عمران خان صاحب کی “میں”۔۔محمد وقاص رشید

یہ سن 2001 کی بات ہے جب میں ڈپلومہ کرنے  کے بعد کسی اچھی نوکری کی شدید تلاش میں تھا۔ لاہور کی ایک کمپنی کے چیف ایگزیکٹو صاحب میرا انٹرویو کر رہے تھے اور میں سینے کی دیواروں سے زور زور سے ٹکراتے    ،دل ہی دل میں  اپنے خدا سے اس نوکری کے لیے ہر دعا کر رہا تھا۔ مجھے یہ جان کر شدید حیرانگی ہوئی کہ چیف صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمہاری Instrument Calibration Inspector کی نوکری کا انحصار اس ایک سوال کے جواب پر ہے۔ شستہ انگریزی میں انہوں نے پوچھا

“تم ایک ٹیم کا حصہ بنو گے جو مختلف پراجیکٹس کرے گی تمہیں اسکی رپورٹ لکھ کر مجھے جمع کروانی ہو گی۔ رپورٹ میں لکھا ہوا بس ایک لفظ مجھے بتاؤ   کہ جس سے یہ چابت ہو  تم ایک اچھے ٹیم ورکر ہو ،وہ لفظ کیا ہے ؟

رات دیر تک انسٹرومنٹیشن کی کتابوں کو رٹہ لگانے والے “ٹیکنیشن” کے تو اوپر سے گزر گیا سوال۔۔ نوکری جانے کے خوف سے دل اور دھڑکا کہ اچانک ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح خدا جانے کہاں سے ذہن میں اُبھرا۔

چیف صاحب کے چہرے پر ایک سنجیدگی آ چکی تھی۔۔ میں نے کہا

Even if I have a single helper with me I will write, we have done it۔

چیف صاحب کے چہرے کی مسکراہٹ 5000 روپے کی اس نوکری سے میرا سرمایہءِ حیات بن گئی۔ کیونکہ وہ تنخواہ مجھ سے لیتے ہوئے بابا مرحوم کی آنکھوں کی نمی معیشت کی کھیتی کو اب تک سیراب کر رہی ہے۔ شکر خدا کا!

وہ دن اور آج کا دن ایک سوال اور اسکے جواب پر ملنے والی نوکری یعنی سرمایہءِ حیات نے زندگی بھر کے لیے مل جل کر کام کرنے کا فلسفہ سمجھا دیا۔

عمران خان صاحب نے ورلڈ کپ جیتا تو فائنل جیت کر ٹرافی اٹھاتے ہوئے ایک لفظ کہا جس لفظ سے انکی ساری شخصیت اور اندازِ فکر ظاہر ہوا اور اس پر انہیں بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہی لفظ تھا جس کے جواب میں مجھے میری منزل ملی تھی اور یہ وہی لفظ ہے جسکی وجہ سے آج اس قوم کی راہ کھوٹی ہے۔ انہوں نے ٹرافی اٹھاتے ہوئے کہا۔۔ I” won the world cup”۔

اس” I” یعنی “میں” کے پیچھے چھپی ہوئی فسطائیت اور نرگسیت آج پوری ملکی فضا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ 22 سالہ سیاسی جدوجہد جسکا طالبِ علم بھی حصہ رہا ،اس “میں” کو پروان چڑھانے پر احساسِ ندامت کا شکار ہے۔ یہ میں جب بلند و بانگ دعوؤں کے نتیجے میں حکمرانی کی اصل آماجگاہوں میں سنی گئی تو وہاں پر کیے گئے مصلحت کش سجدوں سے مزید تکبر اور گھمنڈ میں ملفوف ہو کر اقتدار پر مسند نشین ہوئی۔

اس “مَیں” کو روز ٹی وی پر آکر خود میں مزید انانیت بھرنے کا سودا یوں سر پر سوار ہوا کہ انہوں نے ملک کو بھی ایک ورلڈ کپ ہی سمجھ لیا۔ میں ہار نہیں مانتا ، میں آخری گیند تک لڑوں گا ، میں مقابلہ کرنا جانتا ہوں ، جب میں انگلینڈ میں کرکٹ کھیلتا تھا ، مجھے کیا ضرورت تھی سیاست کی۔ میں میں اور بس میں۔۔

ایک 22 کروڑ کی قوم کے سربراہِ مملکت کی بجائے 11 کھلاڑیوں کی ٹیم کے کپتان تک محدود رہنے والی نرگسیت اور فسطائیت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اپنی انا کی بھینٹ ملک و قوم کو چڑھانے کی بجائے یہ کہے کہ میں اپنی اس “مَیں” کو قربان کر کے “ہم” کے فلسفے کے مطابق نظام کے اندر رہ کر ایک ارتقائی سفر سے اسے بہتری کی طرف لے کر جاتا ہوں ،جیسے دنیا کا ہر سسٹم جاتا ہے۔ ۔کہ اندرونی طور پر کوئی قوم ہم کے فلسفے کے بغیر بیرونی طور پر “مَیں” کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتی۔

خود پسندی اور خود سری کا عالم یہ تک ہو گیا کہ اسمبلی میں آتے ہوئے حکومتی بینچوں کی کرسیوں کے درمیان سے گزر کر تشریف لاتے تاکہ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہ ملانا پڑے اور رخ پھیر کر بیٹھ جاتے۔ خدا کی پناہ!

اپنے سیاسی مفاد کے لیے سماج کی بنت میں نفرت کی تار کشی کے ایسے ایسے مناظر کہ الامان الحفیظ۔۔۔ رحمت للعالمینﷺ  کانفرنس کے عین ان جملوں کے درمیان اپنے سیاسی مخالفین کی مخالفت کے ذریعے اپنی قوم میں انتشار پھیلانا کہ “ہمارے نبی ص لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آئے تھے”۔

اس “مَیں” کو اپنے لیے تریاق اور قوم کے لیے زہرِ قاتل بنانے کے لیے خوش آمدیوں کا ایک ایسا ٹولہ وزیروں اور مشیروں کی صورت رکھ لیا جنہوں نے اپنی وزارتوں اور مشاورتوں میں اپنا اپنا کام کرنے کی بجائے ایک وطیرہ بنا لیا کہ مخالفین کو گالیاں دینا اور خان صاحب کو سایہ ءِ خدائے ذوالجلال ثابت کرنا اور بس نوکری پکی۔ میں نے یہ الفاظ محض عبارت کو خوب صورت بنانے کے لیے نہیں لکھے آپ اس وزیر کا ویڈیو بیان سن لیں جس نے جان اللہ کو دوسروں سے زیادہ دینی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ،اہلِ بیت اور چاروں خلفاءِ راشدین نے جو عَلم تھاما تھا وہی عمران خان نے تھاما ہے۔

پاکستان میں وہ نظام لے کر آؤں گا جو اس سے پہلے آیا ہی نہیں کا اعلان شروع میں ہی اسی “میں” کی تسکین کے لیے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی خو کے ساتھ دو سال عوام کو شدید معاشی مشکلات دینے کے بعد اس اعتراف پر پہنچا کہ “پہلے ڈیڑھ سال تو “معیشت” کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ لیکن گردن کا سریا جن کو روز گالیاں دیتے رہے انہی کے وزراءِ خزانہ کو یکے بعد دیگرے اپنی تبدیلی کے جنازے کو کاندھا دے کر بھی نہیں نکلا۔

زیادہ دکھ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ کیمرے کے پیچھے کیے گئے سجدوں کی خاک اپنی پیشانی سے مٹانے کے لیے کیمرے کے سامنے آکر مجھ جیسے جذباتیت کے ماروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کانوں میں مَیں مَیں مَیں کا زہر اور زیادہ انڈیلا گیا۔ کیمرے کے پیچھے کی گئی مصلحتوں کے صاف انکار نے خان صاحب کو تو دوہری شخصیت بنایا ہی لیکن اس سے زیادہ نقصان یہ کیا کہ انکے عشاق کی اکثریت بھی ان دوہرے معیارات کا ملغوبہ دکھائی دیتی ہے۔ جو بیک وقت دوسروں کو پاکستان سے لندن تک انکے گھروں میں جا کر چور چور کہنے اور بدزبانی کرنے کے دوران انہی اصولوں پر عمران خان کے اپنے ساتھیوں اور انکی وزارتِ عظمی کے لیے تن من دھن مارنے والوں کے سوالات کے جوابات مانگنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ یہ تک سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ خان صاحب اور انکے ارب پتی حواریوں نے ملک میں کرپشن کرپشن ،چور چور اور ڈاکو ڈاکو کہہ کہہ کر پورے دیس کی فضاؤں کو پراگندہ کر رکھا ہے اسی کرپشن میں انکی اپنی حکومت میں صادق اور امین ناک کے نیچے ملک کرپشن ہی میں چار درجے کیسے اوپر چلا گیا۔  ؟

اب عالم یہ ہے کہ ٹی وی چینلز انکی ایک ایک گھنٹے کی تقریر میں۔۔۔مَیں ،میرا ،مجھے، کے الفاظ ہی گننے لگے۔ جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچنے لگی۔

عمران خان صاحب کی اس “مَیں” نے پاکستان میں بہت سارے بحران پیدا کیے۔ کیونکہ ان کی “مَیں” گوارہ نہیں کرتی تھی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا خود کشی کر لینا تھا اس لیے دیر سے آئی ایم ایف کے پاس گئے جس کی وجہ سے بڑا معاشی بحران آیا ، عمران خان نے خود کو دوسروں سے اعلی ٰ و ارفع ثابت کرنے کے لیے جو بدزبانی شروع کی وہ ڈینگی برادران سے چوہوں تک پہنچ چکی اور بد بختی کہ اس پر وہ جلسوں میں نوجوانواں کو بلا کر ان کی یہ تربیت بھی کرتے ہیں اور پھر اس پراگندگی  کو  سوشل میڈیا  پر بھر دیا  جاتا ہے آپ اخلاقی بحران کا عالم یہ ملاحظہ کریں کہ جو گالی گلوچ خان صاحب کرتے ہیں انکے ارب پتی حواری ان الفاظ کی کاپی کرنے لگتے ہیں جسکی مثال کل رات کے علی زیدی اور علی امین گنڈا پور کے بولے ہوئے الفاظ ہیں اور تو اور انکے ایک عاشق نے تین چوہے گانا بھی بنا دیا۔۔۔ اب یہ گانا جلسوں میں بجے گا اور خان صاحب اس پر قہقہے لگائیں گے کہ اب بنی نہ عمران خان کی مدینے کی ریاست۔

انکی اس   “میں “نے اس پیارے وطن کو معاشی ، اخلاقی ،سیاسی اور سماجی بحران دینے کے بعد جاتے جاتے آئینی بحران دینے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ ایک رات پہلے 72،172 کی گنتی کے ساتھ اپنے لیے کربلا کی مثال دینے والے عمران خان کے بد دیانت مذہب کارڈ کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جب وہ کربلا میں کائنات کی قیمتی اور مقدس ترین جانیں نچھاور کرنے کی مثال دے کر اپنے خوش آمدی وزیروں مشیروں کی طرح خود کو حسین اور مخالفین کو یزید ثابت کر رہے تھے اس وقت وہ جانتے تھے کہ صبح وہ اس گنتی کی نوبت ہی نہیں آنے دیں گے۔ اور ڈپٹی سپیکر سے ایک آئینی معاملے کو آرٹیکل 5 کے تحت مسترد کروا کر اسمبلیاں توڑ دیں گے۔

ان تمام بحرانوں کو محدود حافظے اور لا محدود ہاضمے والی قوم ہضم کر جائے گی۔ لیکن سب سے بڑا بحران انہوں  نے جو اس قوم کو دیا وہ جاتے جاتے ایک ایسا آئینی بحران جو کہ ایک سماجی بحران کو جنم دے گا۔ انہوں نے امر بالمعروف کے نام پر لوگوں کو اسلام آباد میں بلا کر ایک سفارتی کیبل کو دھمکی آمیز خط کہہ کر جھوٹ بولا ،جو انکے قوم کے نام خطاب پر “ایک پیغام” کے الفاظ میں بدل گیا۔

سکیورٹی کونسل کے اعلامیے اور اس پر عمران خان کے خطرناک سیاسی بیانیے میں بھی واضح فرق ہے۔ ملک کے تقریبا ً تمام بڑے قانون دانوں کی نظر میں یہ ایک غیر آئینی اقدام ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ اس معاملے کو آئینِ پاکستان کے مطابق ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم سے صدر تک اجتہادی غلطی یا Misinterpretation of Law قرار دے کر بے شک سزا نہ دے لیکن اسے غیر آئینی قرار دے کر پاکستان کو ایک بہت بڑے سماجی بحران سے بچا سکتی ہے۔ جس ایک ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والی جماعت  نے چار کروڑ ووٹ لینے والی باقی جماعتوں کو غدار قرار دے دیا۔ پٹواری اور یوتھیے کی تقسیم میں یہ غدار اور محب وطن والا انتشار بھی شامل ہو جائے غدار او ر وہ زہر آلود خلیج اور بڑی ہو جائے جس میں پہلے بھی آدھا دیس کھو چکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس وطن کو ایک نرگسیت اور فسطائیت کے مارے ہوئے آدمی کی “میں” کا شکار ہونے سے بچا لے جس سے کبھی کسی نے “میں” کو مارنے والا انٹرویو نہیں لیا۔
خدایا خیر!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply