چلے تھے دیوسائی۔ جاویدخان/قسط3

ہماری گاڑیاں رُکیں تو ذوالفقار علی بھٹو برج (پُل)کے  کنارے پر۔جیسے پل نے کہا ہوابھی اس سے آگے جانا منع ہے۔پل کے آغاز میں ایک افتتاحی کتبہ (بورڈ) لگا تھا۔عمران رزاق اے۔ٹی۔ایم مشین سے کچھ اُگلوانے چلے گئے سڑک پار شہر کے سارے بینک ایک قطار میں کھڑے سرگرم تھے اورہر ایک کے باہر ایک مشین پیسے اُگلنے کو  بیٹھی ہے۔یہی پہ راحیل نے گاڑی تبدیل کرنی تھی۔سفید نازک ٹو۔او۔ڈی کے بدلے میں توانا ڈبل کیبن ”نِسان“جو پہاڑی وادیوں اورکھردرے پتھریلے رستوں پر دوڑنے بھاگنے  کو تیار تھی۔

پُل پار کرکے ہم بالاکوٹ سڑک پہ مُڑگئے۔اگرچہ نذربونیاروی صاحب نے ذرا بعدآزادکشمیرکادورہ کیاہوتا تو انہیں اس پُل کی تعریف لازمی کرنی پڑتی۔اس پُل کاافتتاح 14اگست 2014 ء کو ہوا تھا۔آج ۵اگست 2017 ء تھی اور ٹھیک 9 دن بعد یہ پُل اپنی تیسری سالگرہ منائے گااور ارض پاکستان اپنی سترسالہ۔انسانوں اور ملکوں کی سالگرہ میں فرق ہوتا ہے۔انسان ہر آنے والے سال زندگی کے بارہ ماہ اپنی کُل زندگی سے خرچ کرجاتے ہیں۔مگراچھے اور باشعور انسان اس خرچ شدہ زندگی سے تجربہ حاصل کرکے آنے والی نسلوں کو سنورنے کے گُردے جاتے ہیں۔جبکہ ملکوں کاقصہ مختلف ہے۔بڑھنے کے ساتھ کمزور نہیں ہوتے مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔علم وشعور ترقی کرتا جاتا ہے تو علم کے پانی سے آبیار شدہ زمینوں پرتہذیب وثقافت کی لہلہاتی فصل اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔تہذیبیں صدیوں کاتحفہ ہوتی ہیں۔پھر کئی ان زوال پذیر تہذیبوں کھنگالاجاتا ہے تو بابل ونینوا،مصرقدیم، منجوڈارو وہڑپا،اندلس کے علمی آثار،شاردہ دیس،اورایلورہ کے غار تہہ در تہہ برآمد ہوتے ہیں۔انسان اپنے اس ماضی کو تلاش کرتا ہے تو تحقیق وتالیف سے کُتب خانے بھرجاتے ہیں۔

راجہ مظفرخان نے چکڑی بہک نامی اس علاقے،جو دودریاؤں کے سنگم پہ ہے  اک شہر بسایا تھا۔جبکہ اس سے قبل کئی برس  اسے پیم درنگ کے نام سے بھی جاناجاتا رہا۔راجہ مظفرخان کے نام پہ بعد میں یہ شہر مظفرآبادکہلایا۔تقریباً ساڑھے تین سو سال پہلے دریائی حصارمیں آباد اس شہرکے آثار آج بھی کسی آثار قدیمہ کی ٹیم کے مُنتظرہیں۔سڑک ابتداء میں کٹاؤ کی زدمیں آ کرمشکل ہوجاتی ہے پھرراستہ آسان ہے۔برار کوٹ میں دریاکُنہار ٹوٹ کر دو چھوٹی چھوٹی ندیوں میں ڈھل جاتا ہے۔ کنہار ایک معصوم سادریا ہے ہندوکش کے دامن میں شفاف پانی کو گودلیے دوڑتا،اٹکھیلیاں کرتا یہ سرکش جہلم سے ہم آغوش ہوجاتاہے۔

اچانک عمران رزاق نے پوچھا ۔۔۔اوجاویدصاحب! بھائی کیاہوتاہے؟عمران کے اس انتہائی منطقیانہ سوال پرمیری ساری منطق گم ہوگئی تھی۔میں نے کہابھائی،بھائی ہوتا ہے۔مگرعمران نے کہا مزید وضاحت چاہیے۔عمران نے اسلامی یونیورسٹی سے شریعیہ میں لاء کررکھا ہے اوریورپ سے ایل ایل ایم۔عمران تومیرے جواب سے مطمئن نہ ہوئے البتہ ہم بھائیوں میں خاصے خودکفیل ہیں نہ جانے یہ خودکفیلی کب تک ہے۔

مُستنصرحسین تارڑ صاحب نے تو گدھوں تک کو بھائی کہا ہے۔اس نئی خاندان بندی پہ گدھے بھائی اور تارڑ صاحب دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ہمارے تارڑ صاحب جیسے نصیب تو نہیں مگر دینی بھائی، غیردینی بھائی،ساتھی بھائی،جماعتی بھائی،غیرجماعتی بھائی،اسلامی بھائی،خالص اسلامی بھائی،میٹھے میٹھے،پھیکے پھیکے،نمکین بھائی سمیت تنظیمی اور غیرتنظیمی بھائیوں پہ ہمیں فخر ہے۔تارڑ صاحب کر کے دکھائیں مقابلہ۔وہ ہم سے جیتے ہی جیتے اورہمیشہ جیتے رہیں۔ہمارا اُن سے کیامقابلہ مگرایک بات صاف ہوئی کہ تارڑ صاحب کے بھائی ہمارے بھائیوں سے شکل وصورت،قدکاٹھ،کام کاج میں ہارے ہی ہارے۔

ایک خُوبصورت وادی میں اک چھوٹے سے بازار میں ہم رُکے۔اردگرد پہاڑ اور اُن پہ چیڑ کے درخت اور سبزہ۔یہ گھڑی حبیب اللہ ہے۔دریا کنہاریہاں بازار کے بائیں طرف نیچے بہتاہوا گزرتا ہے۔ہم یہاں پٹرول بھروانے کچھ دیررکے رہے پھر قافلہ آگے بڑھا۔ناران یہاں سے تقریباً ۸۸کلومیٹر کے لگ بھگ رہ جاتا ہے۔ہماری اگلی منزل وادی ناران ہی تھی۔سڑک دُبلی مگر جاندارتھی۔ہماری مِٹسو بُشی اور نِسان سرسبز وادی میں دریا کنارے پھر سے دوڑنے لگیں۔پہاڑوں پہ سفید بادل کہیں کہیں منڈلا رہے تھے۔کُچھ چوٹیوں پہ یوں اُتر آئے تھے جیسے اُن کاماتھا چوم رہے ہوں۔نیلے آسمان تلے بلندو بالاچوٹیوں پہ نرم سفیدبادل اور اُن کے نیچے پھیلی ہوئی وادی جس کی گود میں دریاکنہار ایک بچے کی طرح اٹکھیلیاں کر تا ہے۔اس وادی میں ہمارا سفرجاری تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply