی مُشکل۔ہزار کوشش کے بعد اِس کے حروف تہجی نمایاں کیے گئے۔مگر وہ بھی مصدقہ نہیں اُردو کا سہار ا لینے کے بعد۔شئنا کا صَو تی رَنگ اُردو سے ہم آہنگ ہونے سے آج بھی کتراتا ہے۔شئنا میں ”خرچ“بگڑ کر ”کھرچ“ ہو جاتا ہے۔اور ”غ“ ”گ“ بن جاتا ہے۔

کوئی بھی زبان ہو پہلے بولی میں آتی ہے۔لہجے کا اُتار چڑھاؤ،تشدید،حرکات و سکنات۔اَلفاظ پہلے بو ل چال میں ترش کر نگینے بنتے ہیں پھر صفحات کی زینت بنتے ہیں۔1938ء میں ملنے والا نُسخہ بتاتا ہے کہ شئنا ء بھی کبھی صفحات کی زینت بنتی ہوگی۔اُس کی شُستگی اِلہامی نظموں کی شکل میں موجود رہی  ہو گی۔لکڑی اور مٹی کی پکائی گئی تخیوں پر اُس کے شستہ جُملوں کو اُتارا جاتا ہوگا۔نہ جانے کتنے آثار اَبھی زیر زمین دفن ہیں اور اِن آثار میں کتنی ہی داستانیں تاریخ کے پردے اپنے اُوپر سے سرکانے کے لیے بے تاب ہوگی۔دیو مالائی قصے،کہانیاں اَزل سے اِنسانوں کی مجلسی زندگی کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔شئنا اِس حوالے سے زرخیز ہے۔کیوں کہ اِس کو بولنے والوں کے آباؤاَجداد نے صدیوں کے ساتھ سفر کیا ہے۔دیوتا،دیومالائی مخلوق،جری بہادر جوان اور اُن پہ عاشق ہوتی پریاں اور جَل پریاں۔لوک گیت،لوک کہانیاں یہ سب سرمایہ اُردو میں مُنتقل کیا جائے  تو جہاں اُردو کے نثری اور شعری اَدب میں اَضافہ ہو گا وہاں شئنا کا لوک وَرثہ بھی سامنے آسکے گا۔

اَستوربازارآزادکشمیر کے ضلع نیلم اور پاکستان کے صوبہ خیبر پَختون خوا  سے زمینی طور پہ مُنسلک ہے۔شہرکی مغربی سمت پہاڑ پہ پانی کی کُولیں بنا کر بنجر زمینوں پہ سبزہ و باغات اُگائے  گئے ہیں۔سفیدے،شہتوت،خُوبانیاں پورے گلگت بلتستان میں جا بجا لگائی گئی ہیں۔جہاں بھی درخت اور گھاس اُگ سکتی ہے اُگائی گئی ہے۔

مکتب کے گُم شدہ پردوں  سے ایک مُلاقات:
اَستور بازار گاڑیوں سے اُترتے ہی ہمیں عمران رزاق کے دوست عتیق حنفی مِلے۔عمران،عاصم نواز،وقاص اِسلامی یونیورسٹی میں پڑھے تھے۔طالب ِعلمی یا لڑکپن کے آثار گُم ہو جاتے ہیں مگر یادیں باقی رہتی ہیں۔درسگاہوں کی ایک خُوبصُورتی یہ ہے کہ وہ لڑکپن کی نوخیز،تخیلاتی اور مُستقبل کی اُمیدوں سے بھری دُنیا سمیٹے ہوتی ہیں۔ماحول اَچھا ہو تو یہاں اِنقلاب،اوروں کے لیے جینے کی اُمنگ اور رُومانس سب کُچھ پَلتا ہے۔یہ ماحول”تُو جی اَے دل! زمانے کے لیے۔۔۔۔”کی عملی تفسیر ہوتا ہے۔اِس رُومانوی،اِنقلابی،جذباتی اورعملی ماحول میں بننے والے رِشتے ساری زندگی تازہ رہتے ہیں۔اِن لمحوں میں جو مِلتا ہے وہی سرمایہ حیات ہوتا ہے۔اِن لمحوں کے دُکھ بھی مزا دیتے ہیں اور یادوں کے دریچے کھُلنے پہ دل غمگین ہوجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران نے ایڈووکیٹ عتیق حنفی کو دیکھتے ہی پکارا۔مگر ایڈوکیٹ عتیق حنفی عمران رزاق کو فور اً نہ پہچان سکے۔تھوڑا سا تعارف ہونے پہ کہساری اور اَستوری خلوص نے کروٹ لی۔اور مکتب کی محبت یادُوں کے پردے سے ناشناسائی کے سارے بوجھ کو پھاڑتی ہوئی عود آئی۔عتیق حنفی عمران رزا ق سے فوراً لِپٹ گئے اور دیر تک گلے لگائے رَکھا۔ پُورے قافلے کو ایک سُتھرے او ر خاموش ہوٹل میں لے آئے۔اُن کی ضد تھی کہ  کھانا اُن کی طرف سے کھائیں۔کھانا تو ہم نے کھانا تھاہی مگر اُن سے نہیں۔ہماری معذرَت پر اُنھوں نے مشروب پِلایا۔اِس ڈاک بنگلہ نما ہوٹل میں کھانا ہر وقت تیار نہیں ہوتا۔بلکہ تیارکروانا پڑتا ہے۔اتنا وقت ہمارے پاس نہیں تھا۔چنانچہ عتیق صاحب مشروب اور درسگاہ کی خُوبصورت یادوں سے تواضح کرتے رہے۔ عمران رزاق اور عتیق ہی زیادہ دیر محو گفتگو رہے۔اور ہم اُنھیں سُنتے رہے۔یونیورسٹی کی ہنگامہ خیز زندگی،نادانیاں،محبتیں،شکوے،جھگڑے اور انقلابی دُنیا کے لیے کیے گئے وعدے۔عتیق کچھ عرصہ مظفرآباد میں وکالت کی مشق کرتے رہے۔پھر اِسلام آباد چلے گئے۔اَب یہیں   پہ وکالت او ر سیاست کرتے ہیں۔پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔باتیں بہت ہو چکی تھیں۔عتیق صاحب کا بیٹا  بیمار تھا اور ہمارے پاس بھی وقت کی قلت تھی۔ہم نے عتیق صاحب کو رُخصت کیا۔کھانا کھایا اور وادی رامہ کی طرف چل دئیے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چلے تھے دِیوسائی ۔۔۔۔جاویدخان /قسط18

Leave a Reply