اخلاقی نفسیات (10) ۔ حرمت/وہاراامباکر

اخلاقیات کو کھوجنے کے لئے جوناتھن ہائیٹ نے درجنوں کہانیاں بنائیں جن کا تعلق بے حُرمتی سے تھا۔ مثلاً۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“ایک شخص اکیلا رہتا ہے۔ اس نے الماری کھولی۔ وہاں پر قومی جھنڈا رکھا تھا جو یومِ آزادی پر لیا تھا۔ اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس نے اس جھنڈے کو پھاڑ کر ٹوائلٹ صاف کرنے کا کپڑا بنا لیا۔ کیا اس میں کچھ غلط ہے؟”۔
اس سوال کے ملنے والے جوابات میں جو دلچسپ ہے، وہ خود جواب نہیں بلکہ اس جواب کی وجہ ہے۔
“ہو سکتا ہے کہ بعد میں ایسا کرنے پر اسے پشیمانی ہو”۔“ہو سکتا ہے کہ اسے کوئی ہمسایہ دیکھ لے اور ہمسائے کی دل آزادی ہو”۔ اور جب جواب دینے والے کو نشاندہی کی جائے کہ یہ وجوہات کمزور ہیں۔ (نہیں، ہمسایہ اسے نہیں دیکھ رہا)۔ تو بھی جواب دینے والے مزید وجوہات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ “مجھے پتا ہے کہ یہ غلط ہے لیکن میں وجہ نہیں بتا پا رہا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر شرکا اپنے جواب کی توجیہہ پیش کر رہے ہیں۔ اس کو ڈھونڈنے پر محنت کر رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہاں پر وہ سچ کو تلاش نہیں کر رہے بلکہ اپنے جذباتی ری ایکشن کی سپورٹ کے لئے کچھ تلاش ہے۔
ڈیوڈ ہیوم کا کہنا ہے کہ “عقل جذبات کی غلام ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے”۔
“کیا ایسا ہی ہونا چاہیے؟” کے سوال کو ابھی ملتوی کر دیتے ہیں۔ جہاں تک اس کے پہلے فقرے کا تعلق ہے تو اس کے حق میں شواہد ہیں۔ جذبات کے فیصلوں کی عقل سے توجیہہ کی جاتی ہے۔ اور اس کو عقلی بنیاد پر سمجھنا ایک چیلنج ہے۔
لیکن ایک کے بعد دوسرے آنے والے نتیجے نے اخلاقی نفسیات کے شعبے کو تبدیل کر دیا اور اسے جذبات کی سمت لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی چند اقساط میں ہم نے جو دیکھا ہے، اس کو سمیٹتے ہوئے۔۔۔
اخلاقیات کہاں سے آتی ہے؟ اس کے سب سے مقبول جواب دو ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ جبلی طور پر ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ (یہ nativist جواب ہے)۔ دوسرا یہ کہ یہ بچپن کی تربیت سے سیکھی جاتی ہے۔ (یہ empiricist جواب ہے)۔
ایک تیسرا جواب عقلیت پسندی (rationalist) کا ہے جو بیسویں صدی کے آخر میں غالب تھا۔ اس کے مطابق بچے اس کو عمر کے ساتھ ساتھ خود سیکھتے ہیں۔ بچوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تکلیف پہنچانا غلط ہے کیونکہ وہ خود تکلیف پہنچنے سے بچنا چاہتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ یہ بات سیکھ جاتے ہیں کہ اس وجہ سے دوسروں کو تکلیف پہنچانا بھی غلط ہے۔ اور اس سے وہ انصاف کے اصول تک پہنچتے ہیں۔
لیکن اس جواب کے ساتھ جو مسائل ہیں، وہ یہ کہ
اخلاقیات کا تعلق کلچر سے ہے۔ انفرادیت پسند اور اجتماعیت پسند کلچرز میں اس کی نوعیت میں فرق ہے۔
لوگ ناگواری اور بے حرمتی کے احساس کی بنا پر اخلاقی ریزننگ دیتے ہیں۔
ایک فرد اخلاقیات کو مکمل طور پر خود نہیں سمجھ سکتا۔ سیکھنے اور تربیت کا اس میں اس سے زیادہ کردار ہے جو ریشنلسٹ تھیوری دیتی ہے۔
اگر اخلاقیات بنیادی طور پر ریزننگ سے نہیں آتی تو پھر اس کے امیدوار جبلت اور سماجی تربیت ہیں۔
اب اگلے حصوں میں ہم ان دونوں پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ ہم پیدائشی طور پر اخلاقی مخلوق ہیں لیکن ہمیں جو بات سیکھنی پڑتی ہے، وہ یہ کہ ہمارے جیسے لوگ اپنی اس خاصیت کو استعمال کہاں پر اور کیسے کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply