چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 28

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27

مِنی کاگھر،مِنی مَرگ :۔
مِنی مَر گ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے،جووادی کشمیر کے گُل مَرگ کاہی ٹُکڑا لگتا ہے،جِسے چاروں طرف سے ڈھلوانی پہاڑوں نے گھیر رَکھا ہے۔مِنی مَرگ ایک چھوٹاسا قصبہ ہے،جِس میں ایک دُکان اَورایک دو کمروں کا کچا ہوٹل ہے۔سارے پہاڑ تازہ گھاس سے بھر ے تھے۔یہ ایک نخلستانی وادی ہے،جِسے ایک نالہ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔نالے کے اُس طرف کاپہاڑ دیودار،بیاڑ اَور سفیدتَنے والے درختوں سے لَدا ہے۔اِس سفید تنے والے درخت کی چھال سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔پِچھلی درمیانی پہاڑی پرصِرف رَسیلی گھاس اُگتی ہے۔جِسے چرنے کے لیے مویشی پھر رہے تھے۔
مِنی مَرگ کا ہر گھر دیسی دُودھ،دہی،لَسی اَور مکھن اِستعمال کرتا ہے۔ہر گھرانہ 50 سے 100 تک بھیڑ بکریاں ضرور رَکھتاہے۔نالے کے پار جنگل کی بُلند چٹانوں پر کستوری ہرن اَور مارخور پائے جاتے ہیں۔جب کہ اِن پہاڑوں کی غاروں میں چیتے رہتے ہیں۔ماضی میں شکار پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے،اِن کی تعداد میں بَہت کمی آئی ہے۔اَب پابندی ہے،مگر لوگ چھُپ کر شکار کرتے ہیں۔ 1947ء میں یہاں مہاراجا کے فوجیوں کے خلاف چھاپہ مار جنگ لڑنے والوں نے ایک مارخور کو شکار کرکے پکا کر کھایا تھا۔ایک پلا ہوا مارخور اَچانک سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔بھوکے جنگجوؤ ں نے اِسے غنیمت سمجھا اَور شکار کرلیا۔

سڑک، جو ڈھلوانی پہاڑ کی تہہ پر بَل کھاتی گُزرتی ہے،پر اُلو بھی نہیں بولتے۔بولتے ہیں تو صرف سنّا ٹے،وہ بھی بَہت ہی دِھیمے۔نہ شو ر نہ غوغا،ہُو کاعالم۔ساری بَستی دِن میں بھی خاموش،سُنسان
اَور کاروبار زمانہ میں مصر وف۔یو ں لگتا ہے، جیسے یہاں اِنسانی قدموں کی چاپ نہیں ہوتی،آواز میں گمک نہیں ہوتی۔ڈھلوانی پہاڑ پر خواتین و مرد گھاس کاٹ رہے تھے۔مِنی مَرگ والوں نے آپس میں یہ رَس دار گھاس تقسیم کر رکھی ہے۔اَیسے جیسے سبز نرم قالین پر لکیریں لگادی گئی ہوں اَور وہ لَہلَہاتا قالین لکیروں میں مُنقسم نظر آتا ہے۔مِنی مَرگ کا لَہلَہاتا نخلستان تقسیم تھا۔خواتین لکیروں میں بیٹھ کر اَپنے اَپنے حصے کی گھاس کاٹ رہی تھیں۔یہ ایک مُستقل تقسیم تھی ہر ایک اِس عہد کا پابند تھا۔اِس کاپالن ہر سال کٹائی پر ہر کوئی کرتا ہے۔کوئی کسی کی حد میں درانتی نہیں چلاتا۔
دوکمروں کے کچے ہوٹل کے ساتھ گھاس کے میدان پر، مَیں ٹھکیدار محمد عالم کے ساتھ جا بیٹھا۔ دوست ہوٹل میں بیٹھ گئے تھے۔محمد عالم مِنی مَرگ میں ٹھیکیداری کرتے ہیں اَور پڑھے لِکھے آدمی ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ مِنی مَرگ آج بھی بُنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔2008 ء میں فوج نے ہسپتال بنایا تھا۔اِس سے قبل اَگر کوئی سخت بیمار ہو جاتا، تو اُسے فوجی ہیلی کاپٹرپر گلگت ہسپتال مُنتقل کرنا پڑتا۔شدید برفانی موسم میں اَگر اَیسا مسئلہ درپیش ہوتا،تو سخت مُشکل ہوتی۔

مِنی مَرگ کی آبادی دو حِصوں میں تقسیم ہے۔ایک جو سڑک کے نیچے لمبائی کے رُخ میں آباد ہے۔دُوسری نخلستان کی مغربی سَمت سڑک کے اُوپر نُکڑ پربس رہی ہے۔سارے گھر دِیودار کی لکڑی سے بنے ہیں۔زیادہ تر دومنزلہ ہیں۔محمدعالم بتارہے تھے کہ جنگلی حیات کو نُقصان جنگل کٹنے سے بھی ہورہا ہے اَور جنگل کاٹنا ہماری مجبوری ہے،کیوں کہ ہمارے پاس اس کامُتبادل نہیں۔گھروں کی دیواروں میں اَگردیودارکی لکڑی کے بجائے مِنی مَرگ والے پتھراَور گارا اِستعمال کریں،تو لکڑی کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔باتیں جاری تھیں کہ ہوٹل کے دروازے سے اَصغراَکرم صاحب نے آواز لگائی۔آؤ اَور کھانا کھالو۔مَیں نے محمد عالم صاحب کو بھی دعوت دِی، مگر وہ اَپنے وقت پر کھانا کھا چُکے تھے۔

ہوٹل کے ایک کمرے میں باورچی خانہ تھااَوردُوسرے میں بیٹھک تھی۔جہاں زمین پر بِچھے کمبلوں پر بیٹھ کر سیاح اَور اِکا دُکا لوگ کھانا کھاتے تھے۔ہم نیچے بیٹھ گئے، تو روایتی پلاؤ پر مونگ کی دال ڈال کر پیش کی گئی۔مَیں گر انی بھُول گیا۔نہ جانے تھکن غالب تھی یا بھُو ک کااَثر تھا۔اِسلام آباد،راول پنڈی اَورلاہورکی اَنارکلی کے کھانے کھائے تھے،مگر جو لذت مونگ کی دال اَورپلاؤ میں تھی،آج تک اَیسی لذت اِتنے سادے کھانے میں کہیں اَور نہیں مِلی۔قہوہ پینے کے بعد مَیں واپس محمد عالم صاحب کے پاس آگیا۔ ہمارے پاس چلاس کے ایک اَور بُزرگ آبیٹھے۔اِن کانام محمد عادل تھا۔یہ مِنی مَرگ میں روز گار کے سِلسِلے میں آئے تھے۔محمد عادل اَور محمدعالم نے اپنی مُشکل زندگی کا ایک ایک ورَق پَلٹنا شروع کیا۔مشقتوں سے بھری داستان کے بیچ،مَیں نے محمد عالم صاحب سے مِنی مَرگ کی وجہ تسمیہ پُوچھی تو اُنہوں نے بتایا 1947ء میں یہاں برطانوی راج تھا۔اِس ساری جگہ کا نظم ونسق ایک پوسٹ مین گورے کے پاس تھا۔جِس کا نام ذُنانڈر تھا۔مِنی(مینی) اُس کی بیوی تھی۔دُونوں میاں بیوی مِلنسار اَور ہمدرد تھے۔ لوگوں سے تعاون کرتے رہتے تھے۔ذُنانڈر کی بیوی مِنی خُوبصُورَت تھی اَور علاقے کے مردو زن اُس کا اَحترام کرتے تھے۔مِنی 1945ء میں بیمار ہو کر فوت ہوگئی۔خُوبصُورَت مِنی مَرگ،اُسی مِنی کے نام پر ہے۔”مَرگ“ سے مراد موت اَور مِنی مَرگ،وہ جگہ جہاں مِنی کا مَرگ (موت) ہوا۔

میرا تجسس جاگا، بلکہ اَندر کے اِنسان نے ایک اِنسان سے محبت کادعویٰ کیا۔جِس کو نہ دیکھا تھا نہ سُنا تھا۔تصور کی آنکھ نے پردیس میں ایک عورت کو دیکھا۔کِسی حکم نامے کے پابند شخص کا ساتھ نِبھانے والی بہادر مِنی،جہاں آج اِس قدر دُشواریاں ہیں،وہاں پُون صدی قبل کیا حالات ہوئے ہوں گے۔اَپنے گھر سے دُور ایک عورت یہاں کے مجبور لوگوں میں،خُود جبری اُصولوں کی ماری محبت بانٹتے بانٹتے سو گئی۔یہاں کے چاہنے والو ں کوسلام کہ اُنہوں نے اُس کانام اپنے گاؤں کودے دیا۔اِس نام میں پیاری مینی کی یاد بھی ہے اَور ساتھ لفظ ”مَرگ“جیسا دُکھ بھی۔محمد عالم نے بتایا مِنی کی قبر ہوٹل کے پیچھے ہے۔مَیں اُٹھا اَور مِنی کی قبر پر چلا گیا۔ایک خُوب صورت قطعہ اَراضی پر،پُختہ چار دیواری کے حصار میں مِنی کی پُختہ
قبر تھی۔اِس پر تازہ تازہ سفیدی پھیر ی گئی تھی۔قبرکے سر ہانے ایک کَتبہ لگا تھا۔
نام : نین مینی
شوہر کانام : ذُنانڈر
تاریخ پیدائش : 1901 ء
تاریخ وفات : 1945 ء
مینی کانام بِگڑ کر مِنی ہوگیا۔ اِس کَتبے کے مطابق نین مینی نے کُل ۴۴برس عُمر پائی اَور جب زندگی کی بہاروں پر اَچانک خزاں کے اَولے پڑے، تو خُوبصُورَت وادی نے اُسے اپنی آغوش میں لے لِیا اَور آج بھی لِیے ہُوئے ہے۔نین مینی کو عقیدت بھراسلام کرنے کے بعد، مَیں واپس محمد عالم اَورعادل صاحب کے پاس آگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply