ذہانت (15) ۔ انصاف/وہاراامباکر

عدالت کا کام کسی کو قصوروار یا بے قصور ٹھہرانا ہے۔ اور یہ exact نہیں کیا جا سکتا۔ جج کوئی بھی ہو، اس میں precision نہیں لائی جا سکتی۔ اور قانون کی لغت میں “کافی شواہد”، “معقول شک و شبہہ سے بالاتر” جیسے الفاظ ہیں۔ اس میں اپیل کرنے کا پراسس بھی اسی لئے اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں اس حقیقت کو قبول کیا جاتا ہے کہ مکمل یقین ناممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

لیکن ہمیں کئی بار بہت صاف مثالیں نظر آتی ہیں (جیسا کہ رابنسن اور جانسن کی مثل) جو غلط لگتی ہیں۔ کسی بھی فیصلہ لینے میں بہت سے عوامل ہوتے ہیں لیکن ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر قانون کے نتائج میں یکسانیت ہو گی۔ اگر ایک فرضی دنیا میں میں نے اور آپ نے بالکل ایک ہی جرم کا ارتکاب کیا ہے تو ہماری توقع ہو گی کہ سزا بھی ایک ہی ہو گی۔
اس پر تحقیق کے لئے امریکہ میں ورجینیا کے 47 ججوں سے الگ الگ فرضی کیسوں کے بارے میں ان کی آراء پوچھی گئیں۔ مثال کے طور پر ایک سوال تھا،
“ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کو چرس رکھنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ اس کی گرفتاری سات دوستوں سمیت ہوئی ہے۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ اس گروپ کے پاس چرس بہت مقدار میں تھی۔ لیکن اس لڑکی کے پاس سے براہِ راست چرس برآمد نہیں ہوئی۔ اس لڑکی کا پہلے جرم کرنے کا ریکارڈ نہیں۔ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق ہے۔ اچھی طالبہ ہے۔ اپنے کئے پر نہ ہی فخر ہے اور نہ ہی اس پر شرمسار ہے”۔
ججوں کی رائے میں فرق ڈرامائی تھا۔ 29 نے اسے بے قصور قرار دیا جبکہ 18 نے قصوروار۔ جن لوگوں نے قصوروار قرار دیا تھا ، ان مین سے آٹھ نے probation تجویز کی۔ چار نے جرمانہ کیا۔ تین نے جرمانہ اور پروبیشن دونوں کئے۔ جبکہ تین اسے جیل بھیجنے کے حق میں تھے۔
ایک ہی کیس اور ایک ہی شواہد، ملزم کے ساتھ کیا ہو گا؟ وہ گھر جائے گا یا جیل؟ اس کا تعلق اس سے ہے کہ قسمت (یا بدقسمتی) سے جج کونسا ملتا ہے۔
اگرچہ یہ ان لوگوں کے لئے بری خبر ہو گی جو عدالت سے یکساں معیار کی توقع رکھتے ہیں لیکن یہ اس سے بھی برا ہے۔ نہ صرف جج ایک دوسرے سے متفق نہیں ہوتے بلکہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے فیصلوں سے بھی متفق ہوں۔
برطانیہ میں 81 ججوں پر سٹڈی کی گئی کہ وہ مفروضاتی ملزمان کو ضمانت دیں گے یا نہیں۔
ہر کیس کے ساتھ ایک مفروضاتی کہانی تھی اور ملزم کی ہسٹری تھی۔ پہلے کی سٹڈی کی طرح اس میں بھی جج آپس میں متفق نہیں تھے۔ لیکن اس میں ایک اور ہوشیار چیز ڈالی گئی۔ کل 41 کیس تھے جس میں سے سات ایسے تھے جو دو مرتبہ آتے تھے۔ صرف لوگوں کے نام بدلے گئے تھے۔ اس سے نکلنے والے نتائج دلچسپ تھے۔ زیادہ تر جج خود اپنے سے ہر بار متفق نہیں تھے!
ایسی کئی سٹڈیز دہرائی جا چکی ہیں اور ہر بار ایسا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر فیصلہ جج کی مرضی پر چھوڑا جائے تو عدالتی نظام میں قسمت کا بڑا کردار ہو گا۔
ہم چاہیں گے کہ ضمانت یا سزا جیسے معاملات میں ایک ہی جرم پر ایک ہی سزا ہو۔ کچھ ممالک نے اس کا طریقہ یہ لیا ہے کہ اس بارے میں جج کی صوابدید ختم کر دی ہے۔ امریکہ میں فیڈرل سطح پر اور آسٹریلیا میں کئی جگہ پر سزا سنانے کا سسٹم جج کی صوابدید پر اب نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور طرح کا مسئلہ ہے۔ جہاں پر consistency بہتر ہوتی ہے، وہاں پر اس کی قیمت fairness کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے لئے فرض کیجئے دو ملزمان ہیں۔ دونوں کو دکان سے چوری کے جرم میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک عادی مجرم ہے جس کے لئے یہ چوری ایک انتخاب اور پیشہ تھی۔ دوسری طرف ایک شخص ہے جو ابھی حال میں ہی بے روزگار ہوا ہے اور مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے چوری کی تھی اور اپنے کئے پر نادم ہے۔ اگر جج کو یہ حالات دیکھ کر فیصلہ کرنے کی آزادی نہ ہو تو دونوں کو ایک ہی سزا ملے گی۔ کسی کے لئے ضرورت سے زیادہ سخت اور کسی کے لئے ضرورت سے زیادہ نرم۔
اور یہ ایک مشکل مخمصہ ہے۔ زیادہ تر ممالک اس کو حل کرنے کے لئے درمیان کا راستہ لیتے ہیں۔ ایک طرف امریکی فیڈرل قانون کی انتہا ہے جس میں جج کے لئے کوئی لچک نہیں جبکہ دوسری انتہا سکاٹ لینڈ کی ہے جس میں مکمل طور پر جج کی صوابدید ہے۔ کئی ممالک (جیسا کہ آئرلینڈ) میں زیادہ سے زیادہ سزا قانون طے کرتا ہے۔ کئی ممالک ( جیسا کہ کینیڈا) میں کم سے کم سزا۔ جبکہ کچھ (جیسا کہ برطانیہ یا ویلز) میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم دونوں کی حد۔ اور جج کو ان حدود کے اندر ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
کوئی بھی نظام پرفیکٹ نہیں۔ انصاف ایک بہت مشکل معاملہ ہے۔ اور اس پیچیدگی اور تنازعے کے درمیان ہمیں ایک اور حل نظر آتا ہے۔ یہ الگورتھم ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply