9مئی،پی ٹی آئی کی پاکستان کیخلاف سازش/سلیم نقوی

9 مئی 2023 کو کیا ہوا تھا؟ اس کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کے خیال میں اس دن کچھ ایسا خاص نہیں ہوا تھا کہ اس پر اتنا ہنگامہ برپا کیا جائے۔ دوسروں کے نزدیک جو ہوا وہ تمام ریڈ لائنز کی پامالی تھی۔

 

 

 

 

 

 

 

یہاں میں اس بارے میں اپنی رائے دے رہا ہوں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جو میں نے خبریں سن کر، یو ٹیوب کی ویڈیوز دیکھ کر اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی پوسٹس   پڑھ کر قائم کی ہے۔ میری اس واقعے کے کسی فریق، کسی لیڈر، یا کسی افسر یا واقعات میں حصہ لینے والے کسی شخص سے نہ واقفیت ہے اور نہ ان میں سے کسی سے کوئی بات ہوئی ہے۔ اس لیے یہ رائے درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔

میرا خیال ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ خان صاحب کی گرفتاری ان کے چاہنے والوں کی ریڈ لائن تھی، جب ان کو گرفتار کیا گیا تو یہ لوگ بے ساختہ مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے اپنا ‘فطری رد ِعمل’ دکھایا تھا۔ بس اتنی سی بات تھی جس کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے۔

میرے خیال میں یہ ایک بہت سوچی سمجھی اور گہری کارروائی تھی۔اس کارروائی کے تصور میں لانے والوں، اس پر اتفاق کرنے والوں، اس کے لیے حکمتِ عملی طے کرنے والوں، اس کو عملی جامہ پہنانے کی پلاننگ کرنے والوں، اہداف چننے والوں، لوگوں کے درمیان اہداف کی تقسیم کرنے والوں اور واقعے کے دوران احکامات دینے والوں کو اچھی طرح پتہ تھا کہ کیا کِیا جا رہا ہے۔ میں یہ ماننے کو تیار ہوں کہ اس روز اور اس کے اگلے دن عام توڑ پھوڑ کرنے والے کو شاید اندازہ نہ ہو کہ اصل کھیل کیا تھا جس میں وہ پیادوں کے طور پر استعمال کیے گئے۔

خان صاحب نے 9 مئی کو اُلٹا  یعنی 1857برپا کرنا چاہا تھا۔

10 مئی 1857 کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنگال آرمی کے فوجیوں نے میرٹھ میں بغاوت کی تھی جو بعد میں دور دور پھیل گئی تھی اور اس میں بعد میں سویلین شامل ہو گئے تھے۔ 9 مئی 2023 کو خان صاحب سویلین بغاوت اس امید پر کروا رہے تھے کہ بعد میں اس میں فوجی بھی شامل ہو جائیں گے، اور ان کے حق میں برپا کی گئی سویلین بغاوت 14 جولائی 1789 کو انقلاب فرانس کے دوران باستیل جیل پر حملے
Storming of the Bastille
جیسی اہمیت اختیار کر لے گی۔

میرے نزدیک یہ ایک بہت بھیانک منصوبہ تھا جو ناکام ہو گیا۔ وہ یہ تھا کہ جب بھی خان صاحب گرفتار کیے جائیں اس دن بیک وقت ملک بھر کے متعدد شہروں میں فوجی اہداف پر حملے کیے جائیں۔ یہ بات بھی پلاننگ میں شامل ہوگی کہ فوج ان مظاہرین کو روکنے کے لیے گولی چلائے گی اور اس کے نتیجے میں گرنے والی لاشوں کی وجہ سے لوگوں میں فوج کے خلاف مزید اشتعال بڑھے گا۔ یوں فوج اور عوام کے درمیان جھڑپیں ہوں گی جس میں بہت زیادہ لوگ مارے جائیں گے۔ یہ جھڑپیں کچھ عرصے  تک چلیں گی، پھر فوج عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دے گی۔

یہاں سے منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا۔

اس مرحلے پر تین میں سے ایک منظر نامہ سامنے آتا۔ پہلا یہ تھا کہ فوجیوں اور جونئیر افسروں کے عوام پر گولی چلانے سے انکار پر سینئر جرنیل اپنے چیف کے احکامات ماننے سے انکار کر دیں اور اسے برطرف کر دیں/کروا دیں اور خان صاحب کے کسی حمایتی جرنیل کو آرمی چیف لگا دیں۔ اس کے بعد فوج اپنے نئے چیف کی قیادت میں فوری انتخابات کروا کر خان صاحب کو دوبارہ وزیر اعظم بنوا دے۔ اس منظر نامے کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ فوج میں اونچے لیول کی بغاوت کروانا ہوا۔

دوسرا منظر نامہ یہ ہو سکتا تھا کہ آرمی ہائی کمانڈ متحد رہتی اور سپاہی اور جونیئر افسر اپنے سینئروں کے خلاف بغاوت کر دیں اور ہائی کمانڈ کو راستے سے ہٹا کر خان صاحب کو ٹینک پر بٹھا کر وزیر اعظم ہاؤس پہنچا کر ایک فوجی اعلامیے کے ذریعے دوبارہ وزیر اعظم بنا دیں۔ یہ پکیMutiny ہوتی۔ یا عوام انہیں امام خمینی کی طرح کندھوں پر بٹھا کر ایوان اقتدار تک پہنچا دیتے۔

تیسرا امکان یہ تھا کہ فوج ٹوٹ جاتی۔ اس میں دو دھڑے بن جاتے۔ آرمی چیف، کچھ ان کے حامی جنرل اور ان کی زیر کمان افسران اور اہلکار اپنے موقف پر قائم رہتے اور کچھ دوسرے جرنیل اور ان کی کمان کے افسران اور اہلکار جن کی ہمدردیاں خان صاحب کے ساتھ ہوتیں ،دوسرا دھڑا بن جاتے اور ان کے درمیان آتشیں اسلحے سے جنگ ہو جاتی اور بہت خون خرابہ ہوتا۔

ان تینوں منظر ناموں میں یہ بھی ممکن تھا کہ ملک میں خانہ جنگی ہو جاتی۔ خان صاحب کی سال بھر کی تقریروں نے لوگوں کے جذبات اس حد تک برانگیختہ کر دیے تھے کہ عام لوگ تو عام لوگ، ریٹائرڈ فوجی افسران اور اہلکار بھی مکتی باہنی بننے کو تیار تھے اور پاکستان میں ٹرکش ماڈل کے خواب دیکھ رہے تھے۔

یہ صورت حال خان صاحب کے لیے سود مند ضرور تھی لیکن پاکستان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ایسا کیوں سوچتا ہوں؟ میں یہ اس لیے سوچتا ہوں کہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ محض عوام کا بے ساختہ رد عمل نہیں تھا۔ اس میں یہ نہیں ہوا کہ خان صاحب کے چاہنے والے ان کی گرفتاری کی خبر آتے ہی دیوانگی کے عالم میں گھروں سے باہر نکل آئے ہوں اور سامنے جو نظر آیا اسے تباہ و برباد کر دیا ہو۔ ہم سب نے دیکھا کہ لوگ باہر نکلے ضرور، لیکن ان کی حرکیات عام بلوائیوں والی نہیں تھیں۔

لاہور میں لوگ لبرٹی چوک میں جمع ہوئے اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے لیڈر ان کو کور کمانڈر کی رہائش گاہ تک لے گئے۔ راستے میں ہمیں بپھر جانے والا بے ساختہ تشدد دیکھنے میں نہیں ملا، راستے میں پولیس کے ساتھ بھی عام بلوؤں والی جھڑپیں نہیں ہوئیں۔ ان لوگوں نے کور کمانڈر کے گھر اورCSD پر حملے  کیے، وہاں توڑ پھوڑ کی اور ان کو آگ لگا دی۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے ایک گیٹ پر حملہ کیا گیا۔ مردان میں پنجاب ریجمنٹل سینٹر کے قریب کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کی بے حرمتی کی گئی۔ فیصل آباد میں آئي ایس آئی کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ میانوالی میں فضائیہ کے اڈے پر حملہ کیا گیا اور وہاں فخر کی علامت کے طور پر نصب کیے گئے ایم ایم عالم کے جہاز کے نمونے کو آگ لگا دی گئی۔ پشاور میں قلعہ بالا حصار پر حملہ کیا گیا اور کوئٹہ میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا۔

جن مقامات پر حملے کیے گئے اور جس طرح خان صاحب کے جمع ہونے والے چاہنے والوں کو منظم طور پر ان مخصوص مقامات تک لے جایا گیا، جس طرح ان مقامات کے علاوہ دوسری سویلین چیزوں کو نہیں چھیڑا گیا (سوائے پشاور کے، جہاں ریڈیو پاکستان کی عمارت جلا دی گئی) اور جس طرح سے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ان مقامات پر اس موقعے سے پہلے کبھی حملے نہیں کیے گئے تھے اس سے چند چیزیں ظاہر ہوتی ہیں۔
• جن مقامات پر حملے ہوئے ان پر عوام نے اچانک غضبناک ہو کر حملہ نہیں کر دیا تھا، وہ مقامات پہلے سے چنے گئے تھے۔
• جن مقامات پر حملے ہوئے ان کو عوام نے نہیں چنا تھا، بلکہ خان صاحب اور ان کے قریبی لیڈران نے چنا تھا۔
• جن مقامات پر حملے ہوئے وہ ریڈیو پاکستان پشاور کو چھوڑ کر سب کی سب عسکری تنصیبات تھیں۔
• جن مقامات پر حملے ہوئے وہ ریڈیو پاکستان پشاور سمیت ریاست پاکستان کی علامات ہیں۔
• جن مقامات پر حملے ہوئے ان تک لوگوں کو جس طرح رہبری کرتے ہوئے لے جایا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک منظم اور پہلے سے طے شدہ کارروائی تھی اور ان خواتین و حضرات کو پہلے سے پتہ تھا کہ انہیں لوگوں کو کون کون سے اہداف تک لے کر جانا ہے۔

ان سب باتوں کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منظم طریقے سے پلان بنایا گیا تھا کہ اگر خان صاحب کو گرفتار کیا گیا تو کن کن اہداف کو نشانہ بنانا ہے، اور اس کے لیے کس کی کیا ذمہ داری ہوگی۔ عام زبان میں اس کو ‘سازش’ کہتے ہیں۔

جب ایک منظم سازش کے تحت ایک ہی وقت میں متعدد شہروں میں صرف ریاست کی علامات پر حملے کیے جائیں تو اس عمل کو ‘عوام کا بے ساختہ رد عمل’ یا ‘بلوہ’ نہیں کہیں گے بلکہ وہ ‘بغاوت’ کہلائے گا۔

خان صاحب کو اپنے منصوبے پر اتنا اعتماد تھا ان کی گرفتاری کے دوران چیف جسٹس صاحب نے ہر ممکن کوشش کر لی کہ وہ اس کی مذمت کر دیں لیکن انہوں نے نہ صرف مذمت نہیں کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اگلی مرتبہ مجھے گرفتار کرو گے تو اس سے زیادہ ردِ عمل آئے گا۔

اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ سنا یہ ہے کہ جب یہ واقعات پیش آ رہے تھے تب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے فوج میں دراڑ نہ پڑنے دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

دنیا بھر میں فوجی بغاوت کی ترغیب دینا، اس کی پلاننگ کرنا، اس کے لیے لوگوں کو قائل کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ریڈ لائن ہے۔ اس میں شریک لوگوں کو، چاہے وہ فوجی ہوں یا سویلین، بہت سخت سزائیں دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ سزائے موت بھی۔

اس لیے پاکستان میں 9 مئی کو فوجی اہداف پر حملے کرنے والے بلوائی بلکہ باغی ہیں اور ان میں سے جو گرفتار ہو گئے ہیں ان کے ساتھ باغیوں والا سلوک ہونا چاہیے اور اتنی سخت سزائیں دی جانی چاہئیں کہ آئندہ کسی کو ایسی ہمت نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سارے معاملے میں افسوس کی بات یہ ہے کہ خان صاحب نے ان لوگوں کے خلوص اور عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ان سے لا علمی میں ریاست کی ریڈ لائن پامال کروا دی اور اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ یہ میرے لوگ نہیں تھے اور شاید ان کو قانونی مدد بھی نہیں فراہم کی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply