اسکیپ ٹو پاکستان(Escape to Pakistan)/ڈاکٹر انور سعید(مترجم؛شاہین کمال)دوسری قسط

ڈاکٹر انور سعید صاحب کا تعلق چٹاگانگ سے ہے،حالیہ کراچی میں مقیم ہیں، جہاں  ماہر اطفال کے طور پر کام کررہے ہیں ۔  عمر کی 73 بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر اُن کے سفر نامے”Escape to Pakistan”کا اردو ترجمہ ہے،اس کے بارے خود ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ “اسے فرار کہہ لیجیے یا کہہ لیجیے کہ زندہ بھاگ۔یہ میری یعنی ڈاکٹر انور سعید کی دلگیر کہانی ہے۔ میرا کٹھن سفر نامہ جو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش سے پاکستان پہنچنے تک کی روداد ہے۔” شاہین کمال صاحبہ نے اس سفرنامے کا خوب ترجمہ کیا ہے۔

 

 

پہلی قسط کا لنک 

  • اسکیپ ٹو پاکستان(Escape to Pakistan)/ڈاکٹر انور سعید(مترجم؛شاہین کمال)پہلی قسط

دوسری قسط
پتھر گھاٹا
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم سب اپنے پتھر گھاٹا والے گھر کے صحن میں جمع تھے اور میں نانی جان کی گود میں بیٹھا انہیں اپنی رنگین پینسلوں کا ڈبہ دکھا ریا تھا۔ دراصل اگلی صبح میرے اسکول کا پہلا دن تھا اور میں نیا بستہ، اور رنگین پینسلیں پا کر بہت خوش تھا۔ نانی جان بھی پینسل کے ڈبے پر پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھیں پر میری تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ کہیں نانی جان میری ایک آدھ پینسل نہ لے لیں۔ میرے اسکول کا نام سینٹ پلیسڈ اسکول تھا اور یہ ہمارے گھر سے قریب ہی تھا۔ محض دس منٹ کی دوری پر، اشرف علی روڈ پر اسکول کی عمارت واقع تھی ۔

ہمارا بانس سے بنا گھر قدرے اونچائی پر تھا جہاں سے پکی سیڑھیاں نیچے احاطے میں اترتی تھیں۔ اسی احاطے میں دو اور گھر بھی تھے جہاں مختلف خاندان آباد تھے۔ احاطے میں ایک کنواں بھی تھا جو ہم سب کی پانی کی ضرورتوں کو پوری کرتا اور وہیں، عین احاطے کے وسط میں ایک اونچا سڈول ناریل کا درخت بھی تھا۔
ارے ہاں میرے بچپن کی ایک دہشت انگیز یاد بھی تو ہے۔ میں غالباً چار یا پانچ سال کا تھا تو میں کھو گیا تھا۔
کیسے؟؟؟

میرے پاس ایک سرخ رنگ کی تین پہیوں کی سائکل تھی جیسے میں بہت شوق سے اپنے گھر کے سامنے والی پتلی گلی میں چلایا کرتا تھا۔ وہ پتلی گلی ایک وسیع میدان میں کھلتی تھی جہاں اینٹوں کی بھٹی بھی تھی۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں کسی ماہر سائیکلسٹ کی طرح مست مگن اپنی سرخ سائکل چلا رہا تھا اور اس سے جڑی جو اگلی یاد ہے وہ یہ کہ میں اجنبی عورتوں کے درمیان بری طرح رو رہا تھا اور وہ انجانی مہربان عورتیں مجھے بہلانے اور کھلانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی تھیں ۔ جب اندھیرا پڑے میں گھر نہیں لوٹا تو پورے محلے میں میری ڈھونڈیا مچ گئی۔ میرا پریشان حال باپ فوراً کوتوالی دوڑا اور وہاں میری گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی ۔ رات گئے مجھے کچھ لوگ لیکر کوتوالی پہنچے اور مجھے پولیس کے حوالے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک مصروف شاہراہ پر اندھا دھند سائیکل چلا رہا تھا۔ سو دوستوں یہ ہے میرے والدین کی کوتاہی اور چاٹگام کے کچھ بھلے لوگوں کی دلفریب روداد۔

مغربی پاکستان میں گھر میں کام کرنے والی خاتون کو ماسی کہنے کا رواج ہے اور اسی طرح مشرقی پاکستان میں گھروں میں کام کرنے والے مرد مددگار “عبدل” کہلاتے تھے۔ ہمارے گھر بھی ایک عبدل تھا۔ ہمارا عبدل انتہائی مخلص ا ور بے زبان تھا۔ اس کی حیثیت گھریلو فرد جیسی تھی۔ اسے جب بھی فرصت ملتی میرے ساتھ کنچے کھیلتا، مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں ہارنے لگتا تو اس سے الجھ پڑتا تھا۔ عبدل ہر فن مولا تھا۔ گھر کے سارے کام اسی کے زمے تھے اور وقت پڑنے پر وہ الٹا سیدھا کھانا بھی پکا لیتا تھا۔ عبدل احاطے کے اندر ہی رہتا تھا۔
ہاں چلتے چلتے ایک اور مزے کا قصہ ہو جائے ۔ کبھی کبھی کسی لفظ سے کیسی کیسی یادیں جڑ جاتی ہیں ۔ لاس انجلس میں میرے ایک ڈاکٹر دوست رہتے تھے۔ جب ان کی دوسری بار طلاق ہوئی تو یار لوگوں نے وجہ جاننا چاہیں۔ جلے بھنے ڈاکٹر صاحب جلبلا کر بولے
” یارو وہ مجھے عبدل بنانا چاہتی تھی، گھڑی گھڑی مجھ سے اپنے حکم کی بجا آوری کی متمنی تھی۔”
آپس کی کشاکش کیا سہتا نازک تھا رشتہ الفت کا
وہ مجھ سے کھنچے میں ان سے کھنچا اور بیچ سے ناطہ ٹوٹ گیا

اماں ہماری سنیما کی بڑی رسیا تھیں۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ہم بھائی بہنوں کو ان کے پروگرام کی بھنک بھی نہ لگے مگر کہاں صاحب! میں بھی ایک کائیاں تھا، باوجود ان کی تمام تر پیش بندیوں کے میری چھٹی حس مجھے ان کے پروگرام سے آگاہ کر ہی دیتی اور میں پروانے کی طرح ان کے گرداگرد چکراتا رہتا۔ ان کی ہزار کوششوں کے باوجود میں اُس دن کھیلنے کے لیے باہر بھی نہیں جاتا۔ پل بھر کو نہ ان کی ساری کا پلو چھوڑتا اور نہ ہی انہیں اپنی نظروں سے اوجھل ہونے دیتا۔ پر جناب وہ بھی ہماری ہی اماں تھیں، آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا نا،

تم چلو ڈال ڈال، ہم چلیں پات پات۔ تو ہماری اماں ہمیں غچہ دے کر نکل ہی لیتی پر جیسے ہی مجھے ان کی غیر موجودگی کا احساس ہوتا میں کمان سے چھوٹے تیر کی طرح باہر کی اور دوڑ لگاتا۔ جب تک وہ سائیکل رکشے پر سوار روانہ ہو چکی ہوتی تھیں ۔ پر میں بھلا ہار ماننے والوں میں سے کب تھا۔ میری آنکھوں میں بھرے موٹے موٹے آنسو تواتر سے میرے گال بھیگونے لگتے، میں زار زار روتا، چیختا، بہتی آنکھ اور ناک کے ساتھ اپنی پوری جان لڑا کر رکشے کے پیچھے دیوانوں کی طرح دوڑتا۔ یہاں تک کہ اماں زچ ہو کر رکشے والے کو رکشہ سڑک کنارے روکنے کہتی اور میں اپنی بوشرٹ سے منہ ناک پوچھتا ہوا دھم سے رکشے کے پائیدان پر چکو مکو بیٹھ جاتا۔ پائیدان پر بیٹھنے کی وجہ یہ تھی کہ اماں کی کرائم پارٹنر، یعنی اماں کی سنیما بین سہیلی نہایت فربا تھیں سو وہ رکشے کی پلاسٹک سے مڑھی سیٹ کے تین چوتھائی حصے پر قابض رہتی ۔ بس جناب پائیدان پر خوشی سے سرشار بیٹھے بیٹھے ہمیں دوپہر کی دھوپ بھی چٹکتی چاندنی لگتی۔ ہماری منزل خورشید محل یا نرالا سنیما ہال ہوتا اور خوشی اس وقت دو آتشہ ہوتی جب انٹرول میں مزے سے ٹھنڈی بوتل نوش جان کی جاتی ۔ بھئ سچی بات تو یہ ہے کہ اِسی ٹھندی بوتل اور آلو کے کرارے قتلوں کے لیے ہی تو یہ سارا کھڑاگ اٹھایا جاتا تھا۔

ہمارا محلہ بہت اچھا تھا۔ وہاں ایک ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا قائم تھی۔ ہمارے سامنے والے پڑوسی بنگالی تھے اور ہم لوگوں کے ان سے بہت ہی اچھے مراسم تھے۔ وہ نہایت شفیق و با اخلاق تھے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد انہوں نے ہم لوگوں کی بھر پور حفاظت کی۔ وہ ہم لوگوں کی خاطر شہدوں اور غنڈوں کے آگے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اسی طرح آرمی آپریشن کے دوران ابا جان نے ان کی اور ان کے کنبے کی حفاظت اور دیکھ بھال کی تھی ۔ ہمارے اپنے محلے کے تمام گھرانوں سے بہت خوشگوار مراسم تھے، چاہے وہ بنگالی تھے، غیر بنگالی، ہندو یا عیسائی۔ وہ رواداری، محبت اور لحاظ کا زمانہ تھا۔ مذہبی منافرت کا کہیں دور دور گزر نہیں تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ درگا ماں کی پوجا کے لیے ہماری گلی میں منڈپ سجتا تھا اور ہم بچے بنا تفریقِ مذہب اپنا بیشتر وقت وہیں منڈپ میں گزارتے تھے۔ اسی طرح کرسمس کی شام ہمارے احاطے میں کرسمس کیرل گانے کے لیے کیتھولک چرچ سے عورتیں اور بچے آتے تھے اور ہم بچے بھی لہک لہک کر ان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کیرل گاتے تھے۔ کوئی دوری نہیں تھی، کوئی دوئی نہیں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت گزرتا گیا اور میں سینیٹ پلیسڈ سے ہائی اسکول سے دسویں جماعت پاس کی سرٹیفکیٹ لے باہر آ گیا۔ اس مادر علمی نے میرے ذہن و دل پر گہرے نقوش چھوڑے اور مجھے سکھایا کہ محنت میں کوئی عار نہیں خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کام کیوں نہ ہو۔ مجھے یہ بھی سکھایا کہ انسانی جوہر، صبر اور برداشت ہیں۔ زندگی کی خوبصورتی جیو اور جینے دو میں ہے۔ میں اخلاقیات کے ان اصولوں کی پاسداری کے لیے عمر بھر کوشاں رہا ہوں ۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply