الوداع سر! عطاء الرحمٰن صاحب۔۔آغر ؔندیم سحر

صحافت کا ایک درخشاں باب بندہوا’ایک ایسا صحافی اور کالم نویس رخصت ہو گیا جس نے اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی شکل میں بے تحاشا سرمایہ چھوڑا۔ جس میڈیاگروپ کے ساتھ بھی رہے’انتہائی ایمانداری اور لگن سے کام کیا۔ہزاروں نئے لکھنے والوں کے لیے راستہ بنایا’انھیں لکھنا اور خبر بنانا سکھایا’ہمیشہ سچ لکھا اور بولا۔اپنے ساتھ کام کرنے والے معاصرین اور جونیئرز کو بھی یہی تبلیغ کرتے رہے’نہ خود کبھی کسی سے ڈکٹیشن لی اور نہ شاگردوں کو یہ کرنے دیا۔ان کی کس کس خوبی پہ بات کریں’ان کی کس کس کام کی تحسین کروں ’یقین کریں میرے دل و دماغ میں ان کی یادوں اور باتوں کا ایک جہان آبادہے مگر کالم لکھنا محال ہو رہا ہے۔آج بھی یوں لگ رہا ہے کہ عطاء صاحب کالم کے کسی جملے پر فون کریں گے’تھوڑا سا غصہ کرتے ہوئے آئندہ احتیاط کا مشورہ دیں گے۔میں نے ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو چیز سب سے زیادہ سیکھی وہ تعمیری کام ہے۔وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے‘‘ جو بھی لکھو’یہ سوچ کر لکھو کہ آپ کو پڑھنے والا طبقہ آپ کی بات پر من و عن یقین کرے گا’اگر آپ نے کوئی معلومات غلط لکھی یا کوئی ایساجملہ لکھا جس سے معاشرے میں منفی رجحان پیدا ہوا تو اس کے قصوروار آپ ہوں گے’’۔آج جب ان کے جنازے کے کندھا دے کر واپس آ رہا ہو تو یہی سوچ رہا ہوں کہ میں ایک اور استاد سے محروم ہو گیا۔

دس فروری ۲۰۲۲ء کو میری ان سے آخری دفعہ بات ہوئی۔میرے کالم‘‘لخت لخت کہانی’’کے بعد فون پر بات ہوئی’کالم کے کچھ جملوں پر تبادلہ ہوا اور یوں کتاب کی مبارک باد بھی پیش کی۔میں نے عرض کی کہ‘‘ کتاب آ رہی ہے’آپ سے ملاقات کے لیے بھی حاضر ہونا چاہتا ہوں’’۔آپ نے کتاب چھپنے کے بعد دفتر حاضر ہونے کا حکم دیا اور یوں تین منٹ کی کال کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا،کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری کال ہوگی۔جن دنوں ‘‘نئی بات’’ سے وابستہ ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے’میں دفتر تواتر سے جاتا تھا اور اکثر اوقات عطاء صاحب سے ملاقات بھی ہو جاتی۔جب بھی ملاقات کو حاضر ہوا ’ادب و صحافت سمیت درجنوں موضوعات پر سیرحاصل مکالمہ ہوتا۔ادب سے گہرا شغف تھا اور مجھ سے عموماً شاعری اور فکشن پر بات کرتے’میرے نئے اشعار بھی سنتے اور دیر تک مسکراتے رہتے۔مجھے یاد پڑتا ہے ہے کہ ایک بار میں کسی خبر کے سلسلے میں ان سے ملا’دفتر میں مصروف تھے تو میں باہر انتظار کرنے لگا۔تقریباً ایک گھنٹے بعد جب مصروفیت سے فارغ ہوئے تو میں نے دروازے کھول کے اجازت طلب کی اور ان کے سامنے لگی کرسی پہ بیٹھ گیا۔جب معلوم ہوا کہ ایک گھنٹہ انتظار کیا ہے تو ناراضی سے بولے‘‘آپ اندر تشریف لے آتے’ ایسے ہی اتنا زیادہ انتظار کیا’’۔میں عطاء صاحب سے کبھی کھل کے بات نہیں کر سکتا تھا’ان کی سنیارٹی کی وجہ سے ہمیشہ جھجک محسوس ہوتی’وہ اکثر اس بات کو محسوس کرتے اور مجھے کہتے کہ‘‘بھئی کھل کے بات کیا کرو’اتنا ڈرتے کیوں ہو’’۔

عطاء صاحب ہر اس نئے لکھنے والے کے لیے راستہ ہموار کرتے جس کے اندر کچھ کرنٹ محسوس کرتے۔وہ بلاشبہ ایسے لوگوں میں سے نہیں تھے جو نوواردان کو اس لیے بھی لفٹ نہیں کراتے کہ کہیں ان کے اپنے قد کاٹھ اور تکبر کو نقصان نہ پہنچے بلکہ جب بھی ان سے کوئی نیا لکھنے والا ملتا ’وہ خوش ہوتے اور اسے نہ صرف پلیٹ فارم فراہم کرتے بلکہ درجنوں مشوروں سے بھی نوازتے’راقم اس کی زندہ مثال ہے کہ جس کی قدم قدم رہنمائی فرمائی اور صحافت اور کالم نویسی کے گُر سکھائے۔نئی بات سے میری وابستگی کا آغاز میں مستقل نہیں تھی’کالم کبھی کبھار چھپتا تھا اور اکثر اوقات تو کئی کئی ہفتے کالم نہ چھپتا۔مستقل ہونے کے بعد بھی ایک آدھ بار ایسا ہوا کہ میرا کالم نظرانداز کر دیا جاتا اور میں اس کا شکوہ عطاء صاحب سے ہی کیا کرتا۔پھر مجھے کہنے لگے کہ آپ کالم اخبار کی ای میل کے ساتھ ساتھ میری پرسنل ای میل پہ بھی بھیجا کریں اور تب سے میرا کالم دو ای میلز پر جایا کرتا۔عطاء صاحب پرسنل بھی اسے دیکھتے اور ادارتی بورڈ کو بھی ہمیشہ کہتے کہ اس نوجوان کا کالم ریگولر لگایا کریں۔

عطاء صاحب عام صحافیوں اور کالم نگاروں سے مختلف بھی تھے اور نمایاں بھی۔جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی نظریاتی وابستگی اور محبت کسی سی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔وہ کہا کرتے تھے کہ ‘‘مجھے زندگی میں جن چند باتوں پر فخر ہے’ان میں ایک یہ بھی کہ میں مولانا مودودیؒ کے عقیدت مندوں میں رہا’ان کی صحبت اور قربت سے بہت کچھ سیکھا’’۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عطاء صاحب کا گھر بھی اچھرہ میں تھا اور مولانا مودودیؒ کی رہائش بھی،لہٰذا عطاء صاحب کا زیادہ وقت ان کی صحبت اور محافل میں گزرتا۔ عطاء صاحب کی زندگی میں مولانا مودودیؒ کی تربیت نظر بھی آتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں ان کے جنازے کو کندھا دیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیسا عظیم آدمی تھا جس نے نصف دہائی تک صحافت کی مگر آج تک اپنا گھر کسی کارپوریٹ سیکٹر میں نہ بنا سکا۔انھوں نے دیگر درجنوں صحافیوں کی طرح پیسا نہیں بنایا مگر عزت اور احترام ضرور کمایا۔ان کے جنازے میں درجنوں سینئرز صحافیوں اور کالم نگاروں کو روتا دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی عطاء صاحب جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں’عطاء صاحب نے جیسے صحافت خدمتِ خلق سمجھ کر کی’ایسی صحافت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔عطاء صاحب بلاشبہ ایک ہی تھے’ان جیسا مردم شناس’زندہ دل اور محبت کرنے والا صحافی دوبارہ تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔میں چودھری عبدالخالق سمیت نئی بات میڈیا گروپ کی پوری ٹیم سے تعزیت کرتا ہوں کیوں ہم سب کا سکھ سانجھا ہے’ہم سب ایک ایسے سائبان سے محروم ہو گئے جس نے اپنے چھتر چھاؤں میں ہمیں کبھی تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا اور اپنا دستِ شفقت ہمیشہ ہمارے سروں پر رکھا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply