معیشت کے استحکام کے لئے کفایت شعاری لازم ہے۔۔معاویہ یاسین نفیس

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ، معاشی بحران سنگین ہوچکاہے۔مہنگائی کی شدید لہر جو سابقہ  حکومت کی نالائقی کی مرہون منت ہے  وہ اب تک قابو میں نہیں آسکی۔موجودہ حکومت بتدریج اس میں بہتری لانے کے لئے اپنی توانائیاں صَرف کررہی ہے۔

ایسے حالات میں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے حکومت سخت سے سخت فیصلے بھی لے رہی ہے۔اس ضمن میں ، سیاستدان ، اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ ، بیوروکریسی  کے اعلیٰ  عہدیداروں کو چاہیے کہ   بچت کو یقینی بنایا جائے۔حکومت میں شامل اکثریتی وزراء سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں انکی تنخواہیں اور ٹی اے ڈی اے  کے نام پر ملنے والے الاؤنسز ، ہوائی سفری سہولیات کے اخراجات بھی کروڑوں میں بنتے ہیں،اس کو ختم کیاجاناچاہیے۔

ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ رضاکارانہ طور پر ملکی سالمیت ، ملکی ترقی کے لئے کردار اداکرنا چاہتاہے۔اگر روایتی سیاستدان اس پر اعتراض کریں تو انہیں پیچھے دھکیل کر ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں جو رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔اسی طرح اعلیٰ  ججز ، جرنیل ، بیوروکریسی جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں ،انکی  بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں کو آدھی کرکے بقایہ رقم قومی خزانہ میں جمع کروائیں۔

ایسا میکنزم بنائیں کہ اگر رضاکارانہ طور پر یہ تنخواہیں نہیں دیتے تو بطور قرض   انکی آدھی تنخواہیں منہا کی جائیں،اور بعد میں یکمشت انہیں وہ رقم ادا کی جائے۔قومی اسمبلی کا ایک اجلاس کا خرچہ بھی کروڑوں روپے بنتاہے۔خوامخواہ اجلاس ملتوی کرنے ، یا بے بنیاد ابحاث کے انعقاد کے بجائے آئینی کام جس کی ضرورت ناگزیر ہو ،اسکے لئے انعقاد کیاجائے۔سرکاری اداروں کے افسران سے 1300سی سی گاڑی سے اوپر والی گاڑی کی سہولت ختم کرتے ہوئے دیگر مراعات بجلی فری میں کمی کی جائے۔

اس ملک میں اوسطا آبادی لوئر مڈل کلاس ہے اگر ایک عام آدمی اپنا گھر ماہوار چالیس ہزار کی آمدن میں   چلاسکتاہے تو تیرہ لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والا جج چھ لاکھ میں گھر  کیوں نہیں چلاسکتا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یادرکھیں کفایت شعاری کے بغیر ہم دوسروں کی امداد کے سہارے معیشت کو زیادہ دیر مستحکم نہیں رکھ سکتے۔اگر چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو تو ہمیں اپنی عیاشیاں وقتی طور پر موقوف کرناہونگی۔کفایت شعاری مہم کاسہارا لیناہوگا،ورنہ سری لنکا جیسے حالات یہاں پیدا ہونا اچھنبے کی بات نہ ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply