اب گھاس کھا ہی لو۔۔۔یاسر مسعود منہاس

پاکستان ہمیشہ سے مسائل سے بھر پور اور وسائل سے لاچار ملک رہا ہے۔ ہر آنے والی حکومت کے پہلے جملے خزانہ خالی ہے اور ملک اس وقت ایک مشکل ترین صورتحال سے گذر رہا ہے اب بچے بچے کو ازبر ہوگیا ہے۔۔۔ اس حکومت کو بھی آتے ہی خزانہ خالی ملا اور اتنا ملا کہ ہمارے پاس قرضہ ادا کرنیکے لئے رقم بھی (Foreign Reserve)  نہیں تھی اور اگر ہم یہ رقوم ادانہ کریں گے تو ہم یونان، ونزویلااور دوسرے ممالک کی طرح ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ ( بقول خادم حسین رضوی فارمولہ کے جب پیسے ہوں گے دے دیں گے نٹھ جاویں ہن)۔ ملک کو اس ڈیفالٹ سے اس لئے نکالنا ضروری ہے کہ دنیا کا آپ پر اعتماد اور اعتباررہے وگرنہ آپ کے اندر موجوداور آنے والی Foreign Investment لوگ نکال کر بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈیا لے جائیں گے اور آپ کو heart stunt بھی چائنہ کے ذریعے امپورٹ کروانے پڑیں گے کیونکہ آپ کے کہنے پر کوئی بھی آپکو ایک سوئی تک نہیں دیگا۔ کیونکہ ہمارے پاس تو ڈالرز ہیں ہی نہیں اور کسی ملک کے پاس ڈالرز اس وقت ہوتے ہیں جب اسکازرِمبادلہ زیادہ ہواور اسکے لئے آپکو اپنی Export بڑھانی پڑتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ کرنسی کی قیمت کم کرنی پڑتی ہے کیونکہ کرنسی develue کرنے سے باہر سے آنے والے خریدار کو مال سستا ملے گا جس طرح SBP نے2013 میں کیاکہ شائد export بڑھ رہے ہیں لیکن export تو نہ بڑھے اور کرنسی develue ہوگئی ۔ اور ہمیں اچھا خاصہ نقصان ہوا ہمارے اکانومسٹ اسطرح کی miscalculation کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس وقت چیزیں تو پاکستان د ھڑا دھڑ منگوا رہا ہے جسکی وجہ سے اسکے import Bill بھی بڑھ گئے ہیں اب رہا سوال کہ ہم نے ادائیگیاں کدھر سے کرنی ہیں تو اسکے لئے ہمارے پاس دو حل ہیں ایک کہ ہماری مددکرنی ہمارا دوست ملک کردے جیسا کہ سعودی عرب نے کیا اور دوسرا   ہم IMF سے لون نہ لیں۔ پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ پاکستان IMF کے پاس نہ جائے کیونکہ اگر ہم جاتے ہیں تو پھر ہمارا حال وہی ہوگا جو ایک قرض دار کا ہوتاہے لیکن کیا کریں ہم تو عادی ہی قرض لے کر کھانے کے ہیںIMF نے پاکستان کو 2001 سے 2013 تک 3 مرتبہ BailOut کیاہے ہم تو 1970 سے اسکے پکے گاہک ہیں ہم اب دسویں مرتبہ IMF کے پاس جا رہے ہیں اور شائد جاتے رہیں گے انڈیا نے 1991 میں آخری بار IMF کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور اسکے بعد مڑ کے نہیں دیکھا۔ ظلم تو یہ ہے کہ ہم IMF کے پاس جا رہے ہیں اور اس پر حد یہ ہے کہ اسکے سب سے آخری درجہ کے سخت ترین پروگرام میں جسکو(EFF) Extended Fund Facility کہتے ہیں جسمیں IMF کی طرف سے کوئی نرمی نہیں برتی جاتی ہم وہ لے رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلےِ Precautionry Landing (PL), Flexible Credit Line (FCL) اور Stand By Arrangements (SBA) والے لون بھی ہوتے ہیں جس میں آپ کچھ شرطیں منوا سکتے ہیں کسی میں نرمی ہوجاتی ہے۔ اور کچھ حذف ہو جاتی ہیں مگر یہاں تو حالات ہی مختلف ہیں۔ کسی کے پاس ملک کے لئے سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے EFF کے بعد حکومت کو تمام سبسڈی ختم کرنی پڑتی ہے۔ اکانومی slow down ہوجائے گیpayment schedule کی وجہ سے افراطِ زر بڑھ جائے گا۔ حکومت Tax اور ڈیوٹیز میں اضافہ کردے گی بنکوں کو interest ریٹ بڑھانے کا کہا جائے گا۔ مگر ہم IMF سے لون لے کرفی الحال سر پر کھڑی اس مصیبت سے گزر سکتے ہیں عرفِ عام میں آج کا دن گزر جائے گا کل پھر سے کشکول لیکر نکل پڑیں گے۔ مگر ملکوں کے حالات بدلنے کیلئے صرف اچھی Economic Policy کافی نہیں ہوتی جن ملکوں نے  دنیا کے نقشے میں اپنے آپ کو ایک چمکدار ستارے کی مانند ابھارا ہے انہوں نے اپنے ہر ذرے ذرے کی قدر کی ہے اپنی خوراک اپنی سواری اپنی پوشاک اپنا دھرتی سے پیار اور اس پر مان کیا ہے امپورٹڈ لباس گھڑی گاڑی استعمال کرکے  پاکستان کھپے جچتا نہیں ہے۔ اگر تو ہم سب بحثیت قوم پاکستان کو واقعہ ایکWelfare Estate دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ۔۔ ملکوں ہمارے ۔۔۔۔ وفد بھکاری بن کر نہ پھریں تو پھر کچھ گذارشات ہیں جو کچھ کارگر ثابت ہوں:۔
پہلا طریقہ IMF سے لون نہ لینے کیلئے ایک حل ہے کہ Exports بڑھائی جائیں مگر فی الحال کچھ معروضی حل جن کوMid Term Solution ہی کہ سکتے ہیں نمبر ۱ یہ ہے کہ Import Bill کو کم کرنا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ Oil/ Fuel کی import ہے جو تقریباً 14 بلین ڈالر ہے ہم کس طرح سے ٹرانسپورٹ نظام کوبہترکرکے گاڑیوں کا استعمال کم کر سکتے ہیں ۔ اگر ٹرانسپورٹس اچھی اور معیاری ہو تو لوگ اپنی گاریوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا پسند کریں۔ ہم 3 Billion ڈالرکی گاڑیاں امپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کے پاس اپنی Brand ہونی چاہئے گاریوں کا امپورٹ بند ہواسطرح کچھ 2.5 Billion کا بل جسمیںMobile خوردنی تیل اور چائے جیسی اشیاء شامل ہیں جو کہ اگر بند کردی جائیں تو ہماری ضروریات پوری ہو سکتی ہیں امپورٹ بل کم کرنے سے جو ہم نے 18 Billion ادا کرنا ہے وہ کم ہو کر7 ٰ یا 8 بلین رہ جائے گا۔ دوسراطریقہ حکومت پاکستان   بیرون ملک موجود پاکستانیوں سے اپیل کرے کہ و پاکستان میں زیادہ سے زیادہ Remittance بھجوائیں اور اسکے لئے بنک یا کوئی بھی قانونی طریقہ استعمال کریں ہندی کے ذریعے رقوم نہ بھجوائیں۔ اس Remitance پر حکومت بھیجنے والے کو اچھی جگہوں پر پلات الاٹ کرے۔ تیسرا طریقہ پاکستان اپنی امپورٹس کی ادائیگی جہاں تک ممکن ہوسکے لوکل کرنسی یعنی PKR میں کرے جس طرح چائنہ نے کیا ہے۔ پاکستان 300 Billion کی اکانومی ہے اور اسکی 45% قرض ادا کرنے میں استعمال ہو رہا ہے یا پھر Country Trade Inter متعارف کرایا جائے۔ چوتھا طریقہ پاکستان میں حکومتی حلقوں سے لیکر بزنس مین طبقے تک سب کو Made in Pakistan پر انحصار کرنا پڑے گا۔ کپڑوں، موبائل فون، گاریوں، سگریٹ، چائے سب کچھ Made in Pakistan جس کی وجہ سے  ایک تو امپورٹس کم ہونگی اور دوسرا پاکستانی مصنوعات کا معیار بہتر ہوگا۔ جبکہ حالات یہ ہیں کہ 2013 سے پاکستان کے ایکسپورٹس گرتے جارہے ہیں اور امپورٹس برھتے جا رہے ہیں۔ حالات کے تقاضے دیکھتے ہوئے پاکستان کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے لیکن حقیقت کو مان لینا ہی جیت ہے۔ جیسا میں نے شروع میں کہا ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانی ہے یہ ہی Long Term حل ہے۔ Skilled Manpower ہمارے لوگ جس قدر ممکن ہو سکے سعودی عرب، یورپ، امریکہ اور خلیجی ممالک میں نوکریاں حاصل کریں حکومت انکا ساتھ دیے ویزہ کے حصول کے لئے۔ ہمیں اپنیtry services, software indus ا,نڈسٹری ہے اسکو مزید بہتر کرے دوبارہ مارکیٹ میں  آنا ہے تاکہIT کے پروجیکٹ باہر سے لئے جا سکیں۔ پاکستان کے اپنی زرعی اجناس کی کوالٹی بہتر کر کے اسکو یورپی یونین، عرب ممالک اور امریکہ کے معیار پر produce کرنا ہے اسکے لئے حکومت ایک ادارہ بنائے جو کسانوں کواس میں مدد کریں۔ پاکستان کپڑے کی صنعت کی دوبارہ بحالی کیلئے ہر طرح کے اقدام اٹھانے چاہیں جیسے بجلی کی ارزاں نرخوں پر 24 گھنٹے فراہمی ممکن بنائے ٹیکس کی چھوٹ دے ۔ Cottage & Small Industry جو کہ گوجرانوالہ سے لیکر جہلم تک گھر گھر میں تھی اسکو دوبارہ Revive کیا جائے۔
ہماری پنکھوں کی صنعت اور کراکری جو دنیا بھر میں مشہور تھی اسکے لئے اقدام اٹھائے جائیں۔ سیالکوٹ چمڑے کی صنعت کا گڑھ تھا، سپورٹس کیلئے مشہور تھا اسے دوبارہ کھڑا کیا جائے وہاں کے لوگوں کے مسائل سنے جائیں اور پھر انکو حل بھی کیا جائے۔ ورنہ ہم اسطرحIMF کے پاس جاتے رہیں گے اور ایک دن آئے گا کہ ہم اپنے  ایٹمی اثاثوں کے بدلے لون لے رہے ہوں گے اور ویسے بھی بھکاری قوم کو ایٹم بم رکھنے کا کیا فائدہ۔
بقول شاعر : اے طائر لا ہوتی اُس رزق سے موت اچھی
ِجس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply