• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تحریک انصاف اور پاکستان کی خارجہ پالیسی۔۔۔ثاقب اکبر

تحریک انصاف اور پاکستان کی خارجہ پالیسی۔۔۔ثاقب اکبر

29 اپریل 2018ء کو مینار پاکستان پر تحریک انصاف کے سونامی پلس کی بازگشت ابھی جاری ہے۔ مختلف افراد نے مختلف انداز سے اس پر تبصرے کئے ہیں۔ بعض نے پھبتیاں کسی ہیں، بعض نے ناقدانہ جائزہ لیا ہے، بعض نے غلاظت آمیز باتیں بھی کی ہیں اور تعریف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سیاسی جلسوں میں کی گئی اپنی طویل ترین تقریر کے آخر میں جو گیارہ نکات پیش کئے، ان پر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے خیال میں وہ تمام نکات قابل قدر ہیں، اگر ان پر عملدرآمد ہو جائے تو یقینی طور پر ملک و ملت کے لئے بہتری کی نوید ان کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ البتہ ہماری رائے میں ترقی کے اس ایجنڈے پر موثر عملدرآمد کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور آئندہ کے لئے ایسی خارجہ پالیسی وضع کی جائے جو ملک کی ترقی کے ایجنڈے میں مددگار ہو اور پاکستان کوئی ایسا راستہ اختیار نہ کرلے جو ترقی کے کسی سوچے سمجھے اور جامع ایجنڈے کا رخ موڑ دے۔ یہ بات کہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ماضی میں ایسی غلطیاں پاکستان کئی بار کرچکا ہے اور بیرونی طاقتوں کی خواہش پر ایسی راہ اختیار کرچکا ہے، جس نے پاکستان کو تباہی اور تنزل کے سوا کچھ نہیں دیا۔ بعض راہنماﺅں نے ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے گیارہ نکات کا جائزہ لیا ہے اور یہ اعتراض کیا ہے کہ ان میں ٹیکس کلچر کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی واضح پروگرام دکھائی نہیں دیتا۔ بعض کا یہ کہنا تھا کہ مزدوروں کے حقوق کو گیارہ نکات میں نظرانداز کیا گیا ہے، بعض نے آبی ذخائر کے حوالے سے توجہ دلائی ہے، جو ملک میں تیز رفتاری سے کم یا ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور جنھیں بہتر بنائے بغیر ترقی کا کوئی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بعض نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر بھی تنقید کی ہے۔

ایسی تنقیدات ہمارے نزدیک اہمیت رکھتی ہیں اور ان کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، تاہم ان پر توجہ کے باوجود اگر خارجہ پالیسی کے موضوع کو سرفہرست نہ رکھا گیا تو نتیجہ وہی نکلے گا، جس کی طرف ہم سطور بالا میں اشارہ کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف کی طرف سے خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی باقاعدہ ڈرافٹ سامنے نہیں آیا۔ تحریک انصاف کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی اس موضوع پر کچھ موجود نہیں، سوائے اس کے کہ تحریک انصاف ایک آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرے گی۔ آزادانہ خارجہ پالیسی کا عنوان معنی خیز بھی ہے، پرکشش بھی اور لائق توجہ بھی، لیکن انتہائی ناکافی ہے۔ عنوان سے ساری حقیقتیں آشکار نہیں ہوسکتیں اور تحریک انصاف کی قیادت کے ذہن میں آزاد خارجہ پالیسی کے حوالے سے کیا خدوخال ہیں، واضح نہیں ہوتا۔ خارجہ پالیسی کے موضوع پر تحریک انصاف کے اہم راہنماﺅں کے مختلف بیانات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے راہنما خارجہ پالیسی کے حوالے سے کن امور کو ترجیح دینے کے خواہشمند ہیں۔ البتہ ہم پاکستان کی تاریخ میں اس امر کے شاہد رہے ہیں کہ سیاستدانوں کی خواہشیں، ان کا شعور اور عمل کم ہی ہم آہنگ ہوتا ہے۔ کیا اسی کیفیت کا مظاہرہ تحریک انصاف کی قیادت بھی آئندہ کے دنوں میں کرے گی یا پھر ہم توقع کرسکتے ہیں کہ اس کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لئے خیر، عزت اور ترقی کا پیغام لے کر آئے گی۔

سعودی عرب نے جب یمن پر چڑھائی کی تو پاکستان سے بھی فوجی حوالے سے مدد طلب کی۔ یہ موضوع جب پارلیمنٹ میں پہنچا تو تحریک انصاف نے جو کردار ادا کیا، اس سے اس کی خارجہ پالیسی کا ایک پہلو ضرور واضح ہوتا ہے۔ اس کردار کو حوصلہ افزا قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو عام طور پر پارلیمنٹ کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں، خاص طور پر اجلاس میں شریک ہوئے اور انھوں نے واضح کیا کہ وہ اس اجلاس میں اس لئے شریک ہوئے ہیں، تاکہ پاکستان پھر کوئی غلط فیصلہ کرکے اپنے آپ کو نئی مشکلات میں نہ ڈال لے۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں مشترکہ طور پر یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر داخلی طور پر سعودی عرب کو کوئی مشکل ہو تو اس میں اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اسلامی ممالک کے مابین ثالثی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ کچھ عرصہ پہلے جب (FATF) فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا تو تحریک انصاف کے چیئرمین نے اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اپنے بعض بیانات میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اقتدار میں آکر آزاد خارجہ پالیسی اپنائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چین، ایران، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور بھارت سمیت علاقائی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا قیام تحریک انصاف کی پالیسیوں کے اہم ستون ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی کے بیانات اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ وہ ماضی میں پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں نیز انہوں نے امریکہ کے ایک نقطہ نظر کی مخالفت کی وجہ سے وزارت خارجہ ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی چھوڑ دیا اور تحریک انصاف کو اپنی منزل قرار دے دیا۔ ان کے اس پس منظر نیز تحریک انصاف میں ان کی اہم حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ پارٹی کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں وہ اپنی اس فکر کو سمونے میں موثر کردار ادا کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دیگر راہنما بھی وقتاً فوقتاً خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں مارچ 2014ء کے آخر میں تحریک انصاف کی طرف سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا، جس کا عنوان ہی ”خارجہ پالیسی اور دنیا میں پاکستان نے سیاسی طور پر آگے کیسے بڑھنا ہے“ رکھا گیا۔ اس میں چوہدری اعجاز، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر شیریں مزاری اور پارٹی کے بعض دیگر راہنماﺅں نے خطاب کیا۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ کچھ اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔

”نئے سرے سے ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ”پروامریکی“ پالیسی کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ہنری کسنجر کے بقول ملکوں کی کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اس لئے خوش فہمی سے نکلا جائے کہ کوئی ہمارا دوست ہے۔ حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا سوچ رہے ہیں اور وہ ہمارے کھیتوں کو بنجر کرنا چاہتا ہے۔ حکومت کی طرف سے سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر اور امریکی و سعودی دباﺅ پر ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو روکنا خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ مسلم ممالک میں اگر کوئی کشیدگی ہو تو اسے ختم کرنے کے لئے پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور ان کے درمیان پارٹی بننے سے گریز کرنا چاہیے۔” اس موقع پر چوہدری اعجاز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اب تک جو خارجہ پالیسی اپنائی ہے، وہ امریکا کی 53ویں سٹیٹ کی حیثیت سے ہے، لیکن امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کیا ہے۔ میاں محمود الرشید نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ اپنے نیو ورلڈ آرڈر پر عملدرآمد کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز ہتھکنڈا استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الجزائر میں امریکہ فوج کو عوام کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ ہمارے ملک میں ڈرون حملوں کی شکل میں ہماری خود مختاری پر حملے کر رہا ہے۔ ہمیں پروامریکن کیمپ سے باہر نکلنا ہوگا۔ سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر لے کر پاکستان کو مڈل ایسٹ میں پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے، جو سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ ہمسائے نہیں بدلے جاسکتے لیکن حکومت نے ایران سے خواہ مخواہ کی دشمنی لے لی ہے، جو لمحہ فکریہ ہے۔ ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کو امریکی اور سعودی دباﺅ پر روکنا غلط ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم امریکی تعلقات سے پیچھے ہٹ جائیں۔ امریکی جنگ میں لڑنے کے بعد ہمارے ملک میں دہشت گردی بڑھی ہے۔ اگر ہم امریکہ کی جنگ سے نکلیں گے تو ماحول ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم نے سطور بالا میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے بعض اہم افراد کا نقطہ نظر خارجہ پالیسی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب باتیں بیانات کی حد تک ہیں اور سیمیناروں میں خطاب کے لئے ہیں یا واقعی یہ فکر تحریک انصاف کی حکمت عملی میں بھی جھلکے گی۔ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ تاہم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کسی موقع پر وضاحت سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے فکری خدوخال قوم کے سامنے ضرور رکھنے چاہئیں اور اس سوال کا بھی جواب دینا چاہیے کہ وہ بیرونی دباﺅ کی صورت میں کس طرح ملک کی ترقی کے ایجنڈے پر اپنے آپ کو ثابت قدم رکھیں گے نیز تحریک انصاف کو اپنے منشور میں بھی اپنی خارجہ حکمت عملی کو وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply