دوست بنانے کے راز/ڈاکٹر خالد سہیل

میرے ایک پاکستانی دوست جو بہت شرمیلے اور تنہائی پسند ہیں جب مجھ سے ملنے کینیڈا تشریف لائے اور ان کی فیملی آف دی ہارٹ کے ممبروں سے ملاقات ہوئی تو ایک شام مجھ سے کہنے لگے

 

 

 

 

 

’ میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ انسان زندگی کی صبح کے وقت اپنے سکول اور کالج کے زمانے میں نئے دوست بناتا ہے۔ اس کے بعد ساری عمر صرف واقف کار ہی بنتے ہیں لیکن آپ نے تو زندگی کی سہ پہر بلکہ شام میں بھی نئے دوست بنائے ہیں۔ میں متجسس ہوں کہ آپ کے نئے دوست بنانے کے راز کیا ہیں؟‘

میں نے کہا یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ ڈیل کارنیگی نے اس پر ایک پوری کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا
HOW TO WIN FRIENDS AND INFLUENCE PEOPLE

جس کا ترجمہ میری بہن عنبرین کوثر” میٹھے بول میں جادو ہے”کرتی ہیں۔ اس کتاب کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ان کے دوستوں کا حلقہ میرے دوستوں کے حلقے سے بھی بڑا بن چکا ہے۔

آج میں آپ کو اپنے نئے دوست بنانے کے چند راز بتاتا ہوں۔

پہلا راز یہ ہے کہ ایک ادیب ’شاعر اور ماہر نفسیات ہونے کے ناطے میں انسانوں کی شخصیت اور نفسیات میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں۔ میرے لیے ہر انسان ایک ادھورا ناول ہے اور میں اس انسان کی دلچسپ کہانی سننا چاہتا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس کے آدرش اور خواب کیا ہیں اور ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس نے کتنی کوششیں کی ہیں اور اسے کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میں لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو ایک کامیاب انسان سمجھتے ہیں یا ناکام انسان اور کیوں؟ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بہت سے ادیب‘ شاعر اور دانشور جنہیں ساری دنیا کامیاب و کامران سمجھتی ہے انہوں نے مجھے سرگوشی کے انداز میں بتایا کہ وہ اپنے آپ کو ناکام سمجھتے ہیں۔

میرا تجربہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے اور چونکہ میں ان کی کہانی بڑی دلچسپی اور دلجمعی سے سننے کو تیار رہتا ہوں اس لیے وہ میرے دوست بن جاتے ہیں۔

میں آپ کو اپنے تازہ ترین دوست کی کہانی سناؤں۔ پچھلے ہفتے میرے دوست ہما دلاور اور زبیر خواجہ کا فون آیا کہ ان کے ایک قریبی دوست حمید صاحب چند دن کے لیے وین کوور سے ٹورانٹو تشریف لائے ہیں اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ اگلے دو ہفتوں کی ہر شام کوئی نہ کوئی ڈنر کی مصروفیت اور دعوت ہے۔ وہ کہنے لگے پھر ناشتے پر آ جائیں۔ چونکہ میں پیر کی صبح کلینک نہیں جاتا اس لیے میں ان کے ہاں ناشتے کے لیے چلا گیا۔

میں حمید صاحب کے بارے میں نہ تو کچھ جانتا تھا اور نہ پہلے کبھی ان سے ملا تھا۔ وہ میرے لیے ایک اجنبی تھے۔

ملنے پر پتہ چلا کہ وہ ایک فنکار ہیں۔ لاہور کے این سی اے کے گریجویٹ ہیں۔ وہ گریجویشن کے بعد سوٹزرلینڈ اور پھر کینیڈا چلے آئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک زمانے میں” ہم سب ” کے مدیر وجاہت مسعود کے ساتھ کام بھی کر چکے ہیں۔ بس پھر کیا تھا

غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست

حمید صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میرے کالموں نے ان کی سوچ کی کئی گرہیں کھول دیں اور میں نے ان کی علم دوستی اور روشن خیالی کی تعریف کی اور اس طرح ہم نے دو گھنٹوں میں دوستی کا وہ فاصلہ طے کر لیا جو بعض لوگوں کے لیے دو سالوں بلکہ دو دہائیوں میں بھی طے کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اگر دو اجنبیوں کے مشترکہ دوست ہوں تو نئے دوست بنانا آسان ہو جاتا ہے۔
نئی دوستی کا دوسرا راز اپنی زندگی کے بارے میں
FREE INFORMATION

دینا ہے۔ بعض لوگ اپنی شرمیلی طبیعت یا کسر نفسی کی وجہ سے کسی بھی محفل میں اپنی ذات اور زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے اور سماجی بخل سے کام لیتے ہیں۔ میں اس حوالے سے فراخ دل واقع ہوا ہوں۔ میں نئے لوگوں سے ملتا ہوں تو انہیں آپ بیتی جگ بیتی اور ہڈ بیتی کی بہت سی کہانیاں سناتا ہوں اور لوگ انہیں نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ یاد بھی رکھتے ہیں۔

میں جب نفسیاتی ہسپتال میں کام کیا کرتا تھا ان دنوں ایک دفعہ مجھے نرسوں کے ایک گروپ نے لنچ پر بلایا۔ میں سمجھا وہ ڈپریشن یا سائیکو تھراپی پر لیکچر سننا چاہتی ہیں۔ کہنے لگیں نہیں ہم لنچ پر آپ کی کہانیاں سننا چاہتی ہیں۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ میرا تعلق پشاور کے قصہ خوانی بازار سے ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں۔

نئے دوست بنانے کا تیسرا راز تواتر سے فون کرنا ہے۔ جب میرا کوئی نیا دوست بنتا ہے یا نئی دوست بنتی ہے تو میں دوستی کا ہوم ورک کرتا ہوں اور ان سے تواتر سے بات چیت کرتا ہوں تا کہ نئی دوستی کی بنیاد مضبوط ہو سکے ایک دفعہ بنیاد پکی ہو جائے تو پھر وقت کے ساتھ ساتھ دوستی کی بلند و بالا عمارت بنتی رہتی ہے۔ وہ دوست جو شہر میں رہتے ہیں میں ان کے ساتھ تواتر سے ڈنر اور ڈائیلاگ کے لیے ملتا ہوں تا کہ محبت پیار اور اپنائیت کا سلسلہ جاری رہے۔

نئے دوست بنانے کا چوتھا راز مشترکہ دلچسپیاں ’مشترکہ آدرش اور مشترکہ خواب ہیں۔
میں ایک ادیب ہوں اس لیے ادبی کام پسند کرتا ہوں۔

میں کینیڈا میں فیملی آف دی ہارٹ کے دوست پرویز صلاح الدین ’رفیق سلطان‘ نسیمہ ’عظمیٰ عزیز‘ زہرہ نقوی ’امیر جعفری‘ سید حسین حیدر ’شاہد اختر‘ شیریں ’حامد یزدانی اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر سیمیناروں کا انتظام و اہتمام کرتا ہوں۔ پچھلے مہینے سائنسدان سہیل زبیری کا لیکچر تھا۔ اس ہفتے شیراز راج کا اور دو ہفتے بعد سویڈن کے سائیں سچا کا لیکچر ہے۔ ان سیمیناروں میں پرانے دوست نئے دوستوں سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔

میں اپنے ادبی دوستوں کے ساتھ مل کر کتابیں بھی لکھتا ہوں پچھلے چند سالوں میں رابعہ الربا ’نعیم اشرف‘ کامران احمد ’مرزا یاسین بیگ‘ حامد یزدانی ’عظمیٰ عزیز اور زہرہ زبیری کے ساتھ کتابیں لکھی ہیں۔ ایسی ادبی کاوشیں دوستی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

دوستی بڑھانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ ادیب ہی ہوں۔ آپ کی جو بھی دلچسپی ہے آپ اس کی بنیاد پر دوستی کی عمارت تعمیر کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ سائنس ہو یا سائیکالوجی ’مذہب ہو یا کلچر‘ نئے نئے کھانے بنانا ہو یا نئے نئے شہروں کی سیر کرنا ہو۔ مشترکہ دلچسپی سے آپ بھی اپنے شہر میں یا انٹرنیٹ پر اپنی فیملی آف دی ہارٹ بنا سکتے ہیں اور زندگی کی خوش رنگیوں سے محظوظ و مسحور ہو سکتے ہیں۔

ایک ماہر نفسیات ہونے کی وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ دوستوں کا حلقہ ہماری ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دوستوں کا حلقہ وسیع ہے کیونکہ ہمارے قلبی دوست

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے دکھوں کو آدھا
اور
ہمارے سکھوں کو دگنا کر دیتے ہیں
وہ مشکل کے وقت ہمارے کام بھی آتے ہیں کیونکہ
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و درماندگی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply