• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گرے لسٹ میں شمولیت اور گلے پڑتے اثاثے۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

گرے لسٹ میں شمولیت اور گلے پڑتے اثاثے۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے، دنیا بھر کے ممالک کے باہمی مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہوچکے ہیں، جب صورتحال ایسی ہو کہ سعودی عرب اور کویت یا کسی بھی تیل پیدا کرنے والے ملک میں ایک چھوٹی سی تبدیلی ہزاروں کلومیٹر دور ملک میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہو اور ذرائع ابلاغ نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک ہونے والا چھوٹا بڑا واقعہ میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ اور پاکستان تعلقات میں اتار چڑھاو آرہا ہے، ابھی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ ہر جگہ پاکستان کی مخالفت کر رہا ہے اور وہ ملک جس نے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، اس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ دہشتگردوں کا حمایتی ہے۔ عجیب لوگ ہیں، جن کے اسی ہزار لوگ شہید ہو جائیں، جس ملک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے، جس ملک سے سرمایہ کار بھاگ جائیں اور اس کی وجہ فقط بین الاقوامی قوتوں کی خاطر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شمولیت ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ اور اس کے تمام اتحادی پاکستان کے کردار کو سراہتے اور اس کی قربانیوں کی قدر کرتے، مگر یہاں الٹا یہ الزام لگا دیا گیا کہ پاکستان دہشتگردوں کا حمایتی ہے۔

ایسے مواقع پر دوست دشمن کی پہچان ہوتی ہے اور اپنے اداروں کی کارکردگی کو جانچنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں اس اہم موقع پر اپنی خارجہ پالیسی کو بھی دیکھنا ہوگا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جسے ایف اے ٹی ایف کہا جاتا ہے، میں امریکہ نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی، مگر پاکستان کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے ترکی، سعودی عرب اور چائینہ نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہونے سے رہ گیا۔ اس اجلاس سے پہلے امریکہ نے ہوم ورک کیا اور ہم سوئے رہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو یہ لالچ دیا کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف ووٹ دے تو امریکہ سعودی عرب کو ایف اے ٹی ایف کی مستقل رکنیت دلا دے گا۔ یہ ایسا لالچ تھا جسے سعودی عرب جیسی ریاست ایک موقع سمجھ رہی تھی، انہوں نے فوراً امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کا فیصلہ کیا، جس سے پاکستان بھی آگاہ ہوگیا۔

امریکہ اور انڈیا کے دباو میں ترکی بھی ہماری حمایت سے دستبردار ہوگیا۔ ایسی صورتحال میں چائینہ نے کہا کہ ہمارے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان بچ نہیں سکے گا، لہذا ہم کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کرسکتے، جس کا لازمی نتیجہ شکست ہو۔ اس طرح سنتیس رکنی اس ادارے میں کوئی ملک ایسا نہ بچا جو ہماری حمایت کرتا۔ اس کا نتیجہ واضح تھا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا، جس سے پاکستان کو بہت سے معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس قرارداد کو لانے میں امریکہ اور انڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا، انڈیا اور پاکستان کے تعلقات اسی نوعیت کے ہیں کہ یہ کسی بھی صورت میں کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، جس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکتے ہوں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اس نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا ہے، پاکستان کو روس کے خلاف دہائیوں استعمال کیا اور جب پاکستان کو 1971ء میں اس کی مدد کی ضرورت پڑی تو ایسا دھوکہ دیا کہ وطن عزیز ہی دو ٹکڑے ہوگیا ہمیں اس وقت سنبھل جانا چاہیے تھا۔

ضیاء الحق کے دور میں ایف سولہ کی فراہمی کا معاہدہ کیا، اس کے پیسے وصول کرکے ہمیں طیارے دینے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے ہمیشہ ہماری جغرافیائی حدود کو پامال کیا۔ ایمل کانسی کا ڈیرہ غازی خاں سے اغوا کیا، ڈرون حملوں کے ذریعے سینکڑوں بار ناصرف ہماری حدود کی خلاف ورزی کی بلکہ سینکڑوں بے گناہ پاکستانیوں کو بھی شہید کیا اور اسامہ بن لادن ایک دہشتگرد تھا، اسے کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے تھا، اس میں کوئی دو رائے نہیں، مگر اس کو مارنے کے لئے پاکستانی حدود کے تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا اور ریمنڈویس سے لیکر امریکی ایمبیسی کے کرنل تک سفارتی لباس میں پاکستانیوں کا قتل کیا اور امریکہ چلے گئے۔ کچھ اپنی کمزوریوں کا ذکر بھی ضروری ہے، لگتا ہے کہ اب یا تو وزارت خارجہ کے پاس اختیار نہیں تھا یا صلاحیت کا مسئلہ ہے۔ کسی دور میں وزارت خارجہ میں آغا شاہی جیسے لوگ ہوا کرتے تھے، مشکل سے مشکل وقت میں پاکستان کے لئے راستے پیدا کر لیا کرتے تھے اور کسی فورم پر پاکستان کو ہزیمت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔ سنتیس ممالک میں سے تین ممالک کا بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے نہ ہونا ہمارے رواینی حریف انڈیا کی بڑی کامیابی ہے اور ہماری پالیسی میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ اب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے، لوگوں کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا، اس لئے ہمیں اپنی پالیسیوں کو حقیقت پسندانہ بنا کر وطن عزیز کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ ہمارے پاس افغانستان اور کشمیر میں وطن عزیز کے کردار کے حوالے سے ایک تاریخ موجود ہے۔ ہر ملک کی طرح پاکستان بھی اپنے مفادات کے تحفظ میں لگا ہوا ہے۔ اب کچھ پالیساں آوٹ ڈیٹڈ ہوچکی ہیں، انہیں بہت تیزی سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر ہم دنیا کے ساتھ اور دنیا ہمارے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اہم بات یہ ہے کہ حالات کی تبدیلی، ذرائع ابلاغ کی ترقی اور جدید سٹلائیٹ نظام نے بہت سی باتوں کو طشت از بام کر دیا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں، اجمل قصاب کی ویڈیو انڈین میڈیا پر دکھائی جاتی ہے، وہ اپنا ایڈریس بتاتا ہے، ہم سرکاری طور پر اس کی شہریت سے انکاری تھے، مگر ہمارے چینلز نے لائیو دکھا دیا کہ اجمل قصاب کا تعلق پاکستان سے ہے۔

سپاہ صحابہ جو اب اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے، اس نے اپنے قیام سے لیکر آج تک بے گناہ لوگوں کا سر عام بے دریغ قتل عام کیا ہے۔ الیکشن سے پہلے اس کے سربراہ احمد لدھیانوی کا نام شیڈول فور سے نکال دیا گیا ہے، ان کے اکاونٹس بحال کر دیئے گئے اور انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ لشکر طیبہ جس پر اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اسے ملی مسلم لیگ کے نام سے کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حافظ سعید صاحب ہمارے لئے جتنے اہم و محترم ہوں، بین الاقوامی سطح پر انہیں ایک دہشتگرد مانا جاتا ہے، جب وہ ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرتے ہیں اور بین الاقوامی میڈیا اسے رپورٹ کرتا ہے تو ملک کا امیج اچھا نہیں جاتا۔ لدھیانوی اور اس طرح کے جتنے لوگ جن کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، ان پر فوراً پابندی ہونی چاہیے، کیونکہ یہ لوگ ابھی بھی فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔ حافظ سعید صاحب ماضی میں اہم رہے ہوں گے، اسی طرح اچھے اور برے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے نرم گوشہ افغانستان میں مستقبل میں کام آسکتا ہے، اس لئے ان کے لئے مشکلات برداشت کی جا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حافظ سعید صاحب ہوں یا اچھے طالبان، ہمیں ان کے بغیر پاکستان کے لئے کوئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی، کیونکہ یہ لوگ اب دنیا میں دہشتگردی کا نشان بن گئے ہیں۔ سعودی عرب جیسے ممالک جن کے لئے ہم اپنی فوج بھیج رہے ہیں اور اس کے تحفظ کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں، وہ بھی دغا دے جاتا ہے اور ہمارا ساتھ نہیں دیتے، ترکی جس کے صدر کی جیت کے لئے پاکستان میں مسلسل دعائیں کی گئیں اور کچھ لوگوں نے اسے خلافت عثمانیہ کی نشاہ ثانیہ قرار دیا، اس ترکی نے بھی حمایت نہ کی اور چائینہ جس کے دوستی پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے، مگر معاملہ اس قدر خراب ہے کہ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی بھی ہمارے کام نہ آسکی۔ لدھیانوی اور اس طرح کے گروہوں کو جو پاکستانیوں کے خون سے کھیلتے ہیں، جیل میں ہونا چاہیے، حافظ سعید اور اچھے طالبان پر وطن عزیز کے مفادات کو قربان نہ کیا جائے، کیونکہ گرے لسٹ کے بعد اگلا مرحلہ بلیک لسٹ ہونے کا ہے، جس کے بعد ہمارے طلباء، مریضوں اور سکالرز تک کے باہر جانے کے مسائل پیدا ہو جائیں گے اور مالی مشکلات بھی بہت زیادہ ہو جائیں گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply