کپاس (33) ۔ فیکٹری مزدور/وہاراامباکر

ہزاروں محنت کشوں کو صدیوں سے گزارا جانے والا طرزِ زندگی تبدیل کر کے فیکٹری میں لانے کے لئے قائل کرنا آسان نہیں تھا۔ یہ کام مشینوں کی تنصیب سے کم پیچیدگی نہیں رکھتا تھا۔ ان دونوں کے لئے خاص قانونی، سماجی اور سیاسی حالات کی ضرورت تھی۔ فیکٹری کی طرف کا یہ سفر ابتدا میں کچھ ہی جگہوں تک محدود رہا۔ اور وہاں پر بھی اسے بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی جگہیں جہاں زندگی گزارنے کے متبادل طریقے دستیاب تھے، وہاں یہ تبدیلی ممکن نہیں تھی۔
اور یہاں ایک دلچسپ تضاد تھا۔ صنعتی انقلاب کا بڑا پہلو انسانی محنت کو مشینوں سے بدل دینا تھا۔ مثلاً، سپننگ کا عمل مشینوں نے سو گنا تیز کر دیا تھا۔ لیکن لیبر بچانے والی مشین چلانے کے لئے بھی لیبر کی ضرورت تھی۔ اور تیزرفتار پیداوار کے سستا ہو جانے کی وجہ سے کاٹن مصنوعات کی مانگ میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا تھا۔ پہلے ہزاروں، پھر دسیوں ہزاروں اور پھر لاکھوں مزدوروں کی ضرورت تھی۔ برطانیہ میں 1861 میں 446,000 مزدور ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ تھے۔ جرمنی میں 250,300 جبکہ فرانس میں تقریباً دو لاکھ۔ امریکہ میں 122,000۔ روس میں 150,000۔ سپین میں 105,000 مزدور کاٹن کی صنعت میں کام کر رہے تھے۔
جب تک فیکٹری کا طرزِ زندگی نہیں آیا تھا تو سرمایہ دار کے لئے لیبر موبلائزیشن کا ایک ہی ماڈل تھا۔ امریکا کی زرعی اکانومی کئی ملین افریقیوں کو غلام بنا کر کھڑی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ صنعتکار غلامی کے ماڈل سے واقف نہیں تھے۔ سب سے پہلا کارخانہ لگانے والے سیموئل گریگ خود ڈومینیکا میں جاگیر رکھتے تھے جہاں غلام کام کیا کرتے تھے۔ یورپ میں “روشن خیالی کے دور” کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ یورپ میں غلامی ناقابلِ قبول ہو گئی تھی۔ مانچسٹر، بارسلونا، ملہاوس میں افریقی غلام لا کر کام کروانا ناقابلِ تصور تھا اور نہ ہی مقامی آبادی کو غلام بنایا جا سکتا تھا۔
صنعت میں غلامی کا نظام استعمال کرنے کے ساتھ ایک اور عملی مسئلہ بھی تھا۔ غلاموں کو سپروائز کرنا اور ان سے مشقت کروانا سستا کام نہیں تھا۔ اور دوسرا یہ کہ غلاموں پر پورا سال خرچ آتا تھا اور اس کی پوری عمر کے لئے۔ صنعتی کیپٹلزم میں عروج اور زوال کا سائیکل تیزی سے آتا تھا جس میں اضافی لیبر کی ضرورت پڑتی تھی یا لیبر کو نکالنا ہوتا تھا۔ کاشتکاری والا محنت کا ماڈل یہاں کام نہیں کرتا تھا۔
صنعت کا پہیہ کہیں پر بھی غلاموں نے نہیں چلایا۔
صنعتکار کی سرمایہ کاری کا فائدہ اسی وقت ہو سکتا تھا جب اس کی مشینوں کو چلانے کے لئے لیبر ٹھیک وقت پر دستیاب ہو۔ اور اس کے لئے خواتین و حضرات، لڑکیوں اور لڑکوں کو فیکٹری ورکر بنانا تھا جو اجرت پر کام کر سکیں۔ یورپ میں اور دنیا پر باقی جگہوں میں اجرت پر کام کرنے کا رواج کم رہا تھا۔ ہنرمند اور کسانوں کو اس ماڈل میں کام کرنے میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔ کسان اپنی اگائی ہوئی فصل کی بنا پر اور ہنرمند اپنی مصنوعات بیچ کر زندگی گزار رہے سکتے ہیں۔
جبکہ ان کے مقابلے میں فیکٹری ورکر کے پاس بیچنے کو صرف اپنی محنت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں بہت بڑے جاگیردار تھے۔ ایک عام کسان کے پاس اتنی زمین نہیں تھی جس پر محنت کر کے وہ اپنی گزربسر کر سکے۔ گھر کے کسی فرد سے آنے والی اجرت کی یہ آمدن عیاشی نہیں، جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ضرورت تھی۔
ان ریاستوں میں بیوروکریسی، ملٹری، نظریاتی اور سوشل اعتبار سے اجرت پر مزدوری کی حوصلہ افزائی تھی۔ اور یہاں ایک دلچسپ چیز یہ تھی کہ یورپ میں ریاست نے بڑے جاگیرداروں کا اپنے لوگوں پر آہنی شکنجہ توڑ دیا تھا۔ لوگ آزاد ہو چکے تھے لیکن انہیں زندگی گزارنے کی لئے کام کرنے کی ضرورت تھی۔ اور فیکٹری ورکر بننا ایسا ہی ایک پیشہ تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply