مارٹن لوتھر (1546ء-1483ء)تحریر/مبشر حسن

مارٹن لوتھر ہی وہ شخص تھا جس نے رومن کیتھولک کلیسا کے خلاف کھلم کھلا سرکشی کر کے پروٹسٹنٹ اصلاحات کی بنیاد رکھی۔ وہ جرمنی کے قصبہ ایسلیبن میں 1483ء میں پیدا ہوا۔ اس نے اعلیٰ مدرساتی تعلیم حاصل کی کچھ وقت کے لیے (قدرتاً اپنے والد کے اصرار پر) قانون کے اسباق بھی پڑھے۔ تاہم وہ قانون کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آگسٹینین راہب بن گیا۔ 1512ء میں اس نے وٹن برگ یونیورسٹی سے الہیات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اور جلد ہی اسی میں پڑھانے بھی لگا۔

کلیساء کے خلاف لوتھر کی مخالفت بتدریج ظاہر ہوئی۔ 1510ء میں روم گیا جہاں وہ رومی اہل کلیسا کی زر پرستی اور دنیا داری کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ تاہم وہ سنگین واقعہ جس نے اس کے احتجاج کو یکبارگی شدید کر دیا وہ کلیساء کی طرف سے معافی ناموں کی فروخت تھی (ہر معافی نامہ در حقیقت کلیساء کی طرف سے لوگوں کو ان کے گناہوں کی سزا سے مکت قرار دینے کی کلیسائی سند ہوتا۔ اس میں مقام سزا میں گناہ گار کے لیے مقرر وقت میں بھی تخفیف کی رعایت شامل ہوتی تھی۔ 31 اکتوبر 1517ء میں لوتھر نے وٹن برگ کے گرجا کے دروازے پر اپنا پچانوے نقاط پر مشتمل مضمون ٹانگ دیا۔ اس میں اس نے کلیساء کی زر پرستی اور بالخصوص اس کے معافی ناموں کی فروخت کو شدت سے مسترد کیا اس نے اپنی عرضداشت کی ایک نقل منیز کے اسقف اعظم کو بھی روانہ کی۔ مزید برآں اس نے اسے طبع کروایا اور اس کی نقول ارد گرد تمام علاقے میں تقسیم کر دیں۔

کلیسا کے خلاف لوتھر کے اقدامات تیزی سے بڑھے۔ جلد ہی اس نے پوپ کے اختیارات کو رد کر دیا اور عمومی کلیسائی انجمنوں کو بھی اور یہ موقف اختیار کیا کہ اس کی رہنما فظ انجیل مبارک اور سادہ عقل ہے۔ اس میں تعجب کی بات نہیں تھی کہ کلیساء ان افکار کو خاطر میں نہیں لایا۔ لوتھر کو کلیساء کے عہدیدار افسروں کے سامنے حاضری دینے کا حکم ہوا۔ متعدد سماعتوں اور غلطی تسلیم کر لینے کی کتنی ہدایات کے بعد اسے 1521ء میں کلیساء کی انجمن نے بدعتی قرار دیا اور اس کی تحریروں پر سخت ممانعت عائد کر دی۔

اس کا متوقع نتیجہ تو یہی تھا کہ لوتھر کو کھونٹے سے باندھ کر جلا دیا جائے۔ لیکن اس کے خیالات جرمن لوگوں میں خاصے پھیل چکے تھے اور دیگر متعدد افراد کے ساتھ وہ چند موثر جرمن شہزادوں کی حمایت بھی حاصل کر چکا تھا۔ لوتھر کو قریب ایک سال کے دورانیہ کے لیے روپوش ہونا پڑا۔ تاہم جرمنی میں اسے اس قدر حمایت حاصل ہو چکی تھی کہ وہ سنگین نوعیت کے نتائج سے محفوظ رہا۔

لوتھر ایک زرخیز ذہن کا مصنف تھا۔ اس کی بیشتر تحریریں نہایت موثر ثابت ہوئیں۔ اس کا ایک انتہائی اہم کارنامہ انجیل کا جرمن زبان میں ترجمہ تھا اس سے کم از کم بر خواندہ شخص کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ خود اس مقدس صحیفہ کا مطالعہ کر سکتا تھا اور اس مقصد کے لیے اسے کلیسا یا پادریوں پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی (لوتھر کی شاندار نثر نے جرمن زبان اور ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے)۔

لوتھر کی الہیاتی فکر کو اس مختصر جگہ پر اجمالاً بیان کرنا دشوار ہے۔ اس کا ایک بنیادی نظریہ جواز بر عقیدہ کا اصول تھا۔ یہ اصول سینٹ پال کی تحریروں سے ماخوذ تھا۔ لوتھر کا عقیدہ تھا کہ فطرتی طور پر انسان گناہ سے اس درجہ آلودہ تھا کہ محض نیک افعال ہی اسے اس فضیحت سے مکت کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ نجات صرف عقیدے کے ویلے سے ہی ممکن ہے اور صرف خدا کی رحمت سے۔ اب واضح تھا کہ کلیسا کے معافی ناموں کی فروخت کا وطیرہ غیر مناسب اور غیر موثر تھا۔ بلاشبہ یہ روایتی نقطہ نظر کہ گر جا انسان اور خدا کے بیچ ایک ضروری ثالث موجود ہے، دراصل مبنی بر غلطی تھا۔ اگر لوتھر کے عقائد کی پیروی کی جاتی تو رومی کیتھولک کلیسا کا تمام نظریاتی نظام یک قلم مسترد ہوجاتا۔

کلیسا کے بنیادی کردار پر اعتراض کرنے کے علاوہ لوتھر نے کلیسا کی مخصوص متنوع عقائد اور عبادات کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی۔ مثال کے طور پر اس نے مقام سزا کے وجود سے انکار کیا، اس نے اس روایت کو بھی جھٹلایا کہ اہل کلیسا کے لیے مجرد رہنا ضروری ہے۔ خود اس نے 1525ء میں ایک سابقہ راہبہ سے شادی کی۔ اس کے ایک ساتھ چھ بچے ہوئے۔ 1546ء میں وہ فوت ہوا۔ اس وقت وہ اپنے آبائی قصبے ایسلیبن میں موجود تھا۔

مارٹن لوتھر اولین پروٹسٹنٹ مفکر نہیں تھا۔ اس سے قریب ایک سو سال پہلے بوہیمیا میں جان ہٹس اور چودہویں صدی عیسویں میں انگریز عالم جان وانکلف نے ایسے ہی خیالات کا پرچار کیا تھا۔ جبکہ بارہویں صدی عیسویں کے فرانسیسی پیٹر والڈو کو ابتدائی روٹسٹنٹ مفکرین میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان تمام ابتدائی تحریکات کے اثرات بنیادی طور پر مقامی نوعیت کے تھے۔ 1517ء تک کیتھولک کلیسا پر عدم اعتمادی اس قدر بڑھ گئی کہ لوتھر کی تحریروں نے شتابی سے احتجاج کا ایک سلسلہ جاری کیا جو یورپ کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گیا۔ سو لوتھر کو درست ہی ان اصلاحات کے آغاز کا اصل ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

ان اصلاحات کا سب سے بین نتیجہ متعدد پروٹسٹنٹ مسالک کی تشکیل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جبکہ خود پروٹسٹنٹ مت عیسائیت کی ایک شاخ ہے۔ اگرچہ اس کے پیروکار بہت زیادہ نہیں ہیں پھر بھی اس کے معتقدین بدھ مت یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔

اصلاحات کا دوسرا اہم نتیجہ یورپ بھر میں اس سے ظاہر ہونے والا مذہبی خانہ جنگی کا پھیلاؤ بھی تھا۔ ان میں سے چند مذہبی جنگیں (مثال کے طور پر جرمنی کی تمہیں سالہ جنگ جو 1618ء سے 1648ء تک جاری رہی) غیر معمولی طور پر خونیں تھیں۔ ان جنگوں کے ساتھ ساتھ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں میں سیاسی تنازعات بھی ابھرے، جنہوں نے انگلی کئی صدیوں تک یورپی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اصلاحات نے مغربی یورپ کی ذہنی ترقی میں بھی ایک پیچیدہ مگر اہم کردار ادا کیا۔ 1517ء سے پہلے صرف ایک مستند گرجا یعنی رومی کیتھولک کلیسا موجود تھا۔ جبکہ اس کے مخالفین کو بدعتی قرار دیا جاتا تھا۔ اس طرح کی صورت حال آزادانہ فکر کے لیے تو یکسر غیر موزوں تھی۔ اصلاحات کے عمل کے بعد متعدد ممالک نے مذہبی فکر کی آزادی کے اصول کو عام کیا۔ تو دیگر موضوعات پر مفروضے قائم کرنا تب ممکن ہو گیا۔

لوتھر خامیوں سے منزہ نہیں تھا۔ اگر چہ وہ خود مذہبی ادارے کے جبر کے خلاف تھا۔ لیکن وہ خود ان لوگوں کے سخت خلاف تھا جو مذہبی امور پر اس سے متفق نہیں تھے۔ شاید یہ لوتھر کی عدم برداشت ہی کے باعث ہوا کہ یہ مذہبی جنگیں کسی دوسرے ملک جیسے انگلستان کی نسبت جرمنی میں کہیں زیادہ تند خو اور خونیں ثابت ہوئیں۔ مزید یہ کہ لوتھر سامیوں کے شدید خلاف تھا۔ شاید اس کی یہودیوں کے متعلق ان غیر معمولی مخاصمانہ تحریروں نے ہی بیسویں صدی میں جرمنی میں ہٹلر دور کے لیے راہ ہموار کی۔

لوتھر نے بارہا با اصول عوامی حکومت کی اطاعت کی افادیت پر اصرار کیا ہے۔ غالباً اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ کلیسا عوامی حکومت کے کاموں میں مداخلت نہ کرے ( یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اصلاحی تحریک ، فقط الہاتی فکری مسئلہ ہی نہیں تھی۔ ایک حد تک یہ روم کے خلاف ایک قومیت پسندانہ جرمن بغاوت تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ لوتھر کو جرمن شہزادوں کی اس قدر پشت پناہی حاصل رہی۔ لوتھر کے مقاصد سے قطع نظر اس کے بیانات نے متعدد پروٹسٹنٹ جرمنوں کو سیاسی معاملات میں مطلقیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا۔ اس طور بھی لوتھر کی تحریروں نے ہٹلر کے دور کے لیے صورت حال کو موافق کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرچہ یورپی اور امریکی لوگوں کے لیے لوتھر بہت اہم ہے لیکن ایشیا اور افریقہ کے باشندوں کے لیے وہ اتنی اہمیت حاصل نہیں کر سکا۔ جہاں تک چینیوں جاپانیوں اور ہندوستانیوں کا تعلق ہے تو یہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کا فرق ان کے لیے خاصا غیر اہم ہے (بالکل اسی طرح بیشتر یورپی افراد کے لیے اسلام کے سنی اور شیعہ مسالک کا امتیاز غیر اہم ہے)۔ لوتھر نسبتاً ماضی قریب کی تاریخی شخصیت ہے۔ اور اس کے انسانی تاریخ پر اثرات (حضرت) محمد بدھا یا موسیٰ کی نسبت ابھی نہایت مختصر ہیں نیز گزشتہ چند صدیوں میں مغرب میں مذہبی عقیدہ کو زوال بھی ہوا ہے۔ اسی نسبت سے انسانی معاملات پر مذہب کے اثرات اگلے ہزار برس میں اس سے کہیں کم ہوں گے جس نسبت سے یہ گزشتہ ہزار برس میں ظاہر ہوئے۔ اگر مذہبی عقیدہ کا انحطاط یونہی جاری رہا تو مستقبل کے مورخین کے لیے شاید لوتھر اتنا بھی اہم نہ رہے، جتنا یہ آج ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply