دنیا مفت میں ہمیں طعنے دیتی ہے کہ مسلمانوں نے آج تک آخر ایک سوئی تک تو ایجاد نہیں کی اورچلے ہیں دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے۔
مگر راقم الحروف نے جب معلوم انسانی تاریخ کےاوراق کھنگالے تو انگشت نہیں بلکہ دست بدنداں رہ گیا کہ یہ جو رائیٹ برادران کے گیت گاتی ہے دنیا کیونکہ انہوں نے عالم موجود کو جہازجیسی چیز ایجاد فرما کر بڑی عنایت کی ۔ مگر میرے نہایت وسیع علم کے مطابق معاملہ اسکے برعکس ہے ۔
جہاَز سب سے پہلے افغانستان، پاک وہند میں ایجاد ہوئے، بلکہ یوں کہیے وہ سارے کا سارا سامان جہازی ایجاد ہوا جسے استعمال کرنے کہ چند ہی لمحوں بعد یہاں کا ہر ذی روح بلاتفریق صنف کے ایک مکمل جہاز کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ جہاز کے بارے مزید تفصیلات سہیل کروتانہ سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔
دنیا نے جتنی ترقی کی ہے اسکا اعتراف تو لبرل سے لے کر مولوی تک گاہے بگاہے سبھی کرتے رہتے ہیں مگر اسکا تقابل کسی طور ہمارے ہاں کے گئی ترقی سے مطلق جائز نہیں بلکہ عین حرام ہے۔ اسکی واضح مثال آج کے جدید ترین دور میں سب سے زیادہ کارآمد اور فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دینے والے جہاز سے لی جا سکتی ہے مگر اس نگوڑ مارے کی بناوٹ سے لے کر اسکے اڑنے تک کا خرچہ الامان الحفیظ۔
حالانکہ اگر گوروں و کالوں(چاچو امریکہ) کو ہمارے جتنی عقل میسر ہوتی تو وہ سو روپے میں دن بھر جہاَز خوری کے مزے لے سکتے تھے۔ آخر فی زمانہ جتنی بھی مہنگائی کا رونا رو لیا جائے پھر بھی سو روپے سکہ رائج الوقت میں ایک بار تو “جہاز” بنا ہی جا سکتا ہے۔ ایک جہاز بننے کا یہ سامان ارض پاک کے چپے چپے تے کونے کونے ( کیونکہ بے بی ڈول اب سونے کی نہیں رہی) وچ با آسانی دستیاب ہے۔یعنی اب گلی گلی وچ مرزے یار پھرتے ہیں ۔ اور یہ سامان جہازی من چاہے نرخوں پر دستیاب ہے ۔ایک بات جو درایں معاملہ نہایت اہم ہے کہ سامان جہازی کے کاروبار سے منسلک حضرات اسے شرعی نکتہ نظر سے بھی بالکل درست مانتے ہیں جیسا کہ وہ علاقہ جات جہاں یہ سامان جہازی فروخت کیا جاتا ہے ان دکانوں کے باہر آویزاں بورڈ سے ہی پتہ چلتا ہے “حاجی گل خان چرس اڈا دوران اوقات نماز پنجگانہ بوجہ وقفہ نماز کے مقفل رہے گا نیز جمعتہ المبارک کے روز ترسیل کا ناغہ رہے گا ۔ الحاج گل خان”
دنیا میں ویلا بندہ اور کچھ اگر نہ کر سکتا ہو تو اسے تین چار پکے جہازی سامان سے بھرے ہوئے لگوائے جائیں تو وہ تخیل کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں نہ کبھی آئن سٹاین، نہ کوئی نیوٹن، نہ کبھی ایڈیسن جیسے لوگ پہنچ پائے، وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ اس کے مستعمل ہوتے ہی وہ افراد جو امید کے شجر سے پیوستہ ہوتے ہیں وہ فوراً سے لڑھک کر ایک الگ ہی مقام پر فائز ہونے لگتے ہیں۔ انکو گھر کے باہر سے گزرتی نالی بحرالکاہل لگتی ہے۔ جبکہ باہر والی گھر والی اور گھر والی باہر والی لگنے لگتی ہے ۔ اس جہازی مال مسروقہ کی ایک اور خوبی جو کئی جید جہاز خود بیان کرتے ہیں وہ یہ کہ اسکو استعمال کر لینے کے بعد بندہ جو اس وقت صورت جہاَز ادھر گرے ادھر لڑکھڑائے ادھر لڑکھڑائے ادھر گرے کے مصداق ہوتا ہے وہ پورا دن اپنے جہازی تخیل کی بنیاد پر چلتا رہتا اور سر شام جب جہازی صورت سے خدائی عطا کردہ اپنی صورت میں واپسی تشریف لاتا ہے تو وہ ہکا تے بکا رہ جاتا ہے کہ “سویر دا ٹریاں تے شام فیر اتھے ای کھلوتاں” مطلب وہ چلنا خیالی تھا، وہ چلنا جہازی تھا۔اب یہ ہی صورتحال اپنی دھرتی کے سپوتوں کے ساتھ بھی ہے کہ قریب ستر سال قبل خدائی عطا کردہ صورت میں نہیں بلکہ جہازی صورت میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور چونکہ جہازی مال کھرا تھا تو اسکا اثر بھی مصطفی کھر سے زیادہ کھرا تھا اور تخیلاتی قوم تب سے جو اب ہوش میں آنے لگی ہے اور نین جو کھلے ہیں تو انگشت نہیں بلکہ پھر سے دست بدنداں ہیں کے ہم اتنا سفر طے کر چکے تھے مگر کھڑے کیا لیٹے بھی وہیں کہ وہیں ہیں مطلب جھک ماری ہور کی کیتا۔ کچھ جہازوں کو یہاں یہ واہمہ لاحق ہو گیا ہے کہ وہ حرف آخر ہیں دین میں اور کچھ کو یہ خدشہ ہے کہ وہ غلط جگہ پیدا ہو گئے ہیں اور یہ انکے شایان شان مملکت نہ تھی جہاں وہ آن وارد ہوئے ہیں سو احباب گرامی در اصل یہ ایسا کہنے والوں کی غلطی نہیں بلکہ جو دو نمبر جہازی مال انہوں نے عمر بھر ا ستعمال کر رکھا ہے یہ اسکی بدولت ان پر یہ راز افشاں ہو رہے ہیں کہ فلاں کی نیت ایسی تھی اور انکے پیاروں کی نیت ویسی تھی۔ انکی یہ خماری ہے کہ اتر کر نہیں دے رہی اور بقول ہمارے موسیوؔ کے دانشگردی ایک جدید فیسبکی بیماری ہے جسکا تاحال کوئی جائز علاج دریافت نہیں ہو سکا سوائے چند لمحوں کے لیے جہاز بن جانے کے اور کوئی راستہ نہیں ۔ اس سے چھٹکارا پانے کے واسطے جہاز وجہازی عوام اب آپ کریں اپنا انتظام۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں