رانی خان کے ہسپتال میں چوری/ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراؤں کے زیر تعمیر ہسپتال میں واردات
انسانی معاشرے اور جنگل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جنگل میں طاقت کا قانون چلتا ہے۔ جنگل میں بیمار، کمزور، لاغر، بوڑھے اور بچے آسان شکار تصور کیئے جاتے ہیں۔ اگر انسانی معاشرے میں بھی طاقت ہی کا قانون نافذ ہو جائے تو پھر اس میں اور جنگل میں ذیادہ فرق نہیں رہتا۔
انسان اور جانور کے بچے بچپن میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے ہیں۔ بچپن کی ہلکی پھلکی لڑائی کا مقصد اپنے ہم عصروں میں بہتر مقام حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہیں سے مستقبل کی درجہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔
انسان نے جب شہر آباد کرنا شروع کیئے، فصلیں اگانا شروع کیں تو قوموں اور قبائل کے درمیان باقاعدہ جنگیں شروع ہوگئیں۔ یہ جنگیں نہایت وحشیانہ ہوا کرتی تھیں۔ کیونکہ ان میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسان نے یہ سیکھنے کی کوشش کی کہ جو لوگ جنگ کا حصہ نہیں ہوتے انھیں قتل نہ کیا جائے۔ خواتین، بچے، بوڑھے اور زخمیوں پر جنگی قانون لاگو نہ کیئے جائیں۔ فصلوں اور پانی کے ذخائر کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ قوانین ہونے کے باوجود ماضی اور حال کا انسان بڑی بے دردی سے اسکی دھجیاں اڑاتا رہا ہے۔
ہینری ڈوناٹ آٹھ مئی 1828ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں پیدا ہوا۔ ہینری کا تعلق کھاتے پیتے کاروباری گھرانے سے تھا۔ خود بھی یہ ساری زندگی کاروبار سے منسلک رہا۔ ڈوناٹ بچپن ہی سے نہایت رحم دل تھا۔ لوگوں کی مدد کرنا پسند کرتا تھا۔ جینوا کے قید خانوں میں جاتا اور قیدیوں کی حالت زار دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوتا۔ قیدیوں سے ملنا انکی مدد کرنا اس نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔
1859ء میں ہینری فرانس کے بادشاہ نپولین بونا پارٹ سوئم سے ملنے فرانس چلا گیا۔ نپولین سوئم مشہور جنگجو نپولین بونا پارٹ کے بھائی کا بیٹا تھا۔ ہینری کی ملاقات کاروباری حوالے سے تھی۔ اسی دوران فرانس اور اٹلی کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس مشہور جنگ کو “سیلفرینوں کی جنگ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہینری نے اس جنگ میں بدترین تباہی کے مناظر دیکھے۔ لوگ مدد کیلئے پکار رہے تھے لیکن کوئی مدد کرنے والا نہ تھا۔ جنگی قیدیوں پر ہونے والا تشدد دیکھ کر ہینری کا دل خون کے آنسوں رونے لگا۔ فرانس سے واپسی پر ہینری نے ” سیلفرینوں کی یاداشت” کے نام سے اپنی شہرہ آفاق کتاب لکھی۔ کتاب کے پہلے حصے میں ہینری نے جنگ کی تباہ کاریوں اور اس سے ہونے والے نقصانات کا ذکر کیا۔ جبکہ دوسرے حصے میں ایسے عالمی ادارے کا ذکر کیا جو جنگ کے دوران امدادی کاروائیاں سر انجام دے گا۔ اس کی کاروائیوں میں مداخلت کو جنگی جرم قرار دیا جائے گا۔ ہینری کی گزارشات نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور ایک سال کے مختصر سے عرصے میں “ریڈ کراس” کا قیام عمل میں آیا۔ 1864ء میں دنیا کے بارہ اہم ترین ممالک نے ایک جنگی جرائم کے بل پر دستخط کیئے جسے پہلی جینوا کنوینشن کہا جاتا ہے۔ 1906ء میں جینوا کنوینشن میں مزید ترامیم کی گئیں۔ پھر پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ جس کی تباہ کاریوں کے بعد 1929ء میں جینوا کنوینشن میں مزید ترامیم کی گئیں۔ نئے قوانین کو کنوینشن کا حصہ بنایا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی طرف سے جینواء کنوینشن کی خوب دھجیاں بکھیری گئیں۔ اسلیئے 1949ء میں قوانین کو مزید سخت بنایا گیا۔ تیسری اور چوتھی کنوینشن میں قوانین کو مزید سخت بنانے کی کوشش کی گئی۔
انسانی معاشرے میں قوانین، جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی روکنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے کام بھی ہیں جو قوانین کا حصہ نہ ہونے باوجود انسان کرتا ہے۔ جسے انسانیت کا قانون کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بس میں کسی خاتون کو کھڑا دیکھ کر جگہ دے دینا۔ بزرگ یا معذور کو دیکھ کر روڈ پار کروا دینا۔ چھت پر بیٹھی چڑیوں کو دانہ ڈال دینا۔ روڈ پر بے ترتیب دوڑتے بچوں کو احتیاط کی ترغیب دینا۔ کسی غریب کی مالی معاونت کرنا۔ کسی غریب بچے کے تعلیمی اخراجات اٹھا لینا، سڑک پر تڑپتے زخمی جانور کی مرہم پٹی کرنا، پانی احتیاط سے استعمال کرنا وغیرہ۔
ہمارا ملک اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ بجلی کے بلوں پر اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بچپن میں والد محترم نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ کراچی میں بنک ڈکیتی کی واردات ہو رہی تھی۔ اتفاق سے اس بنک میں عبدالستار ایدھی صاحب بھی موجود تھے۔ ڈاکوؤں نے ایدھی صاحب کو چھوڑ کر باقی تمام لوگوں سے جمع پونجی چھینی اور فرار ہوگئے۔ چند روز قبل اسلام آباد میں بھی ایک ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے۔ لیکن اسکا حال مختلف تھا۔
چینوٹ سے تعلق رکھنے والی ہماری خواجہ سراء دوست رانی خان بیس سال ناچ گانے کے دھندے سے منسلک رہیں۔ پھر اللہ تعالٰی نے ہدایت دی اور رانی خان نے اسلام آباد میں خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے دنیا کا پہلا مدرسہ بنا لیا۔ لوگوں کو رانی خان کا کام بہت پسند آیا۔ اسطرح رانی خان کو عطیات ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ رانی نے پیسہ اڑانے کے بجائے۔ ان عطیات کو جمع کر کے زمین خرید لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ تعمیر کر لیا- مدرسے میں قرآن پاک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر اور رہائش کی سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ رانی خان نے اسلام آباد کی مختلف مارکیٹوں میں خواجہ سراؤں کو اسٹالز بھی لگا کر دیئے ہیں۔
ہسپتالوں میں ملنے والی ناکافی سہولیات کے پیش نظر رانی خان نے خواجہ سراؤں کیلئے الگ ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ مدرسے سے منسلک پلاٹ خرید کر اس پر تعمیر کا کام شروع کر دیا۔
چند روز قبل رانی خان ایڈز سے متاثرہ ایک خواجہ سراء کی عیادت کیلئے گئیں۔ واپسی پر اسٹالز کا دورہ کیا۔ گھر واپس لوٹیں تو دیکھا کہ زیر تعمیر ہسپتال سے سریہ اور سارا سامان ڈاکو لے اڑے ہیں۔ پولیس میں رپورٹ درج کروانے گئیں تو وہی سلوک ہوا جو خواجہ سراؤں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے۔
ایدھی صاحب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور ہسپتال میں چوری کی واردات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم اخلاقی زوال کی طرف گامزن ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی کے بجائے مزید تنزلی آئی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply