محمد جاوید خان - ٹیگ

یونیورسٹیاں،دانش گاہیں اَور خطرات۔۔۔ جاویدخان

کبھی انسان اپنے وجود سے آگاہ نہیں تھا۔آہستہ آہستہ وہ آگاہ ہوتا گیا۔خودسے،اپنے گھر (سیارہ زمین) سے اور اس میں رہنے والی دوسری حیات سے۔آگاہی کایہ عمل بنا رُکے آج تک جاری ہے۔قبل مسیح میں یونان کے ایک دانشور کے←  مزید پڑھیے

جُھلسے ہوئے دنوں کا ایک پرندہ ۔۔۔۔جاویدخان

ہاڑ کے آخری دن ہیں۔جھلسے ہوئے دن،اِن دِنوں میں لُو لگ جاتی ہے۔فصلیں،پتے اَور سبزیاں مُرجھا جاتی ہیں۔سبزے کا پسینہ خشک ہو جاتا ہے۔نباتاتی زندگی کاحسن مُرجھاہٹ کاشکار ہے۔گھنے پیڑوں کو لُولگنے سے پتے پیلے پڑ گئے ہیں۔زیر زمین پانی←  مزید پڑھیے

عُرس اور تصوف۔۔۔۔۔محمد جاویدخان

ضلع پونچھ کشمیر کاایک بڑا ضلع ہے۔1947 ء کے بعد کشمیرکی طرح پونچھ بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔بڑا حصہ مقبوضہ کشمیر میں اور کچھ حصہ آزادکشمیر میں آگیا۔سون ٹوپہ آزاد کشمیر والے پونچھ کا گاؤں ہے۔ ٹو پہ←  مزید پڑھیے

سکیم۔۔۔۔ جاوید خان

اُردو میں اسے ”مَنصوبہ بندی“کہتے ہیں۔صحیح طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ مونث ہے یامذکر۔اگرچہ تذکیر و تانیث کی کتابوں میں اس پر بحث ضروری نہیں سمجھی گئی۔ بس اُردو کادو حرفی ”منصوبہ بندی“ انگریزی میں مختصر ہو کر←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 30

مِنی مَرگ کاسُریلا پانی :۔ مِنی مَرگ کے اِس نالے میں اُجلا پانی بہتا ہے۔شفاف پانیوں کا ترَ نُّم بھی شفاف ہو تا ہے۔ پار جنگل میں دَرختوں کی ٹہنیاں مَچل مَچل کر لہراتی ہُو ئی ہَو ا ؤں کا←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 29

اُجلی وادیوں میں آلُودہ لوگ! ایک بات حیران کرنے والی ہے کہ گلگت بَلتستان و کشمیر کے ہر سیاحتی مقام پر ناقص دُودھ کی چائے بِکتی ہے۔قراقرم،ہندوکُش اَور ہمالیہ کی اِن وادیوں میں،جہاں محنت ہی سب کا دین ہے،ہر گھر←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 28

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27 مِنی کاگھر،مِنی مَرگ :۔ مِنی مَر گ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے،جووادی کشمیر کے گُل مَرگ کاہی ٹُکڑا لگتا ہے،جِسے چاروں طرف سے ڈھلوانی پہاڑوں نے گھیر رَکھا ہے۔مِنی مَرگ ایک چھوٹاسا قصبہ ہے،جِس میں ایک←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27

مائی کی باتیں: سڑک کے دائیں طرف گھاس کے چھوٹے سے میدان کنارے خیمے لگے تھے۔سڑک پہ ایک بُزرگ عورت اَور دو لڑکے کھڑے تھے۔اُنھوں نے ہماری گاڑیوں کو ہاتھ سے رُکنے کا اِشارہ کیا۔وقاص نے گاڑی تو نہ روکی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط25

اَستور ناشتہ: اَستوربازار پہنچ کر جس ہوٹل میں کھانا کھایا تھا اُسی میں ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھے۔ہوٹل کا کُچھ عملہ اَبھی بیدار ہوا تھا۔دوستوں نے تگڑے ناشتے کاحکم نامہ جاری کیا۔انڈے بَہت سے پراٹھے اور چائے۔میری گرانی ابھی ختم←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط24

رامہ نگر کی صُبح خیز دُنیا اَورہم: اُجالا پھیلنے پر  ہم جاگے۔جلدی جلدی وضو کیا نماز ادا کی۔فجر کی سپیدی آکر جاچکی تھی۔خیمہ بستیاں چیدچیدہ جاگ رہی تھیں۔جنگل پرندوں کی بولیوں سے گونج رہا تھا۔ہر پرندہ اِس بن میں اپنی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔جاوید خان/قسط23

آشیانے کی تلاش: پہلا مسئلہ رِہائش کاتھا۔دو تین جگہوں پر بات کی،عاصم میر سفر کو کوئی بارعایت آشیانہ چاہیے تھا۔جہاں کھانا اَچھا مِلے اَور رات بھی آرام سے بَسر ہوسکے۔آخر میدان کے نُکڑ پر جہاں نانگا کا بِچھڑا پانی شور←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔جاوید خان

رَامہ میدان: ہماری گاڑیاں خُوبصورَت ڈاک بنگلوں کے سامنے جارُکیں۔بائیں طرف ڈاک بنگلے ایک چبوترا نما جگہ پر ایک دوسرے کے پہلو میں ہیں۔ دائیں طرف ایک بڑا مُستطیل میدان ہے۔اِس کے چاروں طرف بیاڑ کے درخت، ایک فصیل کی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دِیوسائی ۔۔۔۔جاویدخان /قسط18

اَستور بازار ایک نالے کے آر پار واقع ہے۔پار والا حصہ نیم ڈھلوانی سطح پہ کھڑا ہے۔اَستور ضلع ہے۔2004 ء میں اِسے ضلع کا درجہ دِیاگیا پہلے یہ ضلع گلگت کا حصہ تھا۔اَستور 1966   مربع میل ہے۔پُورے گلگت بلتستان←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔ جاویدخان/قسط16

بابُوسر گاؤں: بابُوسر گاؤں پاکستان کی طرف سے گلگت کاسرحد ی گاؤں ہے۔گاؤں کی حدود میں اُترتے ہی ایسے لگا جیسے ہم وادی نیلم کے کسی گاؤں میں داخل ہو رہے ہوں۔کچے پکے مکانات کچھ سُرخ جِستی چادروں سے بنے←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی۔ جاویدخان/سفر نامہ۔قسط15

دوسرے پہاڑ سے ایک ندی لڑکھڑا تی اُتر رہی تھی اُس کا بجتاترنم سُنائی دے رہا تھا۔لُولُوسَر نَدی کامیدان اَورپہاڑ کِسی قدیم آبی گُزر گاہ کا پتہ دے رہے تھے۔چندقدم آگے تقریباً دس فُٹ اُونچا پتھروں کامینار کھڑا تھا۔ہم نے←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔ ۔ جاویدخان/قسط14

آفتاب ہمالیہ پہ: صبح نماز کے لیے بیدار ہوئے۔وقت اذاں کے کافی بعد،برفیلے پانی سے وضو کیااور باجماعت نماز ادا ء کی۔باقی لوگ واپس بستروں پہ لیٹ گئے۔میں نے طاہر یوسف کو اشارہ کیا اُوپر ٹاپ پہ جارہا ہوں۔سورج ابھی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی ۔۔محمد جاوید خان/سفر نامہ/قسط 12

چاندہمسایہ تھا: رات کو تقریباً ڈیڑھ  بجے   آنکھ کُھلی،کمرے میں خراٹے اور سوئی ہوئی سانسوں کی آوازیں تھیں۔میں نے چادر لپیٹی،دروازہ کھولا، پاؤں میں جوگرز پہنے  اور باہر نکل آیا۔سُنہری چاندنی میں سارا پہاڑی منظر نہا رہا تھا۔شما ل←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی ۔۔جاویدخان/قسط9

بابُوسَر بابُو سَر135000فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔مغر ب کے قریب ہم بابو سَر پہنچے تو چند دکانوں پر مشتمل بازار گلیشری ہواؤں میں ٹھٹھر رہا تھا۔گاڑیوں کی ایک لمبی قطار آگے جانے کے لیے انتظار میں تھی مگر آگے←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔ جاویدخان/قسط 8

جھیل لُولُوسَر: اگر وادی ِ لُولُو سَر کوایک اَلہڑ کہساری دوشیزہ مانیں تو جھیل لُولُو سر اُس کی وہی نیلی آنکھیں ہوں گی جس کے ذکر سے ہماری رومانوی نثر اور شاعری بھری پڑی ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے حُسن←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی ۔جاویدخان/قسط5

اس سارے علاقے میں مچھلی کے فارم بنائے گئے ہیں۔مچھلی کی صنعت کو اس شفاف پانی والے علاقے میں مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔مچھلی کی مانگ اس وقت پوری دنیا میں دن بدن بڑھ رہی ہے۔یوں ضرور ت اور معیشت←  مزید پڑھیے