حسینی بیانیہ او ریزیدی بیانیہ۔۔۔۔صفدر جعفری

تاریخ کائنات حق و باطل کے معرکوں سے بھری پڑی ہے۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ تحریکیں بیانیوں کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ خدائی نمائندوں نے باطل کے مقابلے میں حق پر مبنی نظریات بیان کیے اور ایسا کرنے کے لیے ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے رہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ خدا کے آخری پیغمبر رسول اکرم( ص) کے اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد نئے بیانیے تشکیل پانے لگے۔ صفین، جمل، نہروان اس کی بہترین یا یوں کہیے کہ بد ترین مثالیں ہیں۔ فی الحال میرا موضوع یہ جنگیں نہیں، لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ آپ کسی بھی معرکہ میں یا تو دونوں فریقین کو غلط کہہ سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کسی ایک کو درست کہا جا سکتا ہے لیکن کوئی بھی صاحبِ فکر دونوں فریقین کو درست نہیں کہہ سکتا۔ اجتہادی خطا کے نام سے کسی کو چھوٹ تو دی جا سکتی ہے دونوں فریق درست نہیں ہو سکتے۔

اب آئیے کربلا کی جانب۔ یزید کے تخت نشین ہونے کے بعد ایک بیانیہ یزید کی طرف سے وجود میں آیا کہ میں مطلق العنان حکمران ہوں اور میرے قلمرو میں کسی کو میری بیعت کے بغیر زندہ رہنے کی اجازت نہیں۔ اسلام کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اس قسم کا کوئی دعویٰ سامنے آیا۔۔ حضرت ابوبکر (رض )کی خلافت کے اوائل میں بھی بہت سے افراد نے انکی بیعت نہیں کی لیکن ان سے زیادہ تعارض نہیں برتا گیا۔۔ خود حضرت علی ؑکے خلیفہ بننے کے بعد چند افراد نے بیعت نہ کی تو امیرالمومنین نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ان سے جبرا ًًًبیعت طلبی نہیں کی۔۔ امام حسن نے امیر شام، معاویہ بن ابو سفیان سے معاہدہ تو کر لیا لیکن بیعت نہ کی لیکن جناب معاویہ نے امام حسنؑ اور حتیٰ امام حسینؑ سے نہ بیعت کا مطالبہ کیا اور نا ہی ان امامین نے معاہدہ کر لینے کے بعد کسی تحریک کی ابتدا کی۔ لیکن جب یزید کی طرف سے یہ غیر معمولی مطالبہ آیا تو اس کا جواب دیا جانا ضروری تھا۔۔ امام حسین ؑنے اس مطالبہ سے انکار کیا اور گوشہ امن یعنی مکہ کی طرف ہجرت کی اورجاتےہوئےاپنانقطہ نظران الفاظ میں بیان کیا۔

۱۔ مجھ ایسا یزید ایسے کی بیعت نہیں کر سکتا

۲۔ میں فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی برپا کرنے نہیں نکلا بلکہ اس لیے نکلا ہوں کہ امت جد کی اصلاح کروں، میں ارادہ رکھتا ہوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کروں۔

یہ امام حسینؑ کا بیانیہ ہے یزید کے مقابلے میں، جس میں امامؑ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ امت جب یزید جیسے حکمرانوں کو قبول کرنے میں تامل نہیں کر رہی اور اسکے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی تو اس امت کی اصلاح کی ضرورت ہے۔۔یہاں یہ اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امام حسینؑ کی شخصیت رسالت و ولایت کی گود میں پروان چڑھی ہے۔۔تعلیمات اسلام، حکمران کے تعین کا طریقہ کار اورایک غیر عادل ظالم اور کینہ پرور حاکم کے مسلط ہو جانے پر کیا کرنا چاہیے یہ اگر امام حسینؑ کو معلوم نہیں تواور کسے معلوم ہو گا۔؟ حسینؑ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے۔ حسین عؑکا رسول سے ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن اگر کربلا نہ ہوتی تو شاید رسول اللہ کا امام حسین سے ہونا بالکل سمجھ میں نہ آتا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امام حسینؑ اپنے اسی بیانیہ کی روشنی میں مکہ میں قیام پذیر رہے اور عوام الناس تک حقیقت حال پہنچانے کی سعی و کوشش کرتے رہے، حتی یزید نے حرمت حج اور حرمت کعبہ کو پامال کرنے کا منصوبہ بنایا جو امام حسینؑ کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔لہذا کوفہ کی طرف کوچ کا ارادہ کیا۔ بہرحال اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے علم میں ہے لیکن وہ سب واقعات اس ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ معرکہ کربلا میں دو بیانیے موجود تھے۔ ایک بیانیہ امام حسینؑ کا جس میں امام نے فرمایا کہ کسی ظالم اور باطل پرست حکمران کی بیعت کسی طور قابل قبول نہیں چاہے اس کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ امام حسینؑ اس بات کو اپنے لیے باعث ذلت سمجھتے تھے کہ یزید جیسے کردار کے حامل شخص کی بیعت کی جائے۔ دوسرا بیانیہ یزید کا سامنے آتا ہے کہ امت پر چاہے کوئی زانی شرابی اور حتی ٰحرمت کعبہ کو برباد کرنے والا بھی آ کر بیٹھ جائے تو اس کی بیعت اختیار کی جائے ۔اس بیانیہ کو دیکھیں تو وہی مطلق العنانیت اس میں موجود ہے جو فرعون اور نمرود کے بیانیوں میں نظر آتی ہے۔۔یزیدی اور حسینی کردار آج بھی موجود ہیں اور انکے بیانیوں کی وکالت کرنے والے بھی۔ مجھے یزید کے مقابلے میں حسینؑ کا بیانیہ قبول ہے اور میں اسی بیانیہ پر جان دینا چاہتا ہوں اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ حسین ؑ کا بیانیہ قبول کریں یایزیدکا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply