میڈیکل کالج کی لڑائیاں۔۔۔محمد شافع صابر

وہ فائنل ائیر کا ابوبکر ہے نا، شوخا سا ۔۔ اپنے  آپ کو بڑا چالاک سمجھتا ہے، اپنی پروکسی لگوا لیتا ہے، لیکن جب ہماری لگ جائے تو اسے موت پڑجاتی ہے۔۔وہ ہوتا کون ہے ہماری پروکسی کٹوانے والا، اب میں دیکھتی ہوں کہ وہ پروکسی لگواتا تو لگواتا کیسے ہے۔۔۔

ہر میڈیکل کالج کا سٹوڈنٹ اس فقرے سے واقف ہے، کہنے کو تو یہ ایک عام سا فقرہ ہے، مگر اس کے پیچھے لڑائیوں کی  طویل داستانیں رقم ہیں۔ ایسی لڑائیاں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔
میڈیکل کالج اور لڑائیاں ایسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے میڈیسن وارڈ اور percussion ، یہ دونوں ایسے ضروری ہیں جیسے absence اور پروکسی، یہ دونوں ایسے ہی قریب ہیں جیسے examination اور bedside ۔

اگر آپ میڈیکل سٹوڈنٹ ہیں اور  آپ نے پانچ سالوں میں کوئی لڑائی نہیں کی، نہ  ہی کسی لڑائی میں حصہ لیا، کلاس کے پنگوں میں ٹانگ نہیں اڑائی تو یقین مانیے آپ نے میڈیکل کالج میں کچھ بھی نہیں کیا، لڑائیوں کے بنا ،آپ میڈیکل کالج میں انجوائے کر ہی نہیں سکتے۔

اگر آپکی کلاس میں سپورٹس ویک، تھیم ڈے، کلاس فنکشن، tour کی وجہ سے لڑائی نہیں ہوئی ، پنگے نہیں ہوئے تو  آپ کسی بھی طور پر میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ ہر گز نہیں، ہر کالج میں ان موقعوں پر لڑائی  لازم و ملزوم ہے۔

میڈیکل کالج کی لڑائیاں بھی بڑی دلچسپ ہوتی ہیں، عام کالجز میں تو گروپنگ ہوتی ہے، لیکن میڈیکل کالج میں گروپنگ ہوتی ہے، اس گروپنگ کے اندر سب گروپنگ ہوتی ہے، اس سب گروپنگ کے جو ارکان ہوتے ہیں، ان کے درمیان بھی ایسی لڑائی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔

ایک گروپ کہتا ہے کہ ہم نے یہ کرنا، دوسرا کہتا کہ ہم نے وہ کرنا، اسی کشمکش میں تیسرے گروپ کی فلمی انٹری ہوتی ہے تو باقی دو ہکابکا رہ جاتے ہیں ۔
میڈیکل سٹوڈنٹس بھی کمال کی لڑائی لڑتے ہیں، جو لائق ہوتے ہیں وہ آپس میں اس وجہ سے لڑتے ہیں کہ وہ کسی طرح پروفیسر کی گڈ بکس میں آ جائیں تاکہ distinction آ جائے، جو نالائق ہوتے ہیں وہ اپسی  میں اس لیے لڑتے ہیں کہ وہ کسی طرح نظروں میں آ کر پاس ہو جائیں۔

سال بعد سپورٹس ویک آتا ہے تو اس لیے لڑتے ہیں کہ میں نے organize کروانا، پھر وہ لڑائی  ہوتی ہے کہ ہلاکو خان بھی دنگ رہ جائے۔
پھر اگر کوئی  ٹور کی بات چھیڑ دے تو سونے پہ سہاگا، پھر اس بات پہ لڑتے ہیں کہ اگر ٹور جانا ہے تو جانا کہاں؟ جانا تو جانا کیوں؟ کتنے دن کے لئے جانا؟ جانا کیسے؟ پھر جتنے  زیادہ گروپس اتنی زیادہ لڑائیاں۔

لڑائی صرف ان باتوں تک محدود نہیں رہتی، اگر ایک گروپ نے کسی دوسرے گروپ کے کسی ممبر کی پروکسی کاٹ دی یا کٹوا دی تو پھر پانی پت کی جنگ شروع ہو جاتی ہے جو سالوں تک چلتی ہے۔ کلاس ٹیسٹ ہو تو ہر گروپ اپنی جگہ پکی کر لیتا ہے، اگر کوئی  بندہ وہاں بیٹھ جائے تو کارگل کی جنگ شروع۔

ان لڑائیوں کے دوران کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں، لیکن دراصل اندر ہی اندر کسی کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، یہ جلتی پہ تیل ڈالنے کی کیٹیگری میں آتے ہیں، ان کا بس چلے تو آگ پہ تیل نہیں پورا پیٹرول پمپ ہی چھڑک دیں تاکہ لڑائی  کبھی ختم ہی نہ ہو۔

کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کہ ہر لڑائی  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر جیسے ہی بات آگے جاتی ہے، یہ آرام سے پچھے ہٹ جاتے ہیں، یہ آتے ہیں چنگاری لگانے کی کیٹگیری میں، یہ میڈیکل سٹوڈنٹس بہت مسینے ہوتے ہیں۔

ابھی پرسوں کی بات ہے، ایک صاحب جن کا نام کلاس کے ہر پنگے میں آتا ہے، ہر کسی سے لڑتے ہیں، سے کسی نے پوچھا کہ  آپ  اتنا لڑتے کیوں ہیں، تو آگے سے بولے” میں نے تو آج تک کسی سے لڑائی  نہیں کی” اللہ ایسی سادگی پہ قربان جائے۔

کلاس میں تو لڑائی ہوتی ہی رہتی ہے، سپورٹس ویک میں کلاسز کی آپس کی لڑائیاں بھی قابل دید ہوتی ہیں، اس sports rivalry میں ایسے ایسے فقرے کسے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے،
اس سال 4th اور فائنل ائیر کی لڑائی  بھی کچھ ایسی تھی، گرلز کرکٹ کا میچ تھا، ایک صاحبہ رن آؤٹ ہو گئی، انہوں نے ڈال دیا رولا۔ ا ن کی سپورٹ میں ان کی کلاس نے پیچ پر دھرنا دے دیا، دھرنا بھی اچھا خاصا، پھر ایسی نعرے بازی ہوئی  کہ ڈی چوک بھی حیران رہ جائے۔

یہ لڑائیاں صرف کلاس تک محدود نہیں رہتیں ، ان کا دائرہ سوشل میڈیا تک پھیل جاتا ہے، کلاس میں تو گروپنگ ہوتی   ہی ہے، ساتھ ہی فیس بک پہ بھی گروپ بن جاتے ہیں، میسنجر ڈپلومیسی عروج  پہ ہوتی ہے، یوں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین تین محاذوں پہ لڑائی لڑی جاتی ہے۔

اگر یہ لڑائی  دو گرلز گروپس کے در میان ہوتی ہے تو پھر لڑائی  لڑائی نہیں رہتی بلکہ اٹیمی جنگ بن جاتی ہے، وہاں وہاں سے فقرے کسے جاتے ہیں کہ بندہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ یااللہ ماجرہ کیا ہے؟ ایک گرلز گروپ کہتا ہے کہ ہم نے یہ کرنا، دوسرا کہتا ہے اچھا یہ کلاس تمہارے ابوجان کی ہے جو تم کرو گی، ہم یہ کریں گی ۔۔۔ پھر وہاں وہاں سے لڑائی  ہو گی کہ ٹیپو سلطان بھی حیران رہ جائے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟

کل ہی ایک صاحبہ کہہ رہی تھی میں بھی دیکھتی ہوں کہ وہ یہ کرتی تو کرتی کیسے؟ وہ مجھے جانتی نہیں، جسے کہہ رہی تھی اس نے سن لیا، وہ آگے سے بولی ہاں میں جانتی ہوں تمہیں “کیونکہ تم میراثن ہو۔۔” پھر دنیا والوں نے نئی  لڑائی  دیکھی۔

ان سب کے باوجود، جب باری آتی ہے کلاس کی، تو سب ایسے اکھٹے ہوتے ہیں کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔ پھر ایسا بھائی  چارہ دکھاتے ہیں کہ بھائی  چارہ بھی حیران رہ جاتا ہے۔
میڈیکل کالج کا حسن ہی یہ لڑائیاں ہیں، اگر یہ لڑائیاں نہ  ہوں  تو وہ کالج تو ہو سکتا ہے میڈیکل کالج ہر گز نہیں ہو سکتا، اگر لڑائیاں لمبی ہونے  پہ آئیں تو سالوں چلیں، ختم ہونے پہ آئیں تو منٹوں میں ختم۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیانے کہتے ہیں کہ لڑائی  ہوتی ہی وہاں ہے جہاں پیار ہو، احساس ہو، اگر احساس نہ ہو تو لڑائی کیسی؟۔۔ ہم ان سے ہی لڑتے ہیں جنہیں ہم کھونے سے ڈرتے ہیں، جن کے بنا ہم خود کو ادھورا تصور کرتے ہیں ۔۔۔
میڈیکل کالج کے پانچ سال بھی ایسے ہی ہوتے ہیں، زندگی سے بھرپور، احساس سے مزین، جہاں لڑائیاں ہوتی اور بہت ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ لڑائیاں لڑتے لڑتے ہی پانچ سال گزر جاتے ہیں، جب جدائی  کا وقت آتا ہے تو سب نم آنکھیں لیے منہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔۔ پھر کوئی  فیصل آبادی جگت مار دیتا ہے ،سب ہنس دیتے ہیں اور ہر لڑائی  ختم۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply