آزادی اور تقسیم کی کہانی اشراف کی زبانی

قومیت اور مذھبیت کی بنیاد پر آزادی اور تقسیم کا مطالبہ ہمیشہ اشرافیہ یعنی ایلیٹ کلاس کا ایجنڈا رہا ہے، جسے عوام پر مسلط کیا جاتا ہے اور پھر عوام اسے اپنا ایجنڈا سمجھ لیتے ہیں۔
جمہوریت کے دور سے پہلے ایلیٹ کلاس یعنی اشرافیہ یہی مقاصد اپنی قوم و قبیلے کی نسلی عصبیت کی طاقت سے حاصل کیا کرتی تھی۔ ایک بادشاہ یا سردار قبیلہ دوسرے سے لڑتا تھا۔ اس صورت میں اقتدار کے حریص دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی مکمل فتح اور قبضہ ہو جاتا یا پھر جزوی تقسیم کے کسی فارمولے پر دونوں کا اتفاق ہو جاتا۔ لیکن عوام کے لیے ان فریقین کی جنگوں سے پہلے اور بعد حالات یکساں ہوتے تھے۔ جو ٹیکس، باج اور خراج وہ پہلے ایک حاکم کو دیتے تھے اور اپنے لیے جینا کا حق حاصل کیا کرتے تھے، وہ اب دوسرے کو دے کر اس سے جینے کا حق حاصل کیا کرتے تھے۔
جنگ ہوتی ہی زمین، ٹیکس، باج اور خراج کے لیے تھی۔ عوام اس حقیقت سے آشنا تھے اس لیے ان کے نزدیک صرف حکمران بدلتا تھا نتیجہ ایک ہی ہوتا تھا، اس لیے انہیں فرق نہیں پڑتا تھا کہ حکمران ان کے مذھب کا ہے یا غیر مذھب کا، ان کی قوم کا ہے یا غیر قوم کا۔
برصغیر کی ساری تاریخ پڑھ لیجیے۔ آبادی کے مذھب اور قومیت کا فرق حکمران بننے میں کہیں آڑے نہیں آتا تھا، فوج میں بلا استثنا ہر مذھب و قوم کے لوگ شامل ہوتے تھے، لشکری بھی مذھب و قومیت کا فرق کیے بغیر، اپنے ہم مذھب اور ہم قوم لشکریوں سے لڑتے تھے۔
جمہوریت کے آنے کے بعد طاقت کا منبع عوام کو منتقل ہوگیا۔ اس بنا پر اشرافیہ کو حکومت کے حصول کے لیے نئی پالیسی بنانی پڑی۔ جہاں پہلے ان کی قوم و قبیلہ اور ان کے لشکری ان کے لیے جانیں قربان کر کے ان کے اقتدار راستہ ہموار کیا کرتے تھے، اب اس کی جگہ عوام کو استعمال کرنا پڑا۔ ایک مسئلہ، لیکن اشرافیہ کو یہ پیش آیا کہ ان کا عوام سے براہ راست رابطہ نہیں تھا، انہیں عوام سے بات کرنے کا ہنر نہیں آتا تھا، انہوں نے عوام کو ہمیشہ محض باج گزار مزارعوں کی حیثیت سے دیکھا تھا، انہیں ڈھنگ نہیں آتا تھا کس طرح عوام کو اپنے ان مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔
اپنے کاموں میں جتے ہوئے، اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے میں لگے ہوئے لوگ، مذھب و قومیت کے فرق کے بغیر، باہمی سماجی تعاون سے اپنے جینے اور جیتے رہنے کی جدو جہد میں منہمک لوگوں کو کیسے سیاسی پارٹی بنایا جائے؟ حال یہ تھا کہ ان عام لوگوں کے آپس میں جھگڑے بھی اگر ہوتے تو اس کی بنیاد کوئی سماجی تعامل ہی ہوتا تھا، نہ کہ کسی نظریے کی بنیاد پر وہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے لڑتے تھے۔
اشرافیہ کو تو محض نسلی بنیادوں پر لڑانا آتا تھا۔ جمہوریت کی وجہ سے بادشاہ گری کی ساری طاقت عوام میں بکھر گئی تھی، جن کے ساتھ ان کا نسلی رشتہ نہیں تھا۔ اب وہ کیسے عوام کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرتے؟
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہوں نے مڈل مین کے طور پر پڑھے لکھے مڈل کلاسیوں کو ہائر کیا۔ ان کا عوام اور اشراف دونوں سے رابطہ ہوتا تھا۔ مڈل کلاس جو ہمیشہ سے اشراف کی نوکر چلی آ رہی تھی، اس دفعہ پھر اسے نئی نوکری پر بلایا گیا اور سیاسی گاڑی کا کوچوان بنا دیا گیا۔
ادھر پہلی بار مڈل کلاس کو اشرافیہ کو اپنے پیچھے لگانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اشرافیہ کے خرچے پر لیڈری کا لطف لینے، عوام کا رہنما بننے اور اور ممکنہ طور پر عوام کے ساتھ اشراف کا بھی حکمران بننے کا راستہ بھی انہیں نظر آنے لگا۔ ایک ہی کشتی کے ان سواروں میں محبت و نفرت کا یہ کھیل تاریخ کے کسی طالب علم سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس طرح ایلیٹ کلاس اور مڈل کلاس ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے لیکن حقیقتًا استعمال کوئی ہوا ہے تو وہ تھے عوام۔
جمہوری دور کے عوام کے پیشرو عوام زیادہ سمجھ دار تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ بادشاہوں کی ساری جنگ باج اور خراج کے لیے تھی۔ اس لیے وہ اس جنگ میں نہیں پڑتے تھے۔ لیکن جمہوریت کے دور کے عوام کو بڑی محنت سے بے وقوف بنایا گیا تھا۔ انہیں قومیت اور مذھبیت جیسی امتیازات کی بنا پر باور کرایا کرایا گیا کہ باج اور خراج اپنے ہم قوم اور ہم مذھب کو دینا ہی قومیت اور مذھبیت کا تقاضا ہے۔
عوام جھانسے میں آ گئی، اس نے اشرافیہ کے فوجیوں کی جگہ سنبھال لی۔ وہ جنگ جو اشرافیہ کی خاطر سرحدوں پر فوجیوں کے ذریعے لڑی جاتی تھی، اب وہ جنگ انہیں اشرافیہ کے لیے گلی محلوں میں لڑی گئی۔ وہ جنگ جو فوجی، فوجی سے لڑتے تھے، وہ جنگ عوام نے عوام سے لڑی۔ فوجی تو لڑتے ہی لڑنے کے لیے تھے، عوام کیوں لڑ رہے تھے؟ محض اس لیے کہ ان کے ٹیکسوں کا مستحق ‘الف’ نہیں ‘ب’ ہوگا۔ اصل مسئلہ بس یہی تھا جسے قومیت اور مذھبیت کی گلکاریوں میں چھپا دیا گیا تھا۔
منگل پانڈے اگر پہلے انگریز کی نوکری کرتا تھا تو اس کی آزادی کی مطلب اب اپنے ہم قوم اور ہم مذھب کی نوکری کرنا تھی۔ اس کے لیے غیر قوم کے حاکم کے کہنے سے اپنے ہم قوم پر گولی چلانا غلط تھا، لیکن اب اپنے ہم قوم حاکم کے کہنے سے اپنے ہم قوم پر گولی چلانا جائز تھا۔ منگل پانڈے کے لیے یہ جنگ مجض باس (Boss) بدلنے کی جنگ تھی۔تبدیلی بس اتنی ہی آئی تھی۔
بس اتنی تبدیلی کے لیے بساط بچھائی گئی تھی، بس اسی لیے نقشے ترتیب دییے گیے تھے، جس کی لکیروں کو جمہوری عوام نے اپنے خون سے بھر دیا تھا۔
کیا یہ ماضی کا افسانہ ہے؟ ہرگز نہیں، یہ حال کی تصویر ہے، اور شاید مستقبل کی بھی، اگر کوئی سمجھے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply