بچے سکول کیسے جائیں گے؟/یاسر جواد

اِس وقت تعلیم کا بازار گرم ہے۔ ریاست کی یہ ذمہ داری پوری طرح نجی شعبے کے سپرد ہو گئی ہے جن کے مالکان کا ایک اپنا طاقت ور پریشر گروپ ہے۔ نجی یا نیم نجی یونیورسٹیوں میں بی ایس کی ڈگری آٹھ سے بارہ لاکھ اور ایم ایس کی بارہ سے بیس لاکھ میں ملتی ہے (اور یوم آزادی پر 50 فیصد کی سیل بھی نہیں لگتی)۔

 

 

 

 

اِس فیس کی بنیاد کسی تعلیمی سطح پر نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی ترجیحات پر ہے جو مخصوص نوکریاں صرف مخصوص اداروں سے پڑھے ہوئے بچوں کو ہی دیتے ہیں، جیسے لمز اور لاہور سکول آف اکنامکس۔ تعلیمی اداروں کے ’معیار‘ کی بنیاد الیکٹرانک سوائیپ کارڈ، کینٹین اور دیگر ٹشن پروگراموں پر بھی ہے۔ جس میں انجوائمنٹ کا عنصر بہت اہم ہے۔ یہ ایجوٹینمنٹ ہے، یعنی ایجوکیشن اور انٹرٹینمنٹ کا ملغوبہ۔

لیکن مزے کی بات ہے کہ اگر گورنمنٹ کالج، کنیئرڈ کالج اور لاہور کالج جیسے کالجوں کی فیس کچھ کم بھی ہے تو پرائیویٹ سکول وین کا خرچ بھی فیس کے برابر ہے۔ اب پٹرول کی قیمت بڑھنے سے جو بجے دو ماہ پہلے مثلاً بارہ ہزار روپے ماہانہ وین والے کو دیتے تھے، اُنھیں پندرہ ہزار روپے دینا پڑیں گے۔ اسی لیے حکومت نے حال ہی میں پرائیویٹ ایم اے کی آپشن بھی ختم کر دی ہے۔ اوپر سے مدرسوں کے طلبا equivalence لے کر برابر آ جاتے ہیں کیونکہ اُن کا گروپ بھی بڑا مضبوط ہے۔

ول ڈیورانٹ بتاتا ہے کہ ارسطو کے مطابق قدیم اٹلی میں کروٹونا کے مغرب میں لوکری (Locri) نامی بستی مین لینڈ یونان سے آئے ہوئے بھگوڑے غلاموں، زناکاروں اور چوروں نے بسائی؛ بالکل ہمارے ملکِ خداداد کی طرح۔ بدنظمی میں مبتلا آبادکاروں نے ڈیلفی کے دارالاستخارہ سے مشورہ مانگا۔ کاہن نے اُنھیں مشورہ دیا: اپنے لیے قوانین بناؤ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم ڈھائی ہزار سال بعد بھی اُلٹ سمت میں جا رہے ہیں۔ ہمیں ہر استخارہ کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ قوانین مسمار کر دو۔ جو لوگ مجھے مایوسی پھیلانے کا مرتکب قرار دیتے ہیں، وہ بتائیں کہ ایک لاکھ کمانے والے والدین کے بچے سکول کیسے جائیں گے؟

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply