دو مائکرو فکشن

1. شناخت کی موت
…………………
اسے دن کہیے یا رات, بارہ بج کر ایک منٹ پر شناختی کارڈ کے محکمہ میں کام کرنے والے سابق افسر زیڈ کی موت ہو گئی. اسے قتل کیا گیا, اس نے خود کشی کی یا بقول مولوی صاحب اس کی وفات رضائے الہٰی سے ہوئی, کچھ نہیں کہا جا سکتا.
ہمیں یہ بھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ اگر اس نے خودکشی بھی کی ہے تو کیا اسے انجانے ہی میں رضائے الہٰی کہا جائے گا. کیا خودکشی میں خدا کی رضا ہوتی ہے؟
اپنی ریٹائر منٹ سے کچھ عرصہ قبل وہ کافی تبدیل ہو چکے تھے یا لاپرواہ. انہوں نے پرانے کپڑے, جوتے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء لوگوں میں بانٹیں اور ایسی چیزیں خرید لیں جو اس محلہ یا علاقے یا شہر میں کوئی نہیں پہنتا تھا. انہوں نے ہر قسم کے مذہبی اور سیاسی اجلاسوں میں جانا شروع کر دیا تھا. اس دوران مختلف اشتہارات پر انکی طرف سے خصوصی طور پر “منجانب زیڈ صاحب”جیسے فقرات لکھے ہوتے. عرس اور کرکٹ ٹورنامنٹ کے مواقع پر بھی.
اٹھارہ سال کی عمر میں انکی شناختی علامت گال پر زخم کا نشان تھا. اکتیسویں سال یہ ٹوٹے دانت میں تبدیل ہو گیا. انچاسویں سال اسکی جگہ ٹیڑھے بازو نے لے لی. باسٹھویں برس انہوں نے لاٹھی استعمال کرنا شروع کر دی. تریسٹھویں سال اس جگہ پہ لکھا گیا کہ کوئی شناختی علامت نہیں. چھاسٹھویں برس انکے پاس اتنی رقم بھی نہیں بچی کہ گھر کے باہر نام کی نیم پلیٹ لگوا سکیں.
چھیاسٹھویں سال کے کسی دن انکی موت ہو گئی.

Advertisements
julia rana solicitors

2. جین آسٹن کا پاکستانی ناول
……………
اس کہانی میں اگر تھوڑا سا بھی سچ ہے تو وہ یہ ہے کہ جین آسٹن اور جناب ڈارسی نے کبھی شادی نہیں کی. انہوں نے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا تھا. لیکن یہ ساری باتیں نہ تو میری سموسوں سے محبت کم کر سکتی ہیں اور نہ ہی میں لائبریری جانا چھوڑوں گا.
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ انارکلی کے درمیان واقع چائے کے ہوٹل میں بیٹھے جین اور ڈارسی, جیسا مجھے محسوس ہوا کہ میں ابھی ابھی بورخیس کی الف پڑھ کے باہر نکلا تھا اور تقریباً حواس باختہ تھا, صنعتی انقلاب کے بعد کے حالات کو لیکر آبدیدہ تھے. جس میں صنعت کے علاوہ ادب نے بھی ترقی کی تھی. اب مغرب میں نہ تو جین آسٹن کی نفاست کی قدر تھی نہ ڈارسی کے مرتبہ کی. پہلے پہل روس اور اب کیوبا میں حسن و مرتبہ ایک بیزار کن چیز بن چکے تھے.
ان کی حیثیت کا واحد مرکز پاکستان اور ہندوستان بچے تھے. آثار قدیمہ کے ماہرین اس سے مشرق کا مغرب سے دو سو یا تین سو سال پیچھے ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں, اور اسی کو بھانپتے, ان دونوں نے ایسے ناول کا سکرپٹ سوچا جس کی مغرب میں کچھ بھی حیثیت نہیں تھی.

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply