صارفیت ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

سماج کو پیروی کیلئے ایک مثالی پیکر درکار ہوتا ہے، ایک وقت تھا جب مثالی شخصیت ایسی ہستیاں ہوا کرتی تھیں جو علم و ہنر میں ید طولی رکھتے تھے، آج ارب پتی افراد کو مثالی سمجھ کر ان کی پیروی کی جاتی ہے، ایک عالم یا متقی شخص خود کو آسمانی طاقتوں کا غلام کہلوانا پسند کرتا ہے، جبکہ دولتمند خود کو دولت کا غلام نہیں بلکہ مالک کہلواتا ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ غلام ہے، دولتمند یا امیر بننے کی خواہش فطری اور بالکل جائز ہے، لیکن اگر مقصد زندگی یہیں تک محدود ہے تو ایسا شخص اپنی فطرت میں ایک مزہب پسند یا کیمونسٹ سے نچلے درجے پر ہے کہ مذہب پسند اور کیمونسٹ افراد متضاد سہی، لیکن اپنا اپنا مقصد رکھتے ہیں۔

آج سیاست، سائنس اور فنونِ لطیفہ کے شعبہ جات درحقیقت تجارتی ذہن کے زیرِ اثر ہیں،ان کہ ذمہ دای عوام کو اپنے جیسی بلند سطح پہ لانا تھا لیکن پیسے کی دوڑ میں ایسے ماہرین اب خود عوام کی پست سطح پر اتر آئے ہیں، ان ماہرین کے بوجھ تلے عوام مزید نیچے جا رہی ہے، لطیف ترین نکتہ یہ ہے کہ اس دلدلی کنویں سے نکلنے کیلئے اب اوپر کی طرف سعی لاحاصل ہوگی، اس پستی کی رفتار کو بڑھانا ہوگا کہ جلد سے جلد یہ آئینۂ فریب چکنا چور ہو جائے۔

جدیدیت کا سب سے بڑا نقصان مقصد سے دستبرداری ہے، نتیجے میں صارفیت کا پہلو سامنے آیا، بھرپور صارفیت، انسان صدیوں کے سفر کے بعد اسی منزل پر واپس آچکا کہ جہاں مقصد صرف اپنی ذات کیلئے زیادہ سے زیادہ اشیاء جمع کرنا تھا، بس اس فرق کے ساتھ کہ اب اس کا علم اسے اوپر نہیں بلکہ نیچے کی طرف لے جا رہا ہے، صدیوں قبل کے انسان کی صارفیت بھوک تک محدود تھی، اب یہ بھوک اس لیے بیکراں ہے کہ اور کوئی مقصد سامنے نہیں، بھوک، سردی گرمی و دیگر ضروریاتِ زندگی کیلئے ہر انسان تگ ودو کرتا ہے اور کرنی چاہئے، لیکن ان ضروریات کے پورا ہونے کے بعد بھی فرد سیری محسوس نہیں کرتا، اور غیر ضروری اشیاء کو خریدنا اور جمع کرنا اپنا مقصد گردانتا ہے وہ بھی اس لئے کہ لوگوں کو متاثر کیا جا سکے تو مسئلہ گھمبیر جانیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فرد اپنے گرد موجود نظام کے مطابق چلتا ہے، اور موجودہ نظام خالصتا صارفیت پر مبنی ہے، سپارٹا کے رہنے والے کیلئے جنگ اور بہادری ہی زندگی کا مقصد تھا کہ یہی نظام نافذ تھا، قرون وسطی میں مزہبی علوم نے فرد کو گھیر رکھا تھا، آج برینڈ کا دور ہے، موبائل، گاڑی، کپڑے و دیگر اشیاء کے برینڈز، فرد اسی نظام پہ چلا جا رہا ہے،اور معاملہ صرف برینڈز تک محدود نہیں، کیریئر کی دوڑ بھی اسی میں شامل ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت شعوری طور پر سمجھ رکھتی ہے کہ اشیاء، برینڈز اور جدید طرزِ زندگی کے دیگر لوازمات اس کا حقیقی مقصد نہیں لیکن یہ بات صرف سمجھ ہی تک محدود ہے، عملی طور پر فرد صارف ہی کی زندگی گزارتا ہے کہ عادت شعور سے کہیں زیادہ طاقتور ہے ، سینے کے پنجرے میں پلتی خواہشیں عقل کی محتاج نہیں، کسی قیدی کی طرح وہ باہر آنے کو بیتاب رہتی ہیں، بالکل چھوٹے بچے کی طرح جو کسی کھلونے کیلئے بضد ہے، بچے کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ والد کی آمدن کھلونے کی قیمت سے کم ہے، یا یہ کھلونا اس کیلئے فایدہ مند نہیں، یہ باتیں ثانوی ہیں، اہم یہ ہے کہ بچے کو کھلونا چاہئے، اچھا کیریئر، معاشرے میں سراہا جانا، اعلی برینڈز کے تمام لوازمات، اونچے گھر میں شادی اور چاہے جانے کی تمام خواہشیں صارفیت کی علمبردار ہیں، آپ قوت ارادی سے ان خواہشات کو وقتی طور پر دبا سکتے ییں، لیکن انہیں ختم نہیں کر سکتے، کیونکہ صارفیت کا وائرس آپ کے لاشعور میں گھر کر چکا ہے، ان خواہشات کو مسلسل دبائے رکھنے سے فرسٹریشن کی کیفیت سامنے آتی ہے، لوگوں کی قلیل تعداد جو صارفیت کے خلاف ہے، درحقیقت وہ مجبوری کے تحت ایسا کرتے ہیں کہ انہیں مواقع میسر نہیں، موقع ملنے پر ایسے افراد تمام حدود کو پھلانگتے دکھائی دیں گے، ایسا اس لئے ہے کہ ان کے چاروں طرف ماحول اور نظام اس کا شدید متقاضی ہے، ” جنسی کمزوری پر قابو پا لینے والا ادھیڑ عمر فرد اخلاقیات پر بھاشن دینا ترک کر دیتا ہے کہ اس کے پاس اب ان فضولیات کیلئے وقت نہیں “۔
جب زندگی کا مقصد ہی روزمرہ کے معمولات بن جائیں تو فرد کی نگاہیں زمین پر ٹکی رہتی ہیں، آسمان کی طرف نظر اٹھانے کیلئے عظیم مقصد دکار ہے، یہ فیصلہ فرد ہی کو کرنا ہے کہ مقصد مٹی ہے یا افق پر چمکتے ستارے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply