گدھوں کا نیو ایئر۔۔علی اختر

کہتے ہیں کہ  قدیم زمانہ میں بحیرہ عرب کے کنارے غریب مزدوروں کی ایک بستی آباد تھی۔ بستی کے زیادہ تر افراد قریب کے شہر محنت مزدوری کرنے جایا کرتے تھے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ  محنت اور گدھوں کا صدیوں پرانا ساتھ ہے تو مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کے پاس گدھے بھی تھے ۔ اپنے مالکوں کی مانند  دن بھر خاک چھان کر رات میں روکھی سوکھی کھا کر جب وہ ایک ساتھ اپنے بدبو دار گدھا اصطبل میں باندھے جاتے تو دن بھر کی روداد بھی ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے۔ کوئی  اپنے مالک کی طرف سے زیادہ مال لادنے کی شکایت کرتا تو کوئی  پیٹھ پر چابک کے نشان دکھاتا ۔ غرض گدھوں کی دنیا بھی مالکوں کی مانند مصائب سے بھری تھی۔
جیسا کہ  آپ سب کے علم میں ہے کہ  کنول کیچڑ میں اور ہیرا کوئلے کی کان میں پیدا ہوتا ہے تو ان گدھوں کے اصبل میں بھی ایک گدھا عقیق یمنی کی صورت پیدا ہوا۔

تاریخ اس کے نام کے حوالے سے خاموش ہے لیکن بعض غیر مطبوعہ تاریخ کی کتابوں میں اسے ” منگو ” کا نام دیا گیا ہے۔ سنا ہے کہ  اس کی زندگی پر کوئی  فلم بھی بنی تھی لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ گو یوں تو منگو بھی اور گدھوں کی طرح سارا دن گاڑی کھینچتا تھا لیکن صاحب بصیرت ہونےکی وجہ سے ارد گرد نظر آنے والی چیزوں کا گہرا مشاہدہ بھی کرتا تھا۔
شہر کی  کشادہ سڑکیں، صاف ستھرے مکان، ہرے بھرے درختوں کو حسرت سے دیکھتا۔ سب سے بڑھ کر   امیروں کے گھوڑے اس کی جان جلاتے ۔ جب وہ کسی سڑک پر ٹھکا ٹھک کر کے چلتے کسی صاف ستھرے گھوڑے کو دیکھتا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ گھوڑوں کے صاف ستھرے اصطبل دیکھ کر اس کے  ذہن میں اپنی بدبودار بستی کا خیال گزرتا تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ  جانور ہم دونوں ہیں کام بھی ایک جیسا ہے پھر اسٹیٹس میں اس قدر فرق کیوں ہے ۔ کہتے ہیں کہ  جسم کا کنٹرول روم دماغ ہوتا ہے۔ اگر وہیں کھلبلی مچی ہو تو باقی جسم ناکارہ ہوجاتا ہے۔ بالکل یہی کیفیت منگو کی بھی تھی۔ کام کاج میں دل لگنا بند ہو چکا تھا۔ بس ہر وقت گھوڑوں کی برابری کرنے کا خیال رہتا تھا۔ وہ جلن اب بغاوت کاروپ دھارنے لگی تھی۔ جی ہاں اب وہ ایک باغی منگو تھا۔

ہر عظیم کام کے پیچھے ایک خیال ہوتا ہے ۔ ایک خیال جو دماغ در دماغ وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔ اور ایک نظریہ کاروپ دھار لیتا ہے۔ منگو کے باغیانہ خیالات بھی اب بستی کے مزید گدھوں کو متاثر کر رہے تھے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی چچا فضلو کے گدھے نے زیادہ بوجھ ڈالنے کے خلاف بھوک ہڑتال کردی تھی ۔ چچا فضلو اسے گھاس  ڈالتا رہا لیکن چونکہ گدھا بھوک ہڑتال پر تھا سو گھاس فجر تک ایسی ہی پڑی رہتی لیکن عین فجر کے وقت چچا فضلو کی بکری اس گھاس  پر ہاتھ صاف کرجاتی تھی ،نتیجتاً  گدھا سوکھتا رہا اور بکری دوگنا دودھ دینا شروع ہوگٰئی ۔ اور پھر تیسرے روز گدھے نے بستی کی زیر تعمیر سڑک پر جان دیدی۔ وہ گدھا “منگو باغی تحریک” کا پہلا شہید قرار دیا گیا۔ اس سے اگلے ہی روز چچا فضلو کی بوری بند لاش بستی کے چوراہے پر پڑی تھے اور سینے پر دولتی کے نشانات صاف ظاہر کر رہے تھے کہ  تحریک اب مسلح تحریک بن چکی ہے۔

630 ق م کی آمد آمد تھی ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی شہر میں جشن اور گھوڑوں کی ریس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شہر کے بیچوں بیچ خوبصورت ریس کورس کو سجایا جا رہا تھا۔ بستی کے غریب افراد بھی میلہ دیکھنے اپنی گدھا گاڑیوں پر سوار شہر کی طرف جا رہے تھے۔ ایسے میں گدھا باغی تحریک کے کارکنان نے اپنا آخری اور فیصلہ کن وار کرنے کی پلاننگ کی۔
پروگرام کچھ یوں تھا کہ گھوڑوں کی ریس سے عین پہلے منگو اور اس کے ساتھی ٹریک پر دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو گھوڑوں کے برابر ثابت کر سکتے تھے۔

ٹریک پر گھوڑے لائن سے کھڑے تھے۔ توپ کے دھماکے کے فوراً بعد انہیں ٹریک پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانا تھی لیکن اچانک اس خوبصورت ٹریک پر چند گدھےاپنی گاڑیوں کے ساتھ برآمد ہوتے ہیں اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا کر دوڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ہر طرف ہاؤ ہو کا شور سکوت میں بدل جاتا ہے۔ ہر شخص پر سکتے  کی کیفیت ہے، خوبصورت ٹریک گدھا گاڑی کے فولادی پہیوں تلے کھودا جا چکا ہے، گدھے جیت کی لکیر کی جانب سرپٹ دوڑ رہے ہیں ، سب سے آگے ان کا سردار منگو ہے ۔ جیت کی حد عبور کرکے وہ ایک جگہ کھڑا ہانپ رہا ہے، آج اس نے گھوڑوں سے پہلے سال نو کا جشن منا کر ثابت کردیا کے وہ ان سے برتر ہے۔ آج وہ ہر سزا کے لیے  تیار ہے۔

یہاں مستند تاریخ خاموش ہے لیکن کچھ غیر مستند مؤرخین کے مطابق ٹریک اکھاڑ کر جشن کی دھجیاں اڑانے کے جرم میں باغی گدھوں کو سو سو کوڑوں کی سزا سنائی گئی  تھی ۔ اور ان کے سردار منگو کوخصی کر دیا گیا تھا۔ منگو کی باقی زندگی اسی شہر میں بوجھ اٹھاتے گزری، وہ جہاں سے بھی سر جھکا کر گزرتا شہری اسے ” ابے او خصی ” ، “ابے او خصی” کہہ کر مذاق اڑاتے۔آج بھی گدھوں میں اس کا نام احترام سے لیا جاتا ہے اور اسے “منگؤ اعظم” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس واقعہ کو بیتے صدیاں گزر گئیں، اب اس غریب بستی کی جگہ کراچی نام کا شہر آباد ہے، اور امیروں کے شہر کی جگہ بحریہ ٹاؤن نامی ایک بستی بن چکی ہے آج سن دو ہزار اٹھارہ کی پہلی صبح ہے ، رات بحریہ ٹاؤن میں جشن تھا، اس رات بھی غریبوں کی بستی سے لوگ جشن میں شامل ہونے آئے تھے، جن کے گھر میں چائے بنانے کو چولہا نہیں جلتا انہیں آتش بازی دیکھنی تھی، جہاں مردہ نہلانے کا پانی نہیں وہ فوارے دیکھنا چاہتے تھے، روزانہ آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جھیلنے والے روشنیوں سے دل بہلا رہے تھے۔ راقم روز اس زیر تعمیر شاہراہ سے صبح گزرتا ہے۔ صبح 7بجے نکل کر آج وہ 11بجے دفتر پہنچا ۔ راستے میں کئی  گھنٹے ٹریفک جام میں گزرے ، زیر تعمیر سڑک پر مٹی کے باعث حد نگاہ پانچ فٹ بھی نہیں رہی تھی۔ ایسے میں غریبوں کی بستی کے مکین اپنی گدھا گاڑیوں جیسی سواریاں لیے  ایک دوسرے سے الجھےپڑے تھے ۔ کہیں دور ایک آواز گونج رہی تھی۔
” ابے او خصّی”۔ ٰ

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply