پاکستان اور فنون لطیفہ /انور مختار

فنون لطیفہ (fine arts) جمالیاتی حس کے اظہار کا ذریعہ ہے ادب، موسیقی، مصوری، سنگ تراشی، شاعری اور رقص فنونِ لطیفہ کی شاخیں ہیں۔فنون لطیفہ اور شخصی آزادی فطرت کی نوازشات ہیں اور انِ سے انکار نہ صرف فطرت سے انکار ہے بلکہ معاشرہ کو مرگ کی شاہراہ پر گامزن کرانے کے مترادف بھی ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اگر آج دنیا بھرکی اکانومی پرراج کررہے ہیں تو اس میں سب سے اہم کردار بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کا ہی ہے مگر ان ممالک میں فنونِ لطیفہ کا ایک اہم کردار ھے کیونکہ فنونِ لطیفہ انسان کو امن ، چین اور سچے جذبوں سے ہمکنار کرتی ہے آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو وطن عزیز پاکستان کو آئے روز انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے ادب، ادیب اور فنون لطیفہ انتہا پسندی کو روکنے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ادیب اور فنکار بڑے حساس اور انسان دوست ہوا کرتے ہیں۔ یہ بدلتے ہوئے حالات کا نہ صرف ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان حالات کے تناظر میں نئے خیالات اور افکار کے ساتھ پیار و محبت کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتے ہیں۔ انتہا پسندی کا راستہ روکنے کے لئے میانہ روی کا درس دیتے ہیں۔ جہاں تک انتہا پسندی کی روک تھام میں ادب اور ادیب کے کردار کا تعلق ہے، یہ کہنا کافی ہے کہ عالمی ادب تخلیق کرنے والے اہل قلم کے پیر اپنی زمین پر رہتے ہیں جبکہ انگلیاں اور قلم آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ پُرامن اور متوازن معاشرے کے قیام اور انتہا پسندی کو میانہ روی میں بدلنے میں ادب اور ادیب کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ادیب نے قلم کی روشنائی سے انسانی زندگی کی تاریک راہوں کو روشن کیا ہے۔ ادب محض تخیّل کی بے کار جولانی کا نام نہیں بلکہ اس کا صحیح استعمال انسانیت کی خدمت اور معاشرے کی اصلاح ہے۔ اخلاقی اقدار، روحانی سکون، حُسن کے جلوے اورپُرامن معاشرے کاقیام در اصل ادب اور فنون لطیفہ ہی کے کرشمے ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایک پُر امن، متوازن، مہذّب و متمدّن اور فلاحی معاشرے کی تشکیل میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار سب سے نمایاں اور مؤثر ہوتا ہے۔ ادیب اور شاعر معاشرے کے نباض ہوتے ہیں۔ ادیب، شاعر اور فنکار شمع کی مانند ہوتے ہیں جو خود جل کر دوسروں کو روشنی پہنچاتے ہیں۔ ادیب اپنے خون جگر سے جو ادب تخلیق کرتے ہیں اور فنکار فنون لطیفہ کے اظہار کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، وہ محبت کا پیغام، امن کا وسیلہ اور بھائی چارے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ سے نفرتیں ختم اور محبتیں فروغ پاتی ہیں۔ ادب معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پروان چڑھاتا ہے۔ ادب انسانوں کو شرافت و متانت اور زندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ادیب بنی آدم کو ایک دوسرے کے اعضاء سمجھتے ہیں یہ بات صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اجتماعی طور پر زندگی کے ہر شعبے میں تخلیق کا عمل تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوا ہے وہیں پر فنونِ لطیفہ پر بھی اس کا بہت اثر ہوا ہےفنونِ لطیفہ کے ساتھ اپنے غیرعقلی اور دوغلے رویوں کی وجہ سے آج یورپ تو خیر بہت دور کی بات ہے ہم تو اپنے قریب ترین پڑوسی ممالک سے بھی کم از کم ایک صدی پیچھے ہیں۔آرٹ اور سائنس کی ترقی مکالمے کو جنم دیتی ہے اور مکالمے سے تحمل اور رواداری کو فروغ ملتا ہےپاکستان میں فنون لطیفہ کو فروغ دے کر ہم اپنے معاشرے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں حسن کے تخلیقی اظہار کا ہنر آرٹ کہلاتا ہے۔ زندگی کے واقعات کو جمالیاتی اظہار دینا آرٹ کا منصب ہے۔ گویا آرٹ زندگی کے واقعات کی جمالیاتی تصدیق یا تردید کا نام ہے۔ آرٹ صورت آفرینی کا ایسا عمل ہے۔ جس میں انسانی ذات کو مختارِ کل کی حیثیت حاصل ہو آرٹ ( فنون لطیفہ) اور ادب معاشرے کو انسان بناتا ہے، جس طرح سائنس انسان کے لئے ایک دروازہ ہے، اسی طرح آرٹ دوسرا دروازہ ہے، اگر ان میں کراس وینٹیلشین نہیں ہوگی تو معاشرے کا سانس اکھڑنے لگے گا۔ آج پاکستانی جسم کا سانس اکھڑ رہا ہے چند سال پہلے سائنس کے ساتھ ساتھ موسیقی، رقص اور ادب کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں جب گھروں میں شاعری،افسانہ، ادب اور تاریخ کے جاننے کو وقت کا ضیاع مان لیا جائے ، سمجھ جائیے اس معاشرے کا حال کیا ھو سکتا ھے؟ اور بقول ہکسلے ؛اس قوم کے آرٹ کا مستقبل کیا ھو سکتا ھے جس کےآرٹسٹ ننانوے فیصدی سکول ٹیچر ہوں۔
اسی موضوع پر جبار قریشی روزنامہ ایکسپریس میں ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ایک مغربی مفکر کے نزدیک انسان کے اندر خوف، بھوک، جنس اور خود نمائی کا جذبہ وہ محرکات ہیں جو انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں جس سے انسانی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں ایک پہلو حیاتیاتی پہلو ہے جس کے تحت انسان اپنی اور اپنی نسل کی بقا کا طلب گار ہوتا ہے۔
دوسرا معاشرتی پہلو ہے جس کے تحت ایک انسان اپنی زبان، اپنی اقدار، اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن کے تحفظ کا خواہش مند ہوتا ہے۔ معاشی پہلو کے تحت معاشی سرگرمیاں اختیار کرتا ہے، جنسی پہلو کے زیر اثر جنسی فعل انجام دیتا ہے، شخصیت کا ایک پہلو روحانی پہلو بھی ہوتا ہے جو انسان کو مذہب سے وابستہ کرتا ہے۔ان تمام پہلوؤں کے علاوہ ایک پہلو اور بھی ہے وہ انسانی شخصیت کا جمالیاتی پہلو کہلاتا ہے۔
اس پہلو کے تحت انسان شعر و ادب اور فنون لطیفہ مثلاً مصوری، موسیقی، مجسمہ سازی، خطاطی، رقص اور تعمیرات میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس پہلو کو بھی انسانی زندگی میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک ماہر معیشت آپ کو غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیے بہترین معاشی پالیسی بنا کر دے سکتا ہے ایک فلاسفر زندگی گزارنے کا نیا ڈھنگ پیش کرکے انقلاب کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ ایک فوجی جنرل آپ کو جنگی تربیت دے کر آپ میں لڑنے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے لیکن غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ اور انقلاب کی نوید کا احساس اپنے ڈراموں، ناولوں، افسانوں اور کہانیوں کے ذریعے ایک ادیب ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اس طرح لڑائی کا جذبہ اپنے گیتوں، نغموں اور نظموں کے ذریعے ایک شاعر ہی کرسکتا ہے۔ ایک شاعر الفاظ کو خوبصورت پیمانے میں ڈھال کر سننے والے کو متاثر کرتا ہے۔
ایک ادیب نہایت خوبصورت انداز میں اپنے پیغامات کی ترسیل سے انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔جس طرح الفاظ کی خوبصورتی ادب اور شاعری کو جنم دیتی ہے اسی طرح آواز کی خوبصورتی موسیقی، رنگوں کی خوبصورتی مصوری، جسمانی حرکات کی خوبصورتی رقص کو جنم دیتی ہے۔ ایک موسیقار سروں سے نئی دھن تشکیل دے کر آواز کا جادو جگاتا ہے، ایک سنگ تراش اپنی سوچ کو مجسمہ کی شکل دے کر اسے لازوال بنا دیتا ہے، ایک مصور خیالات کو رنگوں اور لکیروں کے قالب میں ڈھال کر انھیں زندگی بخشتا ہے یہ تمام فنون فن کی دنیا میں ’’فنون لطیفہ‘‘ کہلاتے ہیں۔
فنون لطیفہ ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں اور یہ خوبصورت خیالات پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ایک شخص جو مٹی کے برتن بناتا ہے اگر وہ خوبصورت خیالات رکھتا ہے تو وہ جو برتن بنائے گا یقیناً اس کے برتنوں میں خوبصورتی ہوگی اس کے رکھ رکھاؤ میں سلیقہ اور ڈھنگ ہوگا۔
فنون لطیفہ انفرادی سطح پر ہی نہیں قومی سطح پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں قوم کی تہذیب، ثقافت، معاشرت اور تمدن کو اجاگر کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ان فنون کے ذریعے بین الاقوامی برادری میں کسی قوم کا تشخص واضح کیا جاسکتا ہے یوں بین الاقوامی رواداری کے فروغ کے لیے ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے زندہ قومیں اس کے فروغ کی کوششیں کرتی ہیں۔فنون لطیفہ جمالیات کی دین ہے جمالیات کے مطالعے کے بغیر فنون لطیفہ کا مطالعہ ممکن نہیں۔ جمالیات وہ صفت ہے جس کے ذریعے کوئی چیز اس کے فوائد سے قطع نظر ہمیں پسند آتی ہے اور بے غرضی اور مسرت پر اکساتی ہے۔
جمالیات صرف انسانوں کی خصوصیت ہے اور دوسرے جاندار اس سے محروم ہیں اس میں یہ بات مدنظر ہے کہ کوئی بھی شے جمالیاتی قدر کی حامل نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار مشاہدہ کرنے والے کے زاویہ نگاہ پر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک وحشی جنگل میں ہرن دیکھ کر خوش ہوتا مگر اس کی خوشی اس توقع پر ہے کہ وہ ہرن کا شکار کرے گا اور اس کا گوشت کھائے گا اس کی یہ خوشی جمالیات میں شمار نہیں ہوگی البتہ ایک سیاح ہرن کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے تو یہ خوشی بے غرضی پر مبنی ہے اسے جمالیات کا نام دیا جائے گا۔
جس طرح ایک صحافی کا قلم صحافتی واقعات تحریر میں لاتا ہے تو ہم اس کی تحریر کو ادب میں شمار نہیں کرتے اسی طرح کسی شے کے مشاہدہ میں جمالیاتی رویہ کے برعکس اگر اس میں کسی منافع یا افادیت کے مقصد کو مد نظرکھا جائے تو اس رویے کو ہم جمالیات میں شمار نہیں کریں گے۔ایک فنکار زندگی میں جن تجربات سے گزرتا ہے وہ تجربات اس کی ذات کی گہرائیوں میں چھپ جاتے ہیں۔ پھر یہی تجربات شاعری، افسانہ نگاری، مصوری، رقص اور اداکاری میں اپنا اظہار کرپاتے ہیں۔ فعلی قوتوں کا سرچشمہ دماغ اور اثر پذیر قوتوں کا مرکز دل ہے۔ قلب کے اشتراک عمل کے بغیر ادب اور فنون لطیفہ کا تصور ممکن نہیں۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ ’’جب انسان باہر کی دنیا سے لڑتا ہے تو سیاست دان ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر کی دنیا سے لڑتا ہے تو ادیب اور فنکار بن جاتا ہے۔‘‘ آج پوری انسانی دنیا اس وقت مادہ پرستی کے نرغے میں ہے۔
دولت کی اندھی ہوس نے انسان کو بے سکون کردیا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ فنون لطیفہ کو فروغ دیا جائے۔ بعض عناصر کے نزدیک فنون لطیفہ ذہنی عیاشی ہے۔پاکستان کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے حصول کی فکر میں مبتلا ہے اس لیے ہمیں فنون لطیفہ کے جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے معاشی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ بات جزوی طور پر درست ہے کلی طور پر نہیں یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ غریب آدمی روٹی کے حصول کے ساتھ اپنا ایک مختصر وقت تفریح کے لیے بھی رکھتا ہے۔
چاہے یہ تفریح فلموں کی صورت میں ہو یا گانے کی صورت میں یا مختلف کھیلوں کی صورت میں۔ بہرحال وہ ان میں دلچسپی لیتا ہے اگر فارغ اوقات میں اسے تفریح نہیں ملتی تو وہ منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ شعر و ادب اور فنون لطیفہ کے شعبے کو فروغ دیا جائے۔ فنون لطیفہ اور آرٹ کے فروغ میں بڑی رکاوٹ کلچر شو نام پر ہونے والے وہ پروگرام ہیں جس میں بے ہودگی اور بھانڈ پن کے مظاہرے کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کا ایک بڑا طبقہ فنون لطیفہ اور آرٹ کے خلاف ہو جاتا ہے۔
لہٰذا اس شعبے سے وابستہ افراد پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس پر غور کریں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہماری زمین پر وہی ادب اور فنون لطیفہ کامیابی سے ہم کنار ہوگا جس کا تعلق ہماری سرزمین کی مٹی سے ہوگا۔ یاد رکھیں فنون لطیفہ اور ادب اگر اندر کی دنیا (باطن) کا انقلاب برپا نہ کرسکیں تو باہر کی دنیا میں اس کی حیثیت شور شرابے اور نمود و نمائش سے زیادہ کچھ نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply